بے قصور مجرم
معصوم کلیاں جنہوں نے کبھی کھل کر پھول بننا تھا پر حالات نے انکو مزدور بنا دیا۔ کوئی بھٹوں پر تپتی دوپہر میں اپنا آپ جلا رہا ہے اور کوئی ورکشاپس پر مالکان کی گالیاں برداشت کر رہا ہے، کوئی ہوٹلز پر سارا دن اور رات کے گندے برتن اپنے ننھے ہاتھوں سے دھو رہا ہے اور کوئی لوگوں کے گھروں میں کام کر رہا ہے۔
زندگی میں بچپن ہی وہ دور ہوتا ہے جب انسان کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔۔ کھاؤ، پیو ، موج اڑاؤ مگر افسوس یہ بچپن ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔ پاکستا ن میں چائلڈ لیبر کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہےجس عمر میں ان کے ہاتھ میں کتابیں ہونی چاہئیں معصوم بچوں کے ہاتھوں میں اوزار تھما دیئے جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں چائے کے ڈھابوں، ورکشاپس، فیکٹریز، سٹریٹ فوڈ پوائنٹس یہاں تک کے لوگوں کے گھروں میں بھی جا بجا کام کرتے بچے نظر آئیں گے۔ یہ وہ بدنصیب بچے ہوتے ہیں جن سے 24 گھنٹے کوہلو کے بیل کی طرح کام لیا جاتا ہےاور بدلے میں جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتی ہے۔ یہی بچے اپنے گھر کے واحد کفیل ہوتے ہیں، چھوٹے ہونے کے باوجود بڑوں سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔
آرٹیکل بھی بن گئے قانون بھی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس پر عمل بھی ہوا؟ کیا چائلڈ لیبر پر کنٹرول ہوا؟ نہیں اور ایسا ممکن بھی نہیں ، مہنگائی اور غربت کے ہوتے ہوئے ایسا شاید ہی ممکن ہوسکے۔
بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کے خواب ننھی سی عمر میں ہی کچل دیے جاتے ہیں ۔ننھے منے یہ مزدور دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں۔ستاروں کی روشنی میں کام پر جانا اور چاند کے سائے میں واپس آنا ، اتنی محنت کے باجود یہ معصوم زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔
یہ معصوم اور بےبس بچے اپنی زنگیاں زہریلا دھنواں اگلنے والی چمنیوں کی نذر کر دیتے ہیں اور سوال تک نہیں کرتے کہ انکا قصور کیا ہے۔دوسروں کے عالی شان محلوں اور گھروں کے لئے اینٹیں بنا نے والے خود بے گھر ہیں۔ ان میں کچھ بچے ایسے ہیں جن کے والدین بھٹا مالکان سے پیسے لیتے ہیں اور بدلے میں اپنے ان معصوم پھولوں کو یہاں ایک غلام کے طور پر چھوڑ دیتے ہیں ، انکو ذہنی اور جسمانی طور پر اس قدر مجروح کیا جاتا ہے کہ یہ بچے سالوں سال اسی طرح غلامی کی زندگی گزارتے ہیں ، بڑے ہوتے ہیں اور یہیں مر جاتے ہیں لیکن کبھی انکا قرض ختم نہیں ہوتا،اور وہ قرض آگے ان کے بچوں کو بھی نگل جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریبا 18 سے 20ہزار اینٹوں کے بھٹے موجود ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بار اتفاق ہوا بھٹے پر جانے کا اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرنے کا۔ مجھ سے وہاں 5 منٹ کھڑا رہنا مشکل ہو رہا تھا اور وہاں معصوم بچے ننگے پاؤں کام کرنے میں مصروف تھے۔ ان کا قصور بس یہ تھا کہ انکے والدین نے بھٹہ مالک سے چند ہزار کا قرض لیا اور اس قرض کو اتارتے اتارتے وہ معصوم بچے اپنی خوشیاں قربان کرتے چلے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق بھٹہ مزدور بچوں کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
شاید ہم سب خود غرض ہو چکے ہیں جو ان معصوم فرشتوں کے حق میں آواز تک نہیں اٹھا سکتے اور بہت جلد ہم گونگے اور بہرے بھی ہو جائیں گے کیونکہ حالات جس طرف جا رہے ہیں اور جو مہنگائی کی صورتحال ہے مجھے لگ رہا ہے لوگ بچے پیدا ہی اس لیے کریں گے کہ کما کے لا سکیں۔ میرا سوال ان سب بے ضمیروں سے ہے کہ کیا وہ پسند کریں گے کہ ان کے بچے کھیلنے کی عمر میں کہیں مزدوری کریں؟؟؟
حکومت کو چاہیے موثر اقدامات کرے تاکہ کوئی ماں غربت ،بھوک، فاقوں سے تنگ آکر اپنے لعل کوسکول سے نکال کے مزدوری پر نہ لگائے۔ ایک وہ بھی بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم اور اُس کی نیلی سیاہی کے نشانات موجود ہیں اور وہ بھی بچے ہیں جن کے ہاتھ مٹی اور گرد سے اٹے ہوئے ہیں اور انکے ہاتھوں میں مختلف اینٹیں بنانے والے سانچے موجود ہیں جن کو ذرا سی غلطی پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، جن کو یہ غم ایک پل کیلئے سکون سے جینے نہیں دیتا کہ اگر بھٹہ مالک نے نوکری سے نکال دیا تو گھر کا چولہا کیسے گرم رہے گا۔ مزدور بچوں کی مجبوریوں سے مالکان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان مزدور بچوں کی بھی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ سکول جائیں کھیل کے میدان میں کرکٹ اور دیگر سپورٹس سرگرمیوں میں حصہ لیں لیکن غربت اُن کو ایسا کرنے نہیں دیتی۔
پاکستان کو معروض وجود میں آئے کئی برس بیت چکے ، افسوس آج تک کوئی ایسی حکومت برسراقتدار نہیں آئی جس نے چائلڈ لیبرکے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کیے ہوں۔ یہ ہی وجوہات و اسباب ہیں کہ ہمیں ورکشاپوں میں ننھے مکینک نظر آتے ہیں ، ہوٹلوں میں ننھے ویٹر گھروں اور دکانوں میں ننھے ملازمین جبکہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ننھے مزدور عام دکھائی دیتے ہیں۔ بچپن کا زمانہ خواہشات اُمیدیں اور خواب انسان کوبڑھاپے تک یاد رہتے ہیں تاہم کسی کا بچپن خوشگوار گزارتا ہے تو کسی کا انتہائی کرب ، مصائب اور حسرتوں میں۔
نوٹ : یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں