آرمی ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت کیوں؟

آرمی ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت کیوں؟
 آرمی ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قانون فی الواقع کس بلا کا نام ہے، اِس پر بحث تو خیر مقنّنین کا مسئلہ ہے، مگر ایک خالص عوامی و جمہوری ریاست میں قانون سازی کا مطلق نہ سہی، جزوی حق تو عوام کے پاس ہونا چاہئے اور ایسا جدید ریاستوں میں ہو بھی رہا ہے، مگر ہمارے ہاں چونکہ دیسی جمہوریت واقع ہے،اِس لئے یہاں پر قانون سازی کا حق صرف اْنہی کو ہوتا ہے، جو زمامِ اقتدار کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس اِس وقت عوام کا متنازعہ اور مبہم مینڈیٹ موجود ہے، جس کو حزبِ اختلاف تو درکنار، خود عوام بھی مسترد کر چکے ہیں۔ مختلف ملکی و بین الاقوامی حوالے سے شائع ہونے والی متعدد رپورٹس یہ ثابت کر چکی ہیں کہ پچھلے ایک سال میں تحریکِ انصاف کی عوامی مقبولیت میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اِس وقت بھی زور و شور سے جاری ہے۔ فوج ہمارا ایک معزز اور باعث ِ تکریم دفاعی ادارہ ہے،جس کی بنیادی ذمہ داری ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔

ریاست کو لاحق دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے میں ہماری ملٹری فورسز نے جو قربانیاں دی ہیں، وہ ناقابل ِ تردید ہیں،حالانکہ دہشت گردی کے اِس عفریت کی پیدائش کس طرح ہوئی ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔آرمی ایکٹ میں ترامیم ایک خالص عوامی مسئلہ ہے اور اِس پر قانون سازی کا حق بھی عوامی نوعیت کا ہے، حکومت نے بہت اچھا کیا جو تمام مخالف جماعتوں کو اِس بنیادی جمہوری حق سے محروم نہیں کیا۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی غیر مشروط حمایت پر بیک جنبش ِ قلم تعجب تو ضرور ہے، مگر اِس ضمن میں کوئی مختلف رائے سامنے نہیں آئی، یہ بہت بڑی بات ہے۔ ایک سادہ اور بالکل عام فہم قانون یہ تھا کہ تین سال بعد آرمی چیف ریٹائرڈ ہو جاتا ہے۔

یہ قانون فی نفسہ بہت زبردست اور معقول ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہنگامی صورتِ حال نہ ہو تو پھر بھی کیا ریٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف کو توسیع دی جا سکتی ہے؟ اِس کا حتمی فیصلہ تو عوامی نمائندوں کا کام ہے، ہم طبع زاد صحافیوں کا نہیں، مگر ہم جیسے طلبائے علم و فضل کو یہ حق تو حاصل ہے کہ ہم عوامی نمائندوں کے فیصلوں پر تنقید بربنائے دلیل تو کر سکیں۔ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن جو وزیراعظم نے اپنی صوابدید پر جاری کیا تھا، اْس میں ایک انگریزی اصطلاح ابھی تک ذہن میں گھوم رہی ہے، مَیں نہیں سمجھ سکا کہ اِس کا کیا مطلب ہے؟ وہ اصطلاح تھی ریجنل سیکیورٹی، جس کا لفطی اُردو ترجمہ ہوتا ہے علاقائی تحفظ۔


اب یہ ریجنل سیکیورٹی یا علاقائی تحفظ کیا ہے؟ جس کی بنیاد پر ایک وزیراعظم ایک آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر سکتا ہے؟اِس کی وضاحت خود عوامی رائے سے منتخب ہونے والے وزیراعظم ہی کو دینی ہے۔ ہمارے ہاں ایک عام رواج یہ ہے کہ قانون سازی کے معاملے میں عوام کو بالکل لاعلم رکھا جاتا ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عوام کو اِس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ اُسے ایسے دقیق قانونی مسائل سے آگاہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ مقامِ حیرت ہے کہ قانون سازی کی اِس نہج پر ابھی تک یہ نکتہ واضح نہیں کیا گیا کہ آخر کس منطقی بنیاد پر منتخب حکومت بغیر ہنگامی حالات کے ایک ریٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر سکتی ہے؟ شاید کالم ہذا کی اشاعت کے بعد ہی ہماری اِس استدعا کو کوئی قانونی ماہر یا مارشل لاز پر گہری نظر رکھنے والا کوئی بندۂ خدا درخورِ اعتناء سمجھ لے اور واضح کر دے کہ ایک منتخب حکومت فلاں منطقی وجوہ پر ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر سکتی ہے…… جن اصحاب کی یہ ذمہ داری ہے۔

وہ اِس نکتے کو عوام کے لئے واضح کریں۔ سردست اُن سے قطع ِ نظر خاکسار کو تو اِس قانون سازی کی صرف ایک ہی معقول وجہ نظر آ رہی ہے کہ جب منتخب حکومت کے لئے سول نافرمانی کی تحریک ایسا زور پکڑ لے، جس کا سدباب بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہو اور اْدھر ریاست کا آرمی چیف ریٹائرڈ ہونے کے قریب ہو تو ایسی گھمبیر صورتِ حال میں پھر منتخب حکومت ریٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی معقول وجہ ہے تو اُسے بہرصورت عوام کے سامنے لایا جائے کہ ایک خالص جمہوری ریاست میں حکومت کا دوسرا نام عوام ہی ہے۔ گوکہ جمہوریت کی ہوبہو یہی تعریف ہماری ریاست پر چسپاں کرنا منطقی زیادتی کے مترادف ہے، اگر مذکورہ ہنگامی صورت حال نہ ہو تو پھر ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں وسیع کرنا کس زمرے میں آتا ہے؟ ……یہ نکتہ نہ صرف غور طلب،بلکہ زیر بحث بھی ہونا چاہئے۔


اِس طرح اگر بغیر ہنگامی صورتِ حال کے ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوتی رہی تو سوال یہ ہے کہ ان مستحقین ترقی افسروں کا کیا ہو گا،جو بغیر ترقی کئے ریٹائر ہو جائیں گے؟ اِس سوال کا جواب بھی اْنہی کے ذمہ ہے،جو آرمی ایکٹ میں ترامیم کر رہے ہیں۔ اِس امر کا براہِ راست ملٹری ادارے سے کوئی تعلق نہیں کہ یہ سارا کیا دھرا عوامی نمائندوں ہی کا ہوتا ہے۔ البتہ اگر عوامی نمائندے کسی غیر مرئی دباؤ کے زیر اثر ہیں تو منافقت کی بجائے واضح طور پر قوم کو اپنے اِس عذر سے آگاہ کریں، یوں عوام کو اعتماد میں لئے بغیر اس قدر حساس قانون سازی کر لینا حکومت کے لئے بھی خطرے سے خالی نہیں اور خود ملٹری اداروں پر بھی سوالیہ نشان چسپاں کرنے کے مترادف ہے۔ آج اکہتر کی دہائی والے لاشعور عوام نہیں رہے، سوشل میڈیا اور مائیکرو بلاگنگ نے پوری دُنیا کو ایک ورچوئل ویلج بنا کر رکھ دیا ہے،سو اِس طرح کے دھڑلے شاید ہی اب مقبول ہو پائیں مَیں پچھلے سولہ گھنٹوں سے مسلسل سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں، ہر دوسری پوسٹ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی تنقید پر مبنی ہے۔

گزشتہ رات گئے جب مَیں نے ”الجزیرہ“ ٹی وی کے ایک سینئر صحافی دوست سے صرف اِس لئے رابطہ کیا کہ وہ مجھے یہ انفارمیشن دے سکے کہ دُنیا کی کسی جمہوری ریاست میں کوئی ایسا قانون موجود ہے،جس کے تحت موزوں حالات میں ایک ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جائے، تو مَیں اپنے دوست کا جواب سن کر حیران رہ گیا کہ ایسا کوئی قانون دُنیا کی کسی بھی جمہوری ریاست تو درکنار کسی نیم یا غیر جمہوری ریاست میں بھی موجود نہیں،بلکہ دوست کے مطابق تو ایسا کرنا خود آرمی قوانین کے صریح خلاف ہے کہ بالکل موزوں حالات میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی جائے، اس سے وہ آرمی افسر جو اِس ترقی کے اہل تھے،بغیر پروموٹ ہوئے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔دوست کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ خبر بریک کرنے پر مجھے سب سے زیادہ حیرت ہوئی۔

مزید :

رائے -کالم -