دھونس، دباؤ، دھمکیوں کی سیاست غیر جمہوری روش
گزشتہ 13 ماہ سے پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کی شدت کے باعث امن و امان اور پرسکون حالات کے قیام کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ حالانکہ معاشرے کے مختلف شعبوں سے منسلک اکثر طبقوں کی یہ دلی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے معمولات زندگی پر امن حالات میں گزار سکیں۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنے روز مرہ اوقات کے پروگرام تبدیل کرنے پر بھی راغب ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہے اور وہ اپنی مختلف نوعیت کی شب و روز کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔ لیکن گزشتہ کئی ماہ سے ملک کے بیشتر علاقوں میں بدقسمتی سے پرامن فضاء تاحال قائم نہیں ہو سکی۔اس امر کی خواہش تو ہر علاقے میں رہنے والوں کی ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے لئے اپنے تئیں کوشاں بھی ہیں لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے سیاسی شعبہ میں بعض زیادہ سر گرم حضرات یہاں دیگر آئینی اور قانونی امور سے قطع نظر ممکنہ طور پر جلد پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چند ماہ قبل ان دونوں منتخب اراکین پر مشتمل اسمبلیوں کی تحلیل اپنے وزرائے اعلیٰ کو حکم دے کر کرائی تھی حالانکہ پنجاب اسمبلی کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی مسلم لیگ (ق) کے رہنما تھے اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ وہ اس اسمبلی کو تحلیل کرنے پر خود بھی رضا مند نہیں تھے بلکہ انہوں نے تو اس اسمبلی کے کئی منتخب اراکین کی اس بارے میں آزادانہ رائے بھی لی تھی اور ان اراکین کی غالب اکثریت نے بھی اس وقت اسمبلی مذکور کی تحلیل کرنے کی واضح الفاظ میں مخالفت کی تھی۔ لیکن ان حقائق کے باوجود عمران خاں نے پہلے پنجاب اسمبلی تحیل کرنے کو ترجیح دی۔
پھر چند ہفتوں کے بعد خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی بھی وہاں اپنے وزیر اعلیٰ محمود خاں کو حکم دے کر تحلیل کرا دی گئی۔ ان دونوں منتخب مکمل ایوانوں کو پھر جلد ہی دوبارہ منتخب کرانے کی قانونی کارروائی متعلقہ عدالتوں میں شروع کر دی گئی یہاں ملکی سیاسی امور سے دلچسپی رکھنے والے اکثر حضرات و خواتین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ عمران خان پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس کے آئینی طور پر جلد دوبارہ بحالی کے حامی ہونے کی حیثیت سے دوبارہ انتخابات کا فوری انعقاد کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاکہ وہ جلد مذکورہ بالا اسمبلیوں کے اکثریتی منتخب اراکین کی تائید و حمایت حاصل کر سکیں۔ لیکن ایسی مسلسل کوششوں کے باوجود تا حال مذکورہ بالا دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد غالباً اس لئے ممکن نہیں ہوا کہ ملک کی حکومتی اتحادی جماعتیں اس بارے میں قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب بھی ماہ اکتوبر میں اکٹھا یعنی ایک روز ہی کرانا چاہتی ہیں کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ محض پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات پہلے کرانے سے ان ایوانوں میں جس سیاسی جماعت یا اتحاد کی حکومت بنے گی تو بعد میں قومی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیوں کے الگ انتخابات کے انعقاد کے نتائج پر پہلی منتخب شدہ اکثریتی اراکین کی صوبائی حکومتوں کا بعد کے انتخابات کو متاثر کرنے کا قوی امکان ہے۔ عمران خان اور حکومتی اتحاد تا حال اس معاملے پر متعلقہ عدالت میں مقدمہ بازی کرتے آئے ہیں اور حالیہ چند ہفتوں کے دوران فریقین کے مابین مذاکرات بھی چند روز جاری رہنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے۔
مذکورہ بالا سیاسی کشمکش اور چپقلش کے حالات میں مورخہ 9 مئی کے لاہور، پشاور، کراچی، میانوالی اور دیگر سرکاری عمارات، املاک اور تنصیبات کو سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور سازش کاری کی تیاری سے ان اداروں کی جارحانہ اور ظالمانہ انداز سے جو پر تشدد کارروائی اور تخریب کاری سے تباہی رو نما کی گئی۔ ان کے غم و غصے میں ملک بھر کے محب وطن اور با شعور حضرات و خواتین ان ملک دشمن اور اقتدار کی حرص و ہوس کے حامی افراد کی ان غیر قانونی اور تباہ کاری پر مبنی وارداتوں پر شب و روز مذمت اور ملامت کر کے ان کی سیاسی ستم گری کے دل خراش واقعات کے ارتکاب پر اظہار افسوس اور خون کے آنسو بہا رہے ہیں جبکہ اس بارے میں ملکی سیاست میں استحکام اور معاشی بہتری کے لئے ہر ذمہ دار اور امن و انصاف پسند شخص کو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے مطابق مثبت اور قابل قدر کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ قانون اور آئین کی کھلی خلاف ورزی اور پامالی کرنے والے افراد کے خلاف دہشت گردی کی موجودہ عدالتوں میں غلط کار ملزمان کیخلاف مقدمات چلا کر ان کو سزا دلائی جا سکے گی اور وہ ملزمان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں اور متعلقہ قانونی چارہ جوئی کر سکے اپنی بے گناہی ثابت کر کے سزا دینے کے فیصلوں کو کالعدم کرا سکتے ہیں تاہم آئندہ سے ملک میں سیاسی سرگرمیاں پرامن انداز اور آئین و قانون کی پاسداری میں ہی حکومتی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن نمائندوں کے مابین جاری رکھتے ہوئے عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طور پر کرانے کی کوششیں خلوص نیت سے کی جائیں۔ اس عرصہ کے دوران عدالتی احکام کے احترام اور تعمیل کی کارکرگی میں ذمہ داری سے حصہ لینے کا مظاہرہ کیا جائے۔اگر اب بھی سیاسی کردار ادا کیا جائے تو معاشی استحکام جلد حاصل ہو سکتا ہے۔