مجھے مصنوعی ذہانت سے بچاؤ
اگر ایامِ ہفتہ میں سے پسندیدہ دن پوچھا جائے تو اکثر جواب اتوار کی چھٹی کے حق میں ہوں گے۔ مجھے بدھ کا دن کیوں اچھا لگتا ہے؟ یہ جاننے کی شعوری کوشش کبھی نہیں کی تھی۔ ایک رات البتہ گوگل کی مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند پرانی تاریخیں چیک کیں تو میری طرح والد کی ’ڈیٹ آف برتھ‘ اِسی پسندیدہ یوم کی نکلی۔ اب تجسس پیدا ہوا، سو ایک بھائی کی تاریخِ ولادت ٹائپ کی، پھر دوسرے کی۔ دونوں جوابوں کا متن میرے والا۔ یہی نہیں، میری سات سال کی عمر میں والد کی ٹرانسفر کے سبب خاندان کی آبائی شہر سیالکوٹ سے چوتھائی صدی کے لیے واہ کینٹ منتقلی بھی اِسی دن ہوئی۔ ایم اے کے امتحان سے کب جان چھوٹی؟ تدریسی کیرئیر کا باضابطہ آغاز کب کیا؟ تاریخیں الگ الگ تھیں، دن بدھ کا نکلا۔ چلیں یہ محض اتفاق سہی، پر کیسا پراسرار اتفاق ہے۔
اسرار کا پردہ ہٹانے کے لیے اگلی صبح ایک دوست کو فون کیا کہ اِن سلسلہ وار واقعات پر کچھ روشنی ڈالیں۔ دوست وہی جو علمِ جفر ہی نہیں، ہندوستانی جوتش کی سُدھ بُدھ بھی رکھتے ہیں۔ کہنے لگے مبارک ہو، بدھ سوچ بچار کا دن ہے، اِسی لیے تو ہندی میں دانشور کو بُدھی جیوی کہتے ہیں۔ سُن کر جسم و جاں میں طمانیت کی لہر سی دوڑی۔ کیف کے اِسی عالم میں یونیورسٹی کا رُخ کیا جہاں یہ بُدھی جیوی آج کل شعبہء صحافت میں انگریزی زبان و ادب کی تدریسی اداکاری پر مامور ہے۔ اداکاری اِن معنوں میں کہ حصولِ تعلیم میں مصروف پینتالیس پچاس کی کلاس میں الگ الگ علاقائی، طبقاتی اور لسانی پس منظر کے حامل ہر طالب علم پر انفرادی توجہ دینا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اِسی تگ و دَو میں موسمِ بہار کی چھٹیوں سے پیشتر آخری چہار شنبہ کو بدھی جیوی کے ساتھ کیا ہوا، یہ بھی شئیر کر دوں۔
پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کی ثانوی جماعتوں کے لیے شائع کردہ ’انگلش گریمر اینڈ کمپوزیشن‘ یونیورسٹی سطح کے کمزور اسٹوڈنٹس کے لیے بھی کارآمد ہے۔ خاص طور پر وہ جنہیں افسانوی ادب میں پلاٹ، کردار نگاری اور اسلوب کی ارفع تر بحثوں سے ہٹ کر قواعد کی رُو سے درست جملہ لکھنے میں دقت کا سامنا ہو۔ چنانچہ بُدھی جیوی نے انفرادی توجہ کے مستحق دو نوجوانوں کو کلاس سے باہر نکلتے ہوئے یہ کتاب خریدنے اور ایک مشق یومیہ کرنے کی تلقین کی۔ یہ بھی بتایا کہ قیمت فقط سو روپے ہے۔ ایک نے کہا کہ کوشش کروں گا (یعنی کتاب خریدنے اور پڑھنے کی)۔ دوسرا بولا ”سر لکھنے کا کام موبائل پر کرتا ہوں۔ اسپیلنگ اور جملے دونوں آٹو کریکٹ پر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ خود جملہ لکھنا ہی نہیں پڑتا۔“ بُدھی جیوی نے ٹائم دیکھا تو سمجھ نہ سکا کی آیا گھڑی غلط ہے یا اُس کے اپنے بارہ بجے ہوئے ہیں۔
بارہ تو سہ پہر تین اور چار کے درمیان بجے جب پہلی بار بھرپور احساس ہوا کہ مصنوعی ذہانت کا غلبہ انسانی دانائی پر کِس طرح اثرانداز ہوا ہے۔ صرف اثر انداز ہی نہیں ہوا، اُسے فارغ کرتا جا رہا ہے۔ یہ کلاس روم نہیں بلکہ نجی شعبے کے ماہرینِِ ابلاغیات کا ایک غیررسمی اجلاس تھاجس نے ایک نیا ٹی وی چینل کھولنے کے امکان پر غور کیا۔ میزبانی ایک ایسے دانشور کی جو اہم شہری مراکز کو باہم مربوط کرنے والا ایک مقبول ریڈیو نیٹ ورک بیِس سال سے چلا رہے ہیں۔ اجلاس میں اور کون کون شریک ہوا؟ اِن ہاؤس نیوز ایڈیٹر کے علاوہ لائیو پروگرموں کا آزمودہ کار پروڈیوسر، اُن کے ساتھ ایک صاحبِ علم اور چوکس نشریاتی صحافی، پھر لاہور میں ایڈورٹائزنگ کے گُرو اور ہمارے ایک ایسے دوست جو ابلاغی منڈی کے اعداد و شمار سے لَیس رہتے ہیں۔ تو بھئی، وہاں یونیورسٹی کے بُدھی جیوی کا کیا کام؟
یہ میزبان کی بھول تھی کہ نامور اداروں سے وابستگی کی بنا پر اُسے بھی بُلا لیا، یہ سوچے بغیر کہ گھریلو ساخت کے اِس تربیت کار نے ذہنی توازن برقرار رکھنے کی خاطر دس سال سے ٹی وی چینل کا ریموٹ پھدکایا ہی نہیں۔ بس بی بی سی پر فِکس کر رکھا ہے، ایک نمبر اوپر سی این این ہے اور ایک درجہ نیچے الجزیرہ۔ شرکا نے یہ نصابی بیان بھی سُنا کہ نئے چینل کے لیے یونیک سیلنگ پوائنٹ کی نشاندہی درکار ہوگی۔ پھر ہفتہ وار گرِڈ، ہر پروگرام کا موضوعاتی دائرہ، پروڈکشن ٹیم، اینکر ز کا چناؤ، آڈیشن، ٹریننگ۔ سب ہنسنے لگے اور جواب ملا کہ یہ لوازمات عام چینل کے ہیں جنہیں مملکتِ پاکستان کی طرح ہمہ وقت مالی بحران کا سامنا رہتا ہے۔ یوٹیوب پر تو رسد ہی طلب ہے۔ ہاں، ہوسٹ کو ماہانہ چالیس پچاس لاکھ روپے مِلنے چاہئیں کیونکہ اُسی کی بدولت کئی کئی مِلین ناظرین نشریات کو مونیٹائیز کرتے ہیں۔ پوچھا پروگرام کا متن؟ کہا متن اہم نہیں۔ ہر میزبان کے موقف سے ناظرین پیشگی آگاہ ہیں، اس لیے غور نہ کرنے کی وافر سہولت بھی ہے۔
بُدھی جیوی تھکا ہارا گھر لوٹا تو سوچا کہ دن کی کوفت مٹانے کے لیے لندن یاترا کا پروگرام طے کر لیا جائے جس کے لیے بڈھا بڈھی بارہ مہینے پیسہ پیسہ جوڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ بچوں کی یہ خواہش اپنی جگہ کہ زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرے، پر کم سے کم دو روز تو کسی دُور دراز صحت افزا مقام کا رُخ کرنا چاہیے۔ پچھلی مرتبہ اوکسفرڈ کی ایک نواحی قیامگاہ میں اُنہی کے فرنٹ ڈیسک کی تجویز پر اُن کی بین الاقوامی ہوٹلنگ چین کی رُکنیت اختیار کی تھی۔ کیوں نہ اب کے اِس رعایت سے فائدہ اٹھائیں؟ اختتامِِ ہفتہ کی جگہ دن بھی ورکنگ ویک کے ہوں تو تفریحی مراکز میں کمروں کے کرائے اور کم ہوں گے۔ بیگم نے سوال اٹھایا کہ جلدی کیا ہے، ابھی تو روانگی میں چار مہینے دُور ہیں۔ جہاں دیدہ سیاح نے اعتراض یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ سادہ عورت، قبل از وقت بُکنگ میں مزید بچت کا امکان ہوتا ہے۔
یہ خیال آتے ہی انسانی دماغ نے مصنوعی ذہانت کو کام میں لاتے ہوئے آن لائن پورٹل پر بُُکنگ شروع کر دی۔ متعلقہ شہر، ہوٹل کا نام، مجوزہ تاریخیں، اسٹینڈرڈ روم یا لگژری سوئٹ؟ پھر یہ کہ آپ ہماری رعایتی چین کے رُکن ہیں یا نہیں؟ ممبرشپ کارڈ سینت سینت کر ڈائری کی جیب میں رکھا تھا جو مِل گیا۔ آگے مانگا گیا پاس ورڈ۔ تو کیا رکنیت کا پاس ورڈ بھی ہوتا ہے؟ آپشن برتی کہ بھول گیا ہوں۔ سسٹم نے کچھ اضافی کوائف پوچھے جو درست نکلے۔ منٹوں میں ای میل آئی کہ نیا پاس ورڈ تجویز کریں۔ عمل کیا تو ہدایت ملی کہ نہیں، یہ لفظ اور ہندسے بہت سادہ ہیں، اِنہیں پیچیدہ بنائیے۔ فٹا فٹ پیچیدہ بنایا، کھٹا کھٹ بُکنگ کنفرم ہو گئی۔ منہ سے ایوب دَور کا نعرہ نکلا ’بچے کم خوشحال گھرانہ‘۔ اب گھرانے کو یہیں خوشحالی کی مار پڑی۔
میل غور سے دیکھی تو گیسٹ کا نام مسٹر اینڈ مسز شاہد ملک کی بجائے کچھ اور تھا، ہجے بھی نہایت نامانوس۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اردو میں مذکورہ نام کا تلفظ ہوگا ’جیِٹی کن، کئییم پی تایا نووت‘۔ یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟ ترامیم کی آپشن کھولی۔ کمرہ نمبر، فلور اور بُکنگ کی تاریخیں بدلنے کی گنجائش تھی، یہ بھی کہ کیا مزید مہمانوں کے لیے جگہ چاہیے۔ مجھے تو نام کی تصحیح مقصود تھی، اِس کا کوئی خانہ ہی نہیں۔ تو کیوں نہ بُکنگ ہی منسوخ کر وا دوں؟ ایک دو ڈبوں کو کلِک کیا۔ مصنوعی ذہانت نے اطلاع کہ بینک کارڈ پر رقم کٹ چکی ہے جو واپس نہیں ہوگی۔۔۔ سادہ عورت کی طرف دیکھا تو جواب مِلا: ”پچھلے سال فرنٹ ڈیسک پر جس کسی نے آپ کو ممبر بنایا، اُس نے تیزی میں یہ کام اپنے اکاؤنٹ سے کر دیا ہوگا۔ پیسے آپ کے کٹے، ای میل آپ کو آئی مگر سسٹم کو ’جیٹی کن‘ کا نام یاد رہ گیا۔ اب رمضان کی ستائیسویں کو دعا مانگیں کہ جب سچ مُچ ہوٹل میں جانا ہو تو وہاں مصنوعی ذہانت نہیں، سچ مُچ کا آدمی بیٹھا ہو جو ہماری بات سمجھ لے۔“