پاکستان اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمدؐ   کی پناہ میں ہے

  پاکستان اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمدؐ   کی پناہ میں ہے
  پاکستان اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمدؐ   کی پناہ میں ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند وہ عظیم سائنسدان ہیں،جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بنائے ہوئے ایٹم بم کے چاغی اور راسکو کے مقامات پر چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے خود کو پاکستانی قوم سے متعارف کروایا۔اس سے پہلے کوئی بھی انہیں جانتا نہیں تھا۔میری ان سے ملاقات ایک مرتبہ لاہور اور دوسری مرتبہ اسلام آباد میں ان کے دفتر میں ہوئی تھی،لیکن تفصیلاً گفتگو کا موقعہ 15مئی 2015ء کی اس شام آیا، جب میں ایئروائس مارشل (ر) فاروق عمر کے ہمراہ اسلام آباد کے پاک فضائیہ ریسٹ ہاؤ میں پہنچا۔وہاں پہنچنا اور ایک رات وہاں قیام پذیر ہونا یقینا مجھ جیسے عام آدمی کے لئے اعزاز کی بات ہے۔شام کا اندھیرا چھانے سے پہلے میں نے اپنے دوست ایئروائس مارشل (ر) فاروق عمر صاحب سے کہا کہ اگر آپ کی کوئی اور مصروفیات نہ ہو تو ہمیں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمرمبارک مند سے ملاقات کرنی چاہئے۔ ان کا نام سن کے فاروق عمرصاحب فورا تیار ہو گئے اور میں نے ڈاکٹر ثمر مبارک مندصاحب سے موبائل پر رابطہ قائم  کیا تو انہوں نے نہایت محبت سے فرمایا اگر آپ اسلام آباد میں ہیں، توآپ سے ملاقات ضرور ہونی چاہئے،چنانچہ میں، میرا بیٹا محمد شاہد لودھی اور فاروق عمر ان کے گھر جا پہنچے۔میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا،وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار وغیرہ کوئی نظر نہیں آیا۔میں نے جب یہی سوال ان سے کیا تو انہوں نے ایک خوبصورت واقعہ سنایا جو کچھ اس طرح ہے۔انہوں نے بتایا کہ کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے کے بعدمیں میرا  اور میرے ساتھیوں کاطیارہ نورخاں ایئرپورٹ پر اُترا تو کسی کو کانوں کان خبرنہ تھی کہ میں نے ہی کامیاب ایٹمی دھماکے کیے ہیں اور نہ اخبارات میں میری تصویریں شائع ہوئی تھیں۔دوسرے لفظوں میں، مَیں ایک عام شخص تھا،مجھے صرف وہی لوگ جانتے تھے،جو میری ذات سے وابستہ تھے۔میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے باقاعدگی سے اپنے دفتر جانے لگا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک اجنبی شخص مجھے ملنے آیا۔ دوران ملاقات اُس نے بتایاکہ ایک بزرگ آپ سے ملناچاہتے ہیں۔میں نے نہایت ادب سے جواب دیا اگر وہ بزرگ ہیں تومیں خودان سے ملنے جاؤں گا۔میں نے اس بزرگ کا ایڈریس لے کر اس لئے اپنے پاس محفوظ کر لیاکہ جب وقت میسر ہو گا تو میں ان سے ملنے خود جاؤں گا۔ ان کا ایڈریس خیبرپختونخوا کے ضلعی مقام  بونیر کا تھا۔کچھ ہفتوں بعد میں ایک دوست کے ساتھ کسی پروٹوکول کے بغیر ان کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جا پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دو منزلہ مکان ہے۔ گراؤنڈ فلور پرکافی عقیدت مند ایک بزرگ کو گھیرے بیٹھے ہوئے تھے۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ میں نے ابھی مین دروازے میں قدم رکھا ہی تھا کہ ان بزرگوں کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔وہ سب کو چھوڑ کر اُٹھے اور مجھ سے گرمجوشی سے مصافحہ کرکے فرمایا، چلیں اوپر بیٹھتے ہیں۔میں اور میرا دوست بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔جب ہم اطمینان سے بیٹھ گئے تو بزرگ نے گفتگو کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا، کیا آپ کا نام ڈاکٹر ثمرمبارک مند ہے۔میں 

نے ہاں میں سرہلا دیا۔ پھر وہ بولے آپ مجھے بتایئے کہ چاغی میں جہاں آپ نے ایٹمی دھماکے کیے ہیں،وہاں سانپ اور بچھو کتنے تھے۔ ڈاکٹر ثمر نے کہا، بہت زیادہ تھے کئی بار تو ہمارے جسم پر رینگتے نظر آتے، پہلے پہل تو ہم ڈرتے رہے پھر جب ہم نے محسوس کیا کہ زہریلے جانور ہمیں کچھ نہیں کہتے تو ہم بھی بے خوف ہو گئے۔میری یہ بات سُن کر وہ بزرگ بولے ڈاکٹر صاحب سانپ اور بچھو کا کام ہی انسانوں کو ڈسنا ہے، پھر انہوں نے آپ کو اور آپ کے کسی ساتھی کو ڈسا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا یقینا یہ ہمارے لئے انکشاف تھا۔ بزرگ بولے جس طرح آگ کو اللہ تعالیٰ نے منع کردیا تھا کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلانا،اسی طرح سانپوں اور بچھوؤں کو بھی خدائی حکم تھا کہ کسی کو نہیں ڈسنا۔بزرگ پھر بولے ڈاکٹر صاحب کمپیوٹراور ایٹم بم کے مابین جو رابطہ تار بچھی ہوئی تھی کیا اس میں پانی نہیں آ گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا جی ہاں۔ایسا ہو گیا تھا۔ نارمل حالات میں وہ پانی کتنے دِنوں میں خشک ہوتاہے،ڈاکٹر صاحب نے بتایا اگر مزید پانی نہ آئے تو تین چار دن لگ جاتے ہیں۔ بزرگ پھر بولے آدھے گھنٹے میں آپ کے کمپیوٹر کا رابطہ پہاڑ کی تہہ میں رکھے ہوئے ایٹم بم سے کیسے ممکن ہو گیا۔ ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا ہم خود اِس بات پر حیران تھے، کیونکہ بار بار وزیراعظم نواز شریف رابطہ کر کے پوچھ رہے تھے۔ کتنی دیر باقی ایٹمی دھماکوں میں۔ان کا کہنا تھا اگر ایٹمی دھماکے نہ ہوسکے تو پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہو جائے گا۔ ہم پریشان تھے کہ کہیں ہم واقعی ناکام ہی نہ ہو جائیں۔ بزرگ بولے پھراتنی جلدی کیسے سب کچھ ایکٹو ہو گیا؟اللہ کے حکم سے فرشتوں نے یہ کام کیا تھا تاکہ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والا ملک دنیا کے سامنے رسوا نہ ہو جائے۔ڈاکٹر صاحب آپ حیران نہیں ہوئے کہ میں نے آپ کو ایک نظر دیکھ کر کیسے پہچان لیا؟ڈاکٹر صاحب نے کہا جی یہ بات میرے لئے بھی حیران کن ہے۔کچھ دیر ماحول پر خاموشی طاری رہی، پھر بزرگ بولے کہ نبی کریمؐ کی صدارت میں ایک روحانی اجلاس مسجد نبویؐ میں ہوا تھا، جس میں پوری کائنات کے اولیاء اللہ، قطب،ابدال اور صحابہ کرام ؓ  بھی موجود تھے،اس روحانی محفل میں،میں بھی موجود تھا۔نبی کریمؐ نے آپ کی شبیہ دکھا کر فرمایا تھا ان کا نام ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہے، ان کی ڈیوٹی پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ہر حال میں حفاظت کرنی ہے۔ہم آپ کو نظر نہیں آ رہے تھے، لیکن آپ اور آپ کی ٹیم کی حفاظت کے فرائض نہایت ذمہ داری سے نبھا رہے تھے۔امریکہ کا اواکس طیارہ پاکستان کی سرزمین کے چپے چپے کی سکیننگ کر رہا تھا تاکہ دیکھ سکے کہ کہاں ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اواکس کے سسٹم کو بھی ہم نے بلاک کر دیا تھا تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ پھر وہ بزرگ بولے ڈاکٹر ثمر مبارک مند صاحب کلمہ طیبہ کے نام سے بننے والے کے تحفظ اور دفاع کے لئے اب آپ میزائل ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں،آپ وطن عزیز کی سلامتی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس لئے آپ کا بال بیکا بھی کوئی نہیں کر سکتا۔آپ باوضو ہو کر پُرسکون طریقے سے اپنا کام جاری رکھیں۔اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے حکم سے فرشتے آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرثمر مبارک مند صاحب کی حیرت انگیز باتیں سن کر سب ورطہ حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے اور ہمیں وقت گزرنے کااحساس بھی نہ رہا۔ بعد میں انہوں چائے اور لوازمات کے ساتھ ہماری خاطر تواضع کی۔اس کے بعد ہم نے ان سے اجازت لی اور پاک فضائیہ کے ریسٹ ہاؤس میں رات بارہ بجے آ پہنچے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -