سی ایس ایس کا امتحان دیا ہی تھا کہ بیوی کی تلاش شروع، معاشرے کا تضاد ملاحظہ ہو داماد بیٹی کے نخرے اٹھائے تو خوش قسمتی بیٹا بیوی کا خیال کرے تو رن مرید

 سی ایس ایس کا امتحان دیا ہی تھا کہ بیوی کی تلاش شروع، معاشرے کا تضاد ملاحظہ ...
 سی ایس ایس کا امتحان دیا ہی تھا کہ بیوی کی تلاش شروع، معاشرے کا تضاد ملاحظہ ہو داماد بیٹی کے نخرے اٹھائے تو خوش قسمتی بیٹا بیوی کا خیال کرے تو رن مرید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:132
میں بھی کوئی exception  نہیں تھا۔ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ہی تھا کہ میرے لئے بھی بیوی کی تلاش شروع کر دی۔ یہ بات کچھ ماہ کے لئے موخر ہوئی لیکن سروس کارپوریشن میں ملنے والی نوکری کے ساتھ ہی دوبارہ زور و شور سے شروع ہو گئی تھی۔ میری ماں کی نظر خاندان کی ایک لڑکی پر تھی مگر اس پر کسی اور کی بھی نظر تھی بلاآخر وہ کسی اور کی ہی ہو گئی۔میری والدہ اپنے لئے بہو اور بہن بھائیوں کے لئے بھابھی کی تلاش میں تھیں اور جلد ہی انہوں نے اس لڑکی کو ڈھونڈ لیا جسے میری بیوی بننا تھا۔
شادی کے پہلے کے چاؤ اور پھر گھاؤ؛
میری سمجھ میں ایک بات آج تک نہیں آئی کہ وہ لڑکی جسے ماں بہنیں بڑے چاؤ سے تلاش کرتی ہیں بڑی اداؤں، ارمانوں اور چاھتوں سے بیاہ کر لاتی ہیں اور آنے والی بھی ایسے ہی جذبات سے لبریز سسرالی گھرپہنچتی ہے۔ شادی کے چند ماہ میں ہی سب تدبیریں الٹ ہو کر مرد بیچارے کو ایسے امتحان میں الجھا جاتی ہیں کہ ماں کی بات مانے تو ظالم شوہر اور اگر بیوی کی سنے تو رن مرید بیٹا۔ معاشرے کا تضاد ملاحظہ ہو اگر داماد بیٹی کے ناز نخرے اٹھائے تو ماں باپ کی خوش قسمتی اگر بیٹا بیوی کا خیال کرے تو رن مرید۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ہم قول و فعل کے دوغلے ہی ہیں۔
 امی جی کو بہو ملی وہ نثار کالونی سرور روڈ لاہور کینٹ کی رہائشی تھی۔ اس کے والد اوربھائی ہوزری کا کاروبار کرتے تھے۔ اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔آبائی شہر گوجرانوالہ لیکن لاہور سیٹل ہوئے کچھ عرصہ بیت گیا تھا۔ اس نیک بخت کا نام عظمیٰ انور تھا جو اب عظمیٰ شہزاد بننے والی تھی۔خالصتاً گھریلو لڑکی، قابل قبول صورت۔ سیرت اللہ ہی جانتا تھا۔ البتہ ساری ماؤں کی طرح اس کی والدہ کے خیال میں یہ سلجھی ہوئی، اچھے اخلاق اور پیار کرنے والی تھی۔لو جی میری ماں اور بہنوں نے خوب چاؤ اتارے اور بڑے دھوم دھام سے19فروری 1988ء کو منگنی ہو گئی۔ نہ وہ مجھے جانتی تھی اور نہ میں اسے۔ جو مجھے اچھی لگتی تھی وہ میری والدہ کو پسند نہ تھی۔ ماں اس سے ایک بار ملی اور مجھے کہا؛”پتر اے ساڈے نال نئیں چل سکدی۔“وہ نباہ کر سکتی تھی یا نہیں اللہ جانے بس ماں کے آگے بولنے کی جرأت نہیں تھی۔اس زمانے میں بچے ماں باپ کے سامنے بولنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتے تھے۔سو میں بھی کوئی انوکھا نہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں ماں کا فیصلہ درست تھا۔ میں نے ماں کی بات مان کر سعادت مندی کا ثبوت دیا تھا۔ صلہ تو ملنا ہی تھا۔
کہتے ہیں عورت اپنا نصیب ہی لے کر نہیں آتی بلکہ نیک عورت گھر کے لئے بھی باعث برکت ہوتی ہے۔قرآن میں ہے؛”اور نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں اور بروں کے لئے بری۔“ یہ لڑکی میری زندگی میں آئی تو سروس کار پوریشن میں میری تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا اور منگنی کے تقریباً3 ماہ بعد میری محکمہ بلدیات میں سلیکشن ہو گئی۔ 
بہرحال اکیڈمی پہنچنے تک عظمیٰ بیگم سے چند بار ملاقات ہوئی تھی اور کچھ انڈر سٹنڈنگ بھی۔ دوران تربیت میں ہفتے میں اسے دو بار خط لکھتا اور جواب ایک ہی بار آتا تھا۔ میرے لکھے خط اُس کے پاس آج بھی محفوظ ہیں اور وہ کبھی اپنے خیال کے مطابق میری چاہت میں کمی محسوس کرے تو کوئی پرانا خط نکال کر پڑھنے لگتی ہے اور پھر کہتی ہے”تم ویسے نہیں رہے جیسے خط میں تھے۔“کاش خواتین کو کوئی سمجھا سکے؛”الفاظ جذبات کی ترجمانی بعض دفعہ درست انداز میں نہیں کرتے ہیں۔اسی لئے کہتے ہیں ”شاعری جھوٹ کا دلکش اور دلنشین انداز ہے۔“ اب اس پگلی کو کون سمجھا ئے ہم اسی کے تھے اور اسی کے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -