مختلف زاویوں سے ہم نے اس چٹان کو دیکھنا چاہا جہاں شیر بیٹھا تھا . لیکن تناور درخت گھنا جنگل اور نشیب اس میں مانع رہے ،یہ ضروری تھا کہ ہم کسی قدر بلندی کی طرف جائیں ، اب تک جتنا فاصلہ طے کیا تھا وہ سارا نشیب میں وادی اور گھنے جنگل کے درمیان ہی تھا .
جس جگہ ہم اس وقت کھڑے تھے اس سے الٹے ہاتھ کی جانب تو وہ پہاڑ تھا جس کی چٹان پر شیر کو بیٹھے دیکھا تھا ..... لیکن سیدھی طرف ایک اور پہاڑی تھی ..... ہم اس پر جا کر شیر کو دیکھ سکتے تھے ..... لیکن اس پہاڑی پر چڑھنے کے بعد فاصلہ پھر زیادہ ہو جاتا جہاں سے شیر پر فائر کرنا قطعاً درست نہ ہوتا ..... میں شیر پر اس وقت تک فائر نہیں کرتا جب تک مجھے فاصلہ اور فائر کی کامیابی کا کامل یقین نہ ہو جائے..... شیر کو زخمی کرنا اور چھوڑ دینا ایک نہایت غیر دانش مندانہ فعل ہے .....دوسروں کے لیے تو خیر کیا خطرہ ہوتا اس لیے کہ وہ تو تھا ہی آدم خور ..... مجسم خطرہ ..... لیکن خود شکاری کے لیے خطرات تقریباً دو سو فیصد بڑھ جاتے ہیں ..... اور اچھے اچھے تجربہ کار شکاری شیر کی تلاش میں جانے سے احتراز کرتے ہیں .....
مجھ کو دوبار زخمی شیر کی تلاش میں نہایت تلخ تجربات ہوئے ہیں اور دونوں بار محض اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت نے مجھے بچالیا ..... الحمداللہ تعالیٰ سبحانہ ..... اس کے بعد بھی کئی بار زخمی شیر کی ہلاکت کو جانا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا اور شیر کو فنا کیا ..... البتہ ہر دفعہ میں خوشی سے نہیں گیا ..... بادل نخواستہ گیا ..... اگر ذرا بھی امکان ہوتا کہ مجھے نہ جانا پڑتا تو میں ہرگز نہ جاتا ..... بس یہ کہ زخمی شیر کو ہلاک کرنا فرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے .....
میں نے عظمت میاں سے کہا ..... ”برادر عزیز ..... اب معاملہ نہایت خطرناک ہے ..... اگر تم یہاں درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاﺅ تو میں اس آدم خور کی فکر میں جاﺅں..... “”کیوں ..... میں کیوں نہ چلوں ..... ؟!“سوال درست تھا .....
” اب خطرہ زیادہ ..... مقابلہ بہت سخت اور احتیاط کی ضرورت بہت زیادہ ہے.....میں بالکل یکسوئی کے ساتھ اس کی فکر کرنا چاہتا ہوں ..... “
شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 27
”صحیح ہے ..... اپن بھی چلیں گا ..... “ کوئی اور ہوتا تو میں اس کو درخت پر چڑھا کر ہی رہتا ..... لیکن عظمت میاں سے میں کیا کہتا ..... میں نے ان کو شیر والے پہاڑ کی طرف چلنے کا اشارا کیا .....
وہ صاحب آگے آگے ..... تقریباً دس قدم آگے ..... اور میں عقب میں ..... میں نے ان سے پھونک پھونک قدم رکھنے کو کہہ دیا تھا..... وہ چند قدم چل کر رک گئے ..... پہلے بغور اوپر کی طرف دیکھتے رہے ..... پھر گھوم کر مجھے دیکھا ..... میں قریب آگیا..... ”خاں ..... تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو گے .....“
”کیا ..... ؟ “
”بہت خطرہ رہے گا ..... “
” وہ تو ہے ..... “
”اگر شیر نے اوپر سے چھلانگ لگا دی تو ..... “
”ممکن ہے ..... “
”تو ..... پھر میں درخت پر بیٹھ جاتا ہوں ..... “
”بہت عقلمندی ہوگی ..... “
میں پھر نیچے واپس آیا ..... عظمت میاں نے جوتے اتار دیئے اور بہ آسانی ایک نہایت تناور برگد کے درخت پر چڑھ گئے ..... جب وہ بلند ہوگئے تو میں نے ان کی رائفل بھی انھیں دے دی ..... البتہ جوتے درخت کے نیچے ہی رکھے رہ گئے .....
اب مجھے کاملاً اطمینان تھا..... یہی سبب ہے کہ میں شکار میں کسی کو ساتھ لے جانے پر تیار نہیں ہوتا ..... اگر خطر ناک شکار نہ ہو تو کوئی بھی ساتھ جا سکتا ہے ..... گواس میں بھی میں اس وقت سے بہت محتاط ہوگیا جب سے مجھے لاہور کے ایک شخص کو ہڑیال کے شکار پر ساتھ لے جا کر نہایت تلخ تجربہ ہوا ..... وہ آدمی ضلع کچہری لاہور میں ملازم اور ہر گز اس حیثیت کا نہیں تھا کہ میرے ساتھ جاتا ..... البتہ حیثیت کچھ ایسی اہم نہیں ..... اس لیے کہ باغبان پورہ کے لطیف الرحمان جو بڑے زمیندار ..... تعلیم یافتہ اور متمول آدمی تھے ..... ان کو میں ڈاکٹر ذوالفقار کے اصرار سے مجبور ہر کر دو تین بارساتھ لے گیا ..... اور ہر بار مجھے اپنی نادانی کا افسوس ہوا .....
پھر تو میں نے گویا عہد کر لیا ..... اور کسی کو ساتھ نہیں لے گیا ..... تاانیکہ اب میرے دونوں بیٹے ماشاءاللہ جوان ہیں ..... دونوں..... چھوٹے شکار کے حقائق ..... جو ان کے لیے مفید ہے ..... ان دونوں سے بحمدللہ تعالیٰ ہمارا خاندانی ورثہ .....یعنی شکار ..... جاری رہے گا ..... اور دونوں ہی ہرن ‘ چکار ‘ الک ‘ موذ اور کیربو .. مرغانی ‘ تیتر ‘ بٹیر ‘ اور دوسرے جنگلی پرندے شکار کرتے ہیں۔ میں نے ان دونوں کو ریچھ اور پوما کے شکار پر جانے سے بھی روک دیا اور ان کو خود بھی دلچسپی نہیں ہے ..... !
عظمت خاں کو با آرام بٹھانے اور یہ یقین کر لینے کے بعد تک شیر ان تک نہیں پہنچ سکتا میں پہاڑ کی طرح چلا ..... بلندی یکباریگی ہی تھی ..... اور عمودی ..... نتیجہ یہ کہ چند قدم چل کر سانس پھول جاتا ..... اور مجھے ٹھہر کر سانس درست کرنا پڑتا..... پھولی ہوئی سانس کے ساتھ فائر ہرگز ممکن نہیں .....
اس لیے مجھے بلندی کی طرف جانے میں بڑا وقت صرف ہوا ..... گھڑی پر تو میں نے نظر نہیں ڈالی لیکن بہت دیر لگ رہی تھی..... اور اس پر مجھے اختیار نہیں تھا .....ابھی میں تقریباً نصف بلندی تک گیا تھا کہ مجھے وہ چٹان نظر آگئی جہاں شیر تھا ..... اور صرف پچاس ساٹھ گز پر تقریباً الٹے ہاتھ کو..... لیکن ..... وہاں اب شیر نہیں تھا ..... چٹان خالی اور ویران ..... مجھے یکباریگی جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ..... یقیناً شیر نے ہماری جھلک دیکھ لی اور حرکت کی ہے ..... اب یہ کہ وہ کدھر گیا ..... میں اس سے مقابلے کو تیار تھا ..... میں نے اطراف کو بغور دیکھا ..... اور ابھی میں ذرا ترچھا ہی تھا کہ عین سامنے ..... تقریباً پچاس ساٹھ گز پر ایک جھاڑی میں سے نکل کر شیر دوسری کی آڑ میں ہو گیا .....اگرچہ حرکت اس قدر سریع تھی کہ بس گویا نظر نے ایک ذرا سی کسی شئے کی جھلک ہی دیکھی ..... لیکن یہ ضروری نہیں تھا کہ مجھ پر اس کے بارے میں وحی نازل ہوتی تب میں سمجھتا کہ کون ہے .....
میں نشیب میں ..... شیر بلندی پر ..... فاصلہ .....؟ ساٹھ گز ..... عین ممکن تھا کہ شیر اسی فاصلے سے حملہ کر بیٹھے ..... اس موذی کو یقیناً معلوم ہوگا کہ میں نشیب میںہونے کی وجہ سے دفاع نہ کر سکوں گا کیونکہ بلندی سے دوڑ کے نیچے آنے والے کی رفتار سرعت سے کم از کم چار گنا زیادہ سریع ہو سکتی ہے ..... جبکہ نشیب سے بلندی کی طرف حملہ کی ضرورت میں رفتار اسی نسبت سے کم ہوجاتی ہے .....
میں حتیٰ الامکاں سرعت سے دائیں جانب ہٹ کر ایک چھوٹے درخت کے تنے کے ساتھ لگ گیا۔ رائفل کے دونوں گھوڑے اٹھادیئے ..... توقع تھی کہ کسی بھی لمحے شیر حملہ کر بیٹھے گا ..... مجھے وہ نظر نہیں آتا تھا ذرا سی جھلک بھی نظر آجاتی تو میں فائر کرتا ..... اس لیے کہ اتنے کم فاصلے سے اگر گولی لگتی ..... چار سو پچاس ایکسپریس کی گولی ..... تو یقیناً مہلک ہوتی ..... وقت گزرتا گیا ..... اور میں سمجھتا ہوں اس طرح کھڑے مجھے صدیاں گزر گئی ہوں گی ..... میں بار بار عقب میں اور ادھر ادھر بھی دیکھ لیتا ..... ایک بار جو نظر اٹھی تو وہ موذی مجھے کوئی چالیس گز پر دائیں جانب ایک جھاڑی میں گھستا نظر آیا ..... لیکن صرف اس کی کمر اور دم ہی دیکھی ۔وہ بھی چشم زدن سے بھی کم عرصے کے لیے ..... فائر نہیں ہو سکا ..... لیکن اب جس جگہ وہ آگیا تھا وہ تقریباً برابر کی سطح تھی ..... اور اس کی اولین کمیں گاہ سے تقریباً ساٹھ ستر گز دور ..... اس نے یہ فاصلہ اس چالاکی اور پوشیدگی سے طے کیا کہ میں نہ دیکھ سکا .....
رائفل کی نالی بھی اس طرف کردی ..... وہ یقیناً حملہ کرنے کو آمادہ تھا ..... غالباً اسے کافی عرصے سے انسانی گوشت نہیں ملا تھا..... اور اس کی طبیعت مجبور کئے تھی کہ وہ کسی کو شکار کرے ..... حملہ کرنے میں اس کو تامل صرف اس لیے تھا کہ وہ مجھے خطر ناک شخص تصور کرتا تھا ..... مجھے یقین ہے اگر میری جگہ کوئی دوسرا انسان ہوتا تو شیر حملے میں ہر گز تامل نہ کرتا ..... مجھ پر حملہ کرنے میں وہ احتیاط برت رہا تھا..... اس نے جتنی دفعہ حرکت کی یقیناً اس وقت کی جب میں کسی اور سمت نگرانی کے لیے دیکھ رہا تھا .....
اب وہ جس جگہ تھا وہ وہاں سے نیچے جانے کے لیے اتنی گھنی جھاڑیاں نہیں تھیں کہ وہ چھپ کر حرکت کر سکتا ..... اس کی کمیں گاہ اور میرے مابین بھی کوئی ایسی چھپنے کی جگہ نہیں تھی ..... اب وہ جس فاصلے پر تھا وہاں سے اگر وہ حملہ کربھی دیتا تو میرے پاس فائر کے لئے کافی گنجائش تھی ..... ساٹھ گز کا فاصلہ شیر اس برق رفتاری سے طے نہیں کر سکتا جس سے تین گز کا مقررہ حملے کا فاصلہ طے کرتا ہے ..... لہٰذا میں کم از کم دو فائر بہ آسانی کرسکتا تھا .....
میں نہایت غور سے جھاڑیوں میں دیکھ رہا تھا ..... دل چاہتا تھا کسی طرح جھاڑیوں کی رکاوٹ کا پردہ ذرا سا سرک جائے اور وہ موذی نظر آجائے ..... معاملہ ادھر یا ادھر کا آگیا تھا ..... وہ لمحہ دور نہیں تھا جب میرے خیال کے مطابق اس آدم خور کی لاش وہاں پڑی ہوگی..... اسی وقت میری چھٹی جس نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کی .....
وہ علاقہ میرا دیکھا ہوا تو تھا ..... میری نظر سے وہ ایک نالی چھپی نہیں رہی جو پہاڑ کی بلندی سے بارش کے پانی کو نیچے گراتی رہی ہوگی ..... اور نجانے کتنے سالوں کی اس ریزش کے باعث کٹ کٹ کر غالباً دو اڑھائی فٹ عمیق تو ضرور ہو گئی ہوگی ..... اس کا جتنا حصہ مجھے نظر آتا تھا وہ بلندی کی جانب تھا ..... باقی وہ جھاڑیوں میں پوشیدہ اور اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ نالی عین ان جھاڑیوں میں جاتی تھی جہاں شیر کی جھلک دیکھی تھی ..... یہ خیال آتے ہی میں نے گھوم کر نیچے کی طرف دیکھا ..... اور جیسے سکتہ ہوگیا ..... !
اور ..... چاروں ہاتھوں پیروں پر جھکا ہوا جست کرنے کے لیے آمادہ ..... اگر میں اپنی چھٹی حس کی تنبیہ کو نظر انداز کر دیتا تو شیر مجھے دبوچ ہی لیتا .....
میں نے اس کے جھکے ہوئے سر سے کوئی دس انچ پیچھے ..... گویا گردن اور شانوں کے درمیان کے علاقے کا نشانہ لیا جہاں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور بالا تامل فائر کر دیا ..... گولی غلط گئی اور شیر کے سر کے سامنے زمین پر پڑی جس کی وجہ سے خاک اڑ کر شیر کی آنکھوں میں پڑی ہوگی ..... یا کنکریاں گئی ہوں گی کہ وہ تلملا کر پلٹا اور ڈھلوان پر گر کر دو چار بار لڑھکا اور اٹھ کر بھاگا اس دوران اس کی غراہٹ کی آواز بھی صاف آئی .....
اور میں ابھی فائر کرنے والا ہی تھا کہ درخت پر سے عظمت خاں نے فائر کیا .....
ان کی گولی بھی خالی گئی ..... بلکہ ستم یہ ہوا کہ اس کا رخ میری ہی طرف تھا ..... ایک پتھر پر سے گولی پھسلی تو سیدھی میرے سر کے پاس سے نکلتی چکی گئی ..... میں گھبرا کے درخت کی آڑ میں ہوگیا اس ڈر سے کہ وہ صاحب کہیں اس رخ پر دوسرا فائر نہ کردیں ..... لیکن شیراب کہاں ..... وہ تو یہ جاوہ جانہ جانے کدھر نکل گیا ..... !
میں نے خالی کارتوس نکال کر چیمبر میں دوسرا کارتوس لگادیا ..... اور اپنی غلطی پر نادم ہونے کے سوا اور کیا کرتا ..... دراصل بلندی سے نشیب کی طرف فائر کرتے وقت ہمیشہ غلطی کا امکان ہوتا ہے اس لیے کہ نیچے کی طرف جانے والی گولی پر کشش ثقل زیادہ اثر کرتی ہے اور کشش کے نتیجے میں گولی کا زاویہ مختلف ہو جاتا ہے ..... میں ایک فٹ اور آگے نشانہ لیتا تو گولی صحیح لگ سکتی تھی ..... لیکن وہ موقعہ سوچنے کا نہیں تھا ..... اگر میں ایک ثانیہ کے دسویں حصے کے برابر بھی دیر کرتا تو شیر جست لگا چکا ہوتا ..... گو مجھے یقین ہے کہ اس کا حملہ نہایت غیر موثر ہوتا ..... ایسی صورت حال میں کہ وہ خود نشیب میں اور میں بلندی پر تھا عام شیر تو حملہ ہی نہ کرتا ..... یہ محض آدم خور کی چالاکی ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں حملہ کرنے پر آمادہ ہوگیا ..... اس کو یقیناً یہ معلوم تھا کہ میں نشیب کی طرف سے حملے کا گمان نہیں کر سکتا اور بڑی حد تک یہ خیال درست بھی تھا ..... وہ اللہ تعالیٰ سبحانہ کی عنایت شامل حال ہوتی ہے کہ میں بروقت ہوشیار ہوجاتا ہوں .....
(جاری ہے...اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)