ٹینشن فری مرشد سے ملاقات

   ٹینشن فری مرشد سے ملاقات
   ٹینشن فری مرشد سے ملاقات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے مہربانوں میں کچھ ایسے نابغے بھی موجود ہیں جن کے پاس بیٹھو تو لگتا ہے دنیا ٹینشن فری ہے۔ ایسے لوگ درحقیقت ایک نعمت ہوتے ہیں،جو بغیر کچھ نشہ دیئے بندے کو سب کچھ بھلا کر مطمئن و مسرور کر دیتے ہیں۔کل ایسے ہی ایک آستانے پر جانے کا موقع ملا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میں خود گیا، کیونکہ ذہن میں عجیب و غریب انتشاری ہوائیں چل رہی تھیں، ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی،جو مجھے ملتے ہی دکھڑے نہ سنائے،ملک کے حالات پر مایوسانہ تبصرے نہ کرے، بلکہ ساری مایوسیوں کو دھوئیں میں اُڑا کے نہال کر دے۔ سو  اس بے تاج مرشد کے پاس چلاگیا۔ اتفاق سے اکیلے بیٹھے تھے،میں نے رسمی علیک سلیک کے بعد ہر اُس بندے کی طرح جو اپنے گلی محلے کی بجائے ملکی حالات میں کچھ زیادہ ہی ٹانگ اڑاتا ہے، اُن سے کہا جناب آرمی چیف اور دیگر سروسز چیفس کی مدت پانچ سال کر دی گئی ہے،انہوں نے لاابالی انداز میں سنا اور کہا معلوم ہے۔مجھے لگا میرا فائر خالی گیا ہے۔ میرا خیال تھا وہ اس پر اپنی رائے دیں گے۔ مجھے مطمئن کریں گے،مگر وہ تو ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر میں نے کہا سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد دوگنا کر دی گئی ہے۔ 17کی بجائے34 ہوں گے۔ہاں میں جانتا ہوں، کل سن لیا تھا۔ میں نے کہا حضور آپ کو پتہ ہے سپریم کورٹ کا ایک جج قوم کو ماہانہ کتنے میں پڑتا ہے جتنے میں بھی پڑے ہمیں اِس سے کیا لینا دینا، جو رکھ رہے ہیں وہ جانیں اُن کا کام۔مجھے پھر مایوسی ہوئی۔ خیر میں نے آخری حربے کے طور پر ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔ یہ موجودہ پارلیمنٹ نے تو قوانین بنانے کی فیکٹری لگا دی ہے اتنی تیزی سے کبھی قانون سازی ہوئی تھی؟ یہ سن کرکہنے لگے،”چلو کچھ تو کر رہے ہیں ناں“ پھر خاموشی۔ مجھے مایوس دیکھ کر کہنے لگے،تم نے جتنے سوال کئے ان پر گھنٹوں گفتگو کی جا سکتی ہے،دور دور کی کوڑیاں لا کر دانشوری کا میلہ سجایا جا سکتا ہے، لیکن بھائی کبھی تم نے پنجابی  کی وہ کہاوت سنی ہے،”پلے نئیں دھیلہ تے کر دی میلہ میلہ“۔ میں نے کہا ہاں سنی تو ہے۔کہنے لگے تو پھراس پر عمل کرو۔ میلہ میلہ کرتے رہو اور موج میلہ لگاتے رہو۔باقی سب باتیں تو ہمارے سے بہت اوپر کی ہیں۔پھر پوچھنے لگے،آج صبح واک کے بعد ناشتہ کیا تھا، میں نے کہا جی ڈٹ کر کیا۔پھر پوچھا اُس میں کیا کیا تھا، میں نے بتا دیا، پھر پوچھا انڈہ دیسی تھا یا ولایتی، بتایا ولایتی،سوال آیا آملیٹ تھا یا فرائی،جواب دے دیا۔ آٹا بازارکا لیتے ہو یا خود پسواتے ہو، میں نے کہا خود پسواتا ہوں۔اس دفعہ بجلی کا بل کتنا آیا ہے۔مجھے یاد تھا بتا دیا،گیزر چلایا ہے یا نہیں، جواب دیا بس بوقتِ ضرورت چلاتے ہیں۔مٹن کھاتے ہو یا چکن، بتایا چکن تو مہینے میں ایک بار آتا ہے۔زیادہ مٹن ہی پکتا ہے۔میں اُن کے سوالات سے جھنجھلا گیا، عرض کی یہ آپ مجھ سے کیسے سوال کر رہے ہیں،ملک کے مسائل تو کچھ اور ہیں۔اُن پر آپ روشنی نہیں ڈال رہے،تھوڑی سی معنی خیز مسکراہٹ اُن کے چہرے پر آئی،پھر کہنے لگے، ہمارے مسائل مقامی ہیں اور سوچیں اسلام آبادی، جن باتوں کا ہمارے ہاتھوں میں کنٹرول ہی نہیں ہم دن رات اُن کی وجہ سے ہلکان رہتے ہیں۔تم ابھی تک نہیں سمجھ سکے یہاں فیصلہ کرنے والے اور ہیں اور ان فیصلوں پر کڑھنے والے عوام ہیں،جو تین میں نہ تیرہ میں ہیں، تم کچھ اور تو کر نہیں سکتے اتنا تو کر سکتے ہو اُن باتوں پر کڑھنا چھوڑ دو، جو تمہاری اوقات سے باہر ہیں۔

سچی بات ہے اُس وقت میں خود کو کوس رہا تھا کہ یہاں آیا ہی کیوں؟ اس بندے نے تو مجھے مزید ٹینشن میں ڈال یا ہے،یعنی ملک میں جو کچھ بھی ہوتا رہے اُس پر سوچو بھی ناں، ہم کوئی کاٹھ کے اُتو ہیں۔یا دولے شاہ کے چوہے ہیں ہمارا دماغ نہیں ہے کیا۔ہمیں اس ملک کے معاملات سے تعلق نہیں رکھنا چاہئے؟یہ اور ایسے نجانے کتنے خیالات اُس وقت ذہن میں کلبلا رہے تھے۔وہ میری حالت کو بھانپ گئے، کہنے لگے ”او بھائی واپس  آ ذہن کو زمین پر لا، بلڈ پریشر کی گولی چل رہی ہے ناں، اُسے نہیں چھوڑنا۔ تمہیں پتہ ہے ملک کی آدھی آبادی بلڈ پریشر کی گولیاں کھاتی ہے، اپنے مسائل کی وجہ سے نہیں، اُن مسائل پر سوچ سوچ کر جن سے اُس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔اب دیکھو میں تمہیں آرمی چیف کی مدت بڑھانے پر ایک لمبا لیکچر دے سکتا ہوں، مخالفت میں بھی اور حمایت میں بھی میرے پاس دونوں کے لئے گھڑے گھڑائے دلائل بھی موجود ہیں، اس طرح ججوں کی تعداد بڑھانے والا معاملہ بھی ایسا ہے جس پر دونوں طرف کے دلائل دیئے جا سکتے ہیں،بلکہ اس فیصلے کے حق میں دلائل زیادہ مضبوط ہوں گے، مثلاً اس سے فوری انصاف ملے گا، مقدمات نمٹائے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کی کارروائی میں اضافہ ہو گا وغیرہ وغیرہ۔مسئلہ یہ ہے حق میں دوں گا تب بھی تمہارا بلڈ پریشر بڑھے گا۔ مخالفت میں دوں گا تو اور بڑھے گا اِس لئے میں تو اس نظریے پر یقین رکھتا ہوں انسان کو ٹینشن فری رہنا چاہئے وگرنہ یہاں پر مسئلہ اس پنجابی محاورے کے مصداق ہے،”اسپغول تے کج نہ پھرول“۔حیران کن حد تک مجھے اب اُن کی باتیں اچھی لگنے لگی تھیں، میں سوچ رہا تھا کہتے تو یہ بھی ٹھیک ہیں جنہیں اس ملک کی فکر کرنی چاہئے جو اِس ملک کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں،جنہوں نے عوام کی نمائندگی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے،جن کے ہاتھ میں اختیار بھی ہے وہ تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں خود ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن پر ہم کڑھتے رہتے ہیں،کیا ضرورت ہے اپنا ذہنی سکون برباد کرنے کی۔اپنی دنیا میں مست رہو،گھر میں سبزی پھل آ رہا ہے؟ آٹا گوشت موجود ہے؟ دودھ والا دودھ دے گیا ہے؟بچے سکول کالج سے آ گئے ہیں؟ بیگم نے جتنے پیسے مانگ تھے،دے دیئے ہیں؟ شام کو دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے؟ موٹر سائیکل کی چین گراری اور ٹائر ٹھیک ہیں؟ ہمسایہ تنگ تو نہیں کرتا؟ ان سب سوالوں کا جواب اگر اثبات میں ہے تو پھر راوی چین  ہی چین لگتا ہے،اُسے فضول باتوں میں اُلجھا کر بے چین کرنے کی ضرورت نہیں۔

میں اُن سے ملاقات کے بعد یہ سبق لے کر آ گیا۔ واپس آ رہا تھا تو خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ فکر نہ فاقہ رب ساڈا راکھا۔خوشی خوشی گھر رُکے زوجہ محترمہ سے پوچھا آج کیا پکایا ہے۔اُس نے میری پسندیدہ ڈش آلو گوشت کا نام لیا۔واہ جی واہ موجاں ہو گئیاں۔بیگم نے یہ بتا کے خوش کر دیا کہ آج صبح سے بجلی بھی نہیں گئی پھراُس نے کہا ابھی ٹی وی پر خبریں سنی ہیں، بتا رہے تھے مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ شکر ہے اچھے دن آنے والے ہیں،میں انتظار میں تھا ابھی یہ پوچھے گی آرمی چیف کی مدت ملازمت اور ججوں کی تعداد بڑھانے میں ہمیں بھی کوئی فائدہ ہو گا،مگر وہ بھاگوان اِن باتوں سے کوسوں دور مہنگائی کم ہونے کی خبر پر نہال تھی۔ ”تھوڑی سی مہنگائی اور کم ہو جائے تو گھر کا فرنیچر بدل دیں۔ میری شادی کے جہیز کا پڑاہے،اب تو مہمان آئے تو شرم آتی ہے“۔ اس کی اس بات سے مجھے یک دم 440 وولٹ کا جھٹکا لگا، ساری قانون سازی بھک سے اُڑ گئی، سامنے بیگم کا مطالبہ رہ گیا۔ میں نے سوچا اسے سمجھاؤں یہ مہنگائی کم ہونے کی باتیں صرف ایک دھوکہ ہے،کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی، لیکن پھر مجھے خیال آیا اِس بے چاری کا بھی تو میری طرح خوش رہنے کا حق ہے۔ خوش ہو رہی ہے، ٹینشن میں تو نہیں آ رہی ناں۔مجھے وہ  جملہ یاد آ گیا جو صبح مرشد نے کہا تھا،”چلو کچھ تو کر رہے ہیں“۔ہمیں بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -