مشترکہ کھاتوں کی تقسیم اور حکومت کی سنجیدگی

   مشترکہ کھاتوں کی تقسیم اور حکومت کی سنجیدگی
   مشترکہ کھاتوں کی تقسیم اور حکومت کی سنجیدگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مشترکہ خاندانی نظام، بھین بھرا تے چاچے مامے، کزن میرج، جذباتی وابستگی، زمینوں کے مشترکہ کھاتے اور پھر نہ ختم ہونے والی مقدمہ بازی۔ بالآخر بازی کون لے جائے گا۔ شریکے  کی بنیاد اور اس بنیاد پر پختہ عمارت کی تعمیر۔ اپنے پرائے ہو جائیں گے اور غیر چوہدری بن کر اپنوں کے درمیان فیصلے کریں گے اور بالآخر فیصلہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ بنام وغیرہ کی لمبی قطار اور عدالت کا ہر پیشی پر وقت ختم ہو جائے گا۔ تاریخ پر تاریخ اور یوں ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی۔یہ تاریخ نفرت، حسد، بغض، لالچ، حرص اور کدورت سے لبریز ہو گی۔پٹواری تحصیلدار کھل کے کھیلیں گے اور فائل اپنے درمیان ہی گھماتے پھراتے رہیں گے اور یوں زمیندار گھومنے پھرنے کے شوقین ہو جائیں گے۔ شوق انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ زمینیں بیچ کر بھی شوق پورا کرنا پڑا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ صورتحال انتہائی پیچیدہ اور معاشرے میں مجموعی طور پر ہیجان، بے چینی، غیر یقینی اور پریشانی کی صورتحال۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا معروف قول کہ ایک پریشانی پر پریشان ہو جانا ایک نئی پریشانی کو جنم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زمینوں کے مسئلے مسائل ختم کرنے کے لئے کئی کئی جنم چاہئیں۔ سر جوڑ کر بیٹھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

ٹوڈر مل کا ریونیو سسٹم اور اس کے تحت دستاویزات اور ازاں بعد انگریز کا تخلیقی ذہن اور ریونیو ریکارڈ۔ فیلڈ بک، عکس شجرہ، شجرہ پارچہ، مسل حقیت، لال کتاب، خسرہ گرداوری وغیرہ وغیرہ اور پٹواری کا بھاری بھر کم بستہ۔ اس بستے کے نیچے ایک دفعہ پٹواری کا دب جانا اور تنگ آمد بجنگ آمد اور پھر پٹواری کا بھی انتقام اور اس سارے ریکارڈ کا تیا پانچہ۔ زید بکر بن جائے گا اور مما محمد بخش بن کر سامنے آ جائیں گے۔ ان سارے معاملات کا حل ایک ہی ہے کہ ریونیو ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن اور پٹوار کے اختیارات میں دن دیہاڑے سن۔ انقلاب اور وہ بھی کمپیوٹر کا فیض۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہیں تو کرامات کی مکمل طور پر تصدیق کردی ہے اور کہیں بادی النظر میں سابقہ مرعوب کن باتیں سب قصے کہانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ آئی ٹی ایک اٹل حقیقت۔ہر شے سدھی پدھری۔ اب ہر ذی روح کو بھی سیدھا ہونا پڑے گا۔ ”ول پھیر“ نکل جائیں گے۔ ویسے بھی پھیرے لگانے سے کئی اہم کام ہو جاتے ہیں اور زمینداروں کے پٹواری تحصیلدار کے دفتروں کے پھیرے تمام ہوئے۔ کسی نے کہا جان چھوٹی کسی نے کہا ات خدا کا ویر ہوتا ہے تو کسی نے کہا پٹواری بے چارہ۔ غریب مار ہوئی ہے۔ کسی کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ عوام کا کثرت رائے کا فیصلہ جمہوریت ہے اور جمہور کی آواز کسی دور میں ریڈیو پاکستان پر کاشتکار بڑے ذوق شوق سے سنتے تھے پھر آیا ٹی وی کا دور اور اس کے بعد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا۔ ہر کوئی ہر بات سننے لگ گیا۔ شور شرابا۔ بے جا کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے کاغذ سیدھے رکھنے کی ضرورت ہے ایپ سے رجوع کریں اور اپنے کھاتے پر نظر رکھیں۔ متذکرہ بالا دستاویزات میں کھاتہ کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے اور شیشہ ٹوٹ کے جڑ سکتا ہے کھاتہ نہ جڑے گر ٹوٹے۔

لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کے نافذ العمل ہونے کے بعد تاحال مشترکہ کھاتوں کی تقسیم کا کوئی باقاعدہ نظام وضع  نہیں کیا گیا تھا۔ تقسیم مذکور دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کو خانگی تقسیم کہتے ہیں، جس میں کسی بھی کھاتے کے مالکان زمین کی تقسیم پر باہمی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں انتقال بابت خانگی تقسیم درج ہو کر بعد بیانات فریقین منظور ہو جاتاہے۔ ”تسیں اپنے گھر اسیں اپنے گھر“۔ دوسری صورت میں فریقین زمین کی تقسیم بوجہ قسم زمین اختلاف کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر عدالتی کارروائیاں اور چل سو چل۔ اس مسئلہ کی پیچیدگی کو حکومت نے محسوس کیا اور محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی بصیرت کے مطابق زاہد اختر زمان چیف سیکرٹری پنجاب نے اس ایشو کو فوکس کیا اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو پوری شدت سے زمینداروں کے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا۔ نبیل جاوید سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب نے ڈی سیز کو بلاواسطہ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال میں اس پہلو کو بھی حصہ بنا دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں فیصلہ کیا گیا کہ آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ اپنی زمینیں باہمی رضامندی سے تقسیم کروانے پر آمادہ ہوں۔ مزید محکمہ مال کے فیلڈ عملہ کو پابند کیا گیا کہ وہ گاؤں گاؤں جائیں اور انصاف لوگوں کی دہلیز پر یقینی بنائیں۔ راقم الحروف نے بھی فیصلہ کیا کہ لوگوں سے دیہاتوں میں جا کر ملا جائے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی افسر دوردراز علاقوں میں لوگوں تک پہنچے ہیں تو لوگوں نے بھی ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور پھر ان کے تذکرے سالہا سال تک زبان زد خاص وعام رہے ہیں۔ ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا اور بندہ نے مکمل تقریر بعنوان موضوع مذکور کردی۔ کوشش کی گئی کہ لوگوں کو معاملہ کی سنگینی اور اہمیت کے بارے میں پوری طرح آگاہ کیا جائے۔ ان کے اس مسئلہ کی بابت ان میں شعوری احساس پیدا کیا جائے۔ ان کو یہ بھی بتایا جائے کہ زمینیں تقسیم نہ ہونے کے نتائج کس قدر بھیانک ہوتے ہیں اور اس کا خمیازہ کتنی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پانی کی تقسیم، وٹ کی لمبائی چوڑائی، حدبراری، ناجائز قبضوں وغیرہ جیسے سارے مسائل محض زمین تقسیم نہ ہونے کا نتیجہ ہیں اور ان مسائل سے مزید دیگر گھمبیر مسائل جنم لیتے ہیں جس طرح کہ خاندانی دشمنیاں، گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے اور بعض اوقات تو قتل وغارت ہو جاتی ہے اور ان چیزوں سے دور بھاگنے والوں کو بے غیرت کے طعنے بھی دیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ باتیں کرتے کرتے ہم بھی بڑے سنجیدہ ہو گئے اور دیکھنے میں آیا کہ ایک بابے کو ہماری یہ ساری باتیں بہت ہی دل کو لگی ہیں۔ابھی ہمیں بابے کی پوری کیفیت کا پوری طرح اندازہ نہیں ہوا تھا اور ہم نے جونہی وما علینا الا البلاغ کہا تو بابا پہلے اٹھا پھر اس نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ایسی تالی ماری کہ مجھ سمیت سب لوگ پریشان ہوگئے اور اس کے بعد تو اس نے ڈی سی صاحب زندہ باد، زندہ باد، زندہ باد کے بے شمار نعرے لگائے۔ اس دن پہلے دن مجھے نعرہ مستانہ اور وجد کے خدوخال کا اندازہ ہوا۔ کہتے ہیں عوام ہی اصل جج ہیں اور اگر عوام دردِ دِل کی دولت سے سرفراز ہوں تو پھر ایسے ہوتا ہے اور افسروں کو بھی لوگوں کے درمیان بیٹھ کر ان کے درمیان فیصلے کرنے کا مزہ بھی آتا  ہے اور ان کو لذت آشنائی کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کاش ہم سب دفتروں سے نکل کر عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر پبلک سروس ڈلیوری کو یقینی بنائیں تو آج بھی شہاب نامے کے حالات و واقعات جا بجا پڑھنے اور سننے کو ملیں گے اور لوگ اپنی زمینیں خوشی خوشی تقسیم کرلیں گے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -