بلوچ گمشدگان، ملک دشمنوں کا موثر ہتھیار

بلوچستان میں شورش ہو یا خیبر میں بدامنی، کچے کے ڈاکو ہوں یا کراچی کے لٹیرے، خبریں پڑھ کر ہر کسی کا پریشان ہونا فطری ہے۔ شہادت ہو یا ہلاکت، دونوں باعث آزردگی ہیں۔ گھر سے جنازہ اُٹھے تو لواحقین کے لئے ملک بھر کا امن بے معنی ہو جاتا ہے، لیکن کیا کیا جائے 1999ء میں اپنی تاریخ کے مضبوط ترین حالت والے ملک کی ایک جرنیل نے یہ حالت کر دی کہ روزانہ درجنوں اموات طویل عرصے تک ہمارا نوشتہ دیوار رہیں۔ بدبخت پرائی جنگ اپنے گھر کیا لایا کہ عشروں بعد کہیں ملک مائل بہ قرار ہوتا نظر آرہا ہے۔
مائل بہ قرار دعوے پر چونک نہ جائیے۔ بلوچستان ہی کو لیجیے، سالہا سال سے سکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنائے رکھنے والے فیشنی علیحدگی پسند ہوں یا تحریک طالبان پاکستان کے تربیت یافتہ دہشت گرد، غور کیجیے۔ یہ دونوں فسادی پسپا ہو چکے ہیں۔اب وہ صرف سوئے ہوئے مزدوروں کو بمشکل نشانہ بنا پاتے ہیں۔ ریاست نے انہیں اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لائق نہیں چھوڑا۔ یہ فسادی اس بری طرح دباؤ ہیں کہ ہر چوتھے دن کثرت سے مارے جا رہے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت نے افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کا جامع تانا بانا پھیلا دیا تھا۔ کلبھوشن ایک مثال ہے، لیکن علیحدگی کے نام یا تصور سے گھبرا نہ جایا کریں۔ علیحدگی پسندی ہمارے ہر مشہور پکوانوں میں تتیا مرچوں جیسی ہوتی ہے۔ کڑاہی گوشت میں مرچیں نہ ڈالیں، پھر دیکھتے کون اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا۔ علیحدگی پسندوں کا وجود ہر ملک کو خوب متحرک اور توانا رکھتا ہے۔
یہ جملے ازراہ تفنن نہیں لکھے گئے۔ دنیا کے کل 195 ممالک میں سے سوا سو ممالک میں علیحدگی کی فعال (active) اور مسلح تحریکیں موجود ہیں۔ ہندوستان کا تو مذکور ہی کیا،جہاں ہر ریاست میں علیحدگی کی مسلح تحریکیں موجود ہیں۔ ترقی یافتہ آسٹریلیا میں پانچ اور ویٹو پاور فرانس میں ایسی دو تحریکیں ہیں۔ فرینچ باسک (Basque) کنٹری نامی تحریک نے 52 سال تک اسپین میں بھی مسلح جدوجہد جاری رکھی۔سپین نے اس پر قابو پا لیا ہے، لیکن فرانس سلگ رہا ہے۔مضبوط اقتصاد والے جرمنی میں بویریا سمیت تین ریاستوں میں علیحدگی پسند موجود ہیں۔ طاقتور اقتصادی گروپ جی سیون کا کوئی ایک ملک ایسا نہیں، جس میں علیحدگی کی فعال تحریکیں نہ ہوں۔اٹلی کے ہر صوبے میں علیحدگی پسند تحریکیں موجود ہین۔ جاپان میں نسبتاً کم سہی، لیکن صوبہ ہوکیڈو علیحدگی کی طرف چل پڑا ہے۔
اس بیان کا مقصد سلگتے حقائق سے چشم پوشی نہیں ہے۔ بلوچستان میں بہت مسائل ہیں۔ معالج بھلے حکیم لقمان ہو، مرض کے درست احوال مریض ہی بتا سکتا ہے جن کی مدد سے معالج محض دوا بتاتا ہے۔ عمل پھر مریض ہی کرتا ہے۔ وکیل موکل کی قانونی مدد تو کر سکتا ہے لیکن مقدمے کے احوال موکل سے بہتر بروہی مرحوم بھی بیان نہیں کر سکتے۔ اطمینان وکیل نہیں موکل کا درکار ہوتا ہے۔ سینکڑوں جیدار جوانوں کی قربانیاں دے کر بلوچ بھائیوں کی مدد کرنے پر سکیورٹی فورسز کو ہم سب کا سلام، لیکن سیاسی مسائل حل کرنے کی صلاحیت سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے پاس نہیں ہوتی۔ ان کی تربیت ان خطوط پر ہوتی ہی نہیں کہ وہ پیچیدہ الجھے ہوئے مسائل حل کر سکیں۔ یہ کام صوبائی و وفاقی حکومتوں کے ہیں۔ خفیہ و سکیورٹی ادارے اگر گمشدگان کے جرائم، کسی بند کمرے ہی میں سہی، سول حکومتی زعما کو بتا کر اپنا پاؤں آئندہ کے لیے پیچھے کر لیں، ہر غائب شخص کو کسی متفقہ جرگے وغیرہ کے سامنے بند کمرے میں علیحدہ علیحدہ پیش کریں تو مسئلہ حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ سیاستدان اتنے برے نہیں جتنے 75 سال سے بتائے جا رہے ہیں۔
اصولا درست ہونے کے باوجود گمشدگان کو عدالتوں میں پیش کرنے کے موقف پر عمل کرنا شاید آسان نہ ہو۔ اپنے عدالتی نظام پر کتنے لوگ اعتماد کرتے ہیں؟ شاید ہاتھوں کی 10 انگلیوں جتنے فیصد بھی نہیں، صاحب اس نوآبادیاتی نظام کا میلان ہمیشہ ریاست بیزار ادارے کا سا رہا ہے؟استغاثہ ملزم کو مجرم ثابت کر دے تو عدالتیں اسے رہا کر دیتی ہیں۔ وہ چند جج جو خاموش رہ کر بذریعہ فیصلہ بولتے ہیں انہیں چھوڑ کر اعلیٰ عدالتی ججوں میں سے کتنوں پر لوگوں کو اعتماد ہے؟ دوران سماعت چند جارحانہ سوالات اور بلا جواز دھواں دار تقریر سے کیا اندازہ نہیں ہو جاتا کہ موصوف کا تعلق کس ٹبر سے ہے؟ باقی کسر وکلا وغیرہ پوری کر دیتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ بخوبی اپنا کام کر رہے ہیں، لیکن تحریک انصاف کے جناب حامد خان نے للکار لگا دی: ”ہمیں اگلا چیف جسٹس منصور علی شاہ کے سوا کوئی اور قبول نہیں“۔ حافظ نعیم الرحمن کیوں پیچھے رہیں، انہی کی اقتدا میں بولے: ”منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن فورا جاری کیا جائے“ جسٹس منصور یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ کیا عقلمند دشمن بہتر ہے یا نادان دوست،انہیں متنازع فیہ کرنے میں کیا ان صاحبان نے کوئی کسر چھوڑی ہے؟
آگ بجھانے کی خاطر حساس ادارے فوراً ایک قدم پیچھے کر لیں۔”سول سوسائٹی“ کو ان گم شدہ افراد کے مسئلے ہی سے روغن زیتون اور پٹرول مل رہا ہے۔ عالمی سطح پر ملک کو بدنام کرنے کا اس سے بہتر وسیلہ ان لوگوں کے پاس ہے ہی نہیں۔ لہٰذا تمام گم شدگان کو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کسی، خفیہ ہی سہی، جرگے کے حوالے کر کے ایک ایک فرد پر سوچا جائے۔مسلمہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں، انہیں فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جائے، دیگر افراد کا معاملہ جدا جدا ہو سکتا ہے۔ متعدد وہ ہوں گے، جنہیں دو تھپڑ مار کر والدین کے حوالے کرنا کافی ہو گا۔ بہکا کر خود کش حملے کے لیے تیار کی گئی تربت کی عدیلہ بلوچ کو ابھی پچھلے ہفتے بازیاب کر کے والدین کے حوالے کیا گیا ہے۔ کیا یہ مثال کیا کافی نہیں ہے؟
انسان کائنات کی پیچیدہ ترین مشین ہے۔ ہر شخص کسی جذباتی کیفیت میں کبھی نہ کبھی ملک یا قوم کے خلاف کچھ کہہ ہی دیتا ہے۔ متعدد ناراض نوجوانوں کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ فوجداری مسئلہ نہیں ہے۔ لمحاتی قسم کی باغیانہ تقریر کرنے اور ناپسندیدہ نظمیں لکھنے والوں کی اصلاح چاہئے، نہ کہ ریاستی جبر۔ ہر مسئلے کا حل بندوق نہیں ہوتا۔ بلوچستان نہیں اسلام آباد کے کچھ رقبے پر حساس اداروں نے بذریعہ مار دھاڑ قبضہ کر لیا۔ یار دلدار کرنل انعام سر پکڑے بیٹھے ملے، پوچھا تو بولے:”قبضہ کرنے والا افسر گاؤں کے بزرگوں کو جمع کر کے انہیں مسئلے کی نوعیت بتا دیتا تو گاؤں کے تمام نوجوان فوج کے سہولت کار بن کر خود رقبہ خالی کر دیتے“ اے خبردار!!گلگت تا گوادر اس دلکش حلقہ یاراں میں بشکل ریشم رہا کرو. ہماری تمہاری عافیت اسی میں ہے۔