شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 29
مزید کوشش بے کار تھی .....میں آزاد انہ نیچے اترا اور سیدھا اس درخت کی طرف آیا جہاں عظمت خاں تھے ..... مجھے آتا دیکھ کر انھوں نے بھی اترنا شروع کر دیا تھا .....’’وہ تو بھاگ لیا خاں.....‘‘
’’ہاں ..... ‘‘میں نے ان سے قطعاً تذکرہ نہیں کیا کہ ان کی گولی میرے سر کے پاس سے گزری ..... ان کا قصور بھی نہیں تھا، اتفاقی بات تھی.....! لیکن ..... اس قسم کے اتفاقات بعض اوقات سانحات بن جاتے ہیں ..... اسی لیے میں کسی کو ساتھ لے جانے سے احتراز کرتا ہوں .....
اس روز مزید تلاش ملتوی کردی ..... مجھے یقین تھا کہ شیر کم از کم تین چار روز اس علاقے کی طرف رخ نہیں کرے گا ..... دوپہر کا کھانا ہم دونوں نے ایک چشمے کے کنارے پتھروں پر بیٹھ کر کھایا ..... وہیں یکے بعد دیگرے وضو کر کے ظہر کی نماز پڑھی ..... اس کے بعد پہاڑوں اور وادیوں میں گھومتے پھرتے عصر کے ذرا بعد واپس گاؤں پہنچے .....
اس کے بعد ہمارے تین روز اس علاقے میں سرگردانی میں گزرے شیر کا نہ صرف کوئی نشان نہیں ملا بلکہ اطراف سے بھی اطلاع موصول نہیں ہوئی ..... میں سمجھتا ہوں کہ اس نے بندوق کا دھماکہ پہلی بار سنا تھا اور قدرتاً اس پر خوف طاری ہوا اس کو یہ احساس ہوگا کہ اس کا شدید دشمن انسان اتنا بے ضرر نہیں جتنا اس نے سمجھ لیا تھا .....
تیسرے روز سہ پہر کو میں تنہا سارے دن کی سرگردانی کے بعد واپس ہو رہا تھا ۔ا بھی غالباً دو میل پر ہوگا کہ میں نے پہاڑ کی بلندی سے نیچے نظر کی .....وہ راستہ جو بیر کنڈ سے گبھا آتا ہے نظر آرہا تھا اور اس پر دو بیل گاڑیاں گبھا کی طرف آرہی تھیں ..... میں اس راستے سے تقریباً تین سو گز پر تھا ..... میں جانتا تھا کہ وہ راستہ ذرا ہی دور پر گھنے تناور درختوں کے سائے میں ہوجاتا ہے اور مجھے نظر نہیں آئے گا ..... لیکن ان درختوں کے پردے میں وہ راستہ ایک نیم دائرے کی شکل میں اسی پہاڑی دامن کے ساتھ ساتھ چکر لگا کر مشرق میں نکلتا تھا اور وہیں ایک نالے کے کنارے جنوب کی طرف گھوم جاتا تھا ..... بیل گاڑی کے پیچھے پیچھے دو آدمی چل رہے تھے ..... وہی آگے پیچھے کے دیہاتی طریقے پر .....
میں جس جگہ تھا وہاں سے اگر سیدھا جنوب کی جانب اترتا تو گاڑیوں کے نالے تک پہنچنے سے بہت پہلے اس موڑ پر پہنچ جاتا ..... میری اس روز کی دشت نوردی اختتام پذیر ہو چکی تھی ..... لہٰذا میں سیدھا جنوبی دامن پر اترنے لگا ..... ابھی چند ہی قدم گیا تھا کہ نیچے گاڑی کے راستے پر نظر پڑی ..... گاڑی کے پہیوں سے زمین کٹ کر دونوں پہیوں کی راہ بن جاتی ہے جبکہ درمیان کی زمین ویسی ہی رہتی ہے.....
ابھی میں ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ میری نظر شیر پر پڑی ..... اور میں ٹھٹک کر رہ گیا ..... وہ موذی عین موڑ سے کوئی پانچ گزر آگے ..... نالے میں اترتے ہوئے نظر آیا اور ایک ثانئے میں ہی اتر کر نظر سے غائب ہوگیا ..... مجھے اس کی تدبیر جنگ سمجھنے میں دیر نہیں لگی ..... وہ اسی جگہ چھپا ہوا تھا ..... اور گاڑیوں کے وہاں پہنچنے کا منتظر... غالباً اس نے دیکھ لیا تھا کہ گاڑیوں کے پیچھے پیچھے دو آدمی چل رہے ہیں اور دنوںآگے پیچھے ایک دوسرے سے دس بارہ قدم کے فاصلے پر چل رہے تھے جیسا کہ ان دیہاتیوں کی مستقل عادت ہوتی ہے ..... میرے لیے یہ صورت حال بڑی تشویش اور تر دو کاباعث تھی ..... مجھے یقین تھا کہ اگر گاڑیوں کے مختصر قافلے کوہوشیار نہیں کیا گیا تو بس سے پیچھے چلنے والا آدمی اس روز ضرورلقمہ تر بنے گا ..... اور آدم خور کا طویل روزہ افطار ہو جائے گا .....
ایک انسانی جان شدید خطرے میں تھی .....میں جہاں تھا وہاں تقریباً تین سو گز ..... میں بلندی پر تقریباً تین سو گز ..... اور وہ نشیب میں ..... میں اگر تیز رفتاری سے نیچے اترتا تو خود میں اسے بہ آسانی نظر آجاتا ..... اور اگر اسی طرح خاموشی سے اترتا تو .....
لیکن ..... میں نے سوچا کہ میں کوئی سوگز پر چھپ جاؤں ..... اور ان لوگوں کو آنے دوں ..... تاکہ شیر اس آدمی پر حملہ کرے ..... اس وقت میں شیر کو ماردوں.....!بہت بڑا خطرہ مول لینے والی بات تھی ..... یہ ہر گز نہیں کیا جا سکتا کہ شیر کس رخ اور کس سرعت سے حملہ کرے گا ..... جانور کامعاملہ نہیں تھا ..... انسانی جان کا موقعہ تھا .....
بار ہا ایسا ہوا کہ میں نے شیر کے شکار کے لیے مچان بندھوایا ..... درخت سے ذرا فاصلے پر جانور باندھا گیا ..... لیکن بہت کم ایسا ہوا کہ جانور کو بچانے میں کامیاب ہوا ..... ہمیشہ شیر اس وقت مارا جائے گا جب اس نے جانور کا کام بھی تمام کر دیا تھا .....
شیر نالے کے اندر اترا تھا..... دیہاتی پر حملہ کرنے کے لیے اسے بہ آہستگی نالے میں سے نکل کر اوپر آنا ہوتا ..... پھر ..... یا تو زبردست دھاڑ تا اور حملہ کرتا یا نہایت خاموشی سے آدمی کو پکڑ کرلے بھاگتا ..... آخری طریقے کی توقع زیادہ تھی اس لیے کہ آدم خور شیر بالعموم حملے کے وقت آواز نہیں کرتے ....
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ شیر کے نالے میں سے نکلنے اور حملہ کرنے کے دوران مجھے کم از کم دو فائر کرنے کا نہایت عمدہ موقعہ مل سکتا تھا ..... اور وہ بھی ..... سو گز ..... یا اس سے بھی کم فاصلے پر ..... سب کچھ صحیح تھا ..... اور حتیٰ الامکان تیزی سے جنوب مغرب کے رخ درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ لے کر اترنا شروع کیا ..... دس منٹ کے اندر ہی میں نیچے اتر آیا .....
میں سے سوچا .....کیوں نہ میں خود اس راستے پر چلوں اور شیر مجھ پر حملہ کر دے ..... ! یہ تو بالکل اقدام خود کشی ہوتا ..... اور مجھے اس قسم کا خیال ہرگز نہیں تھا ..... !میں واپس گاڑیوں کی طرف چلا ..... اور اسی وقت میری چھٹی حس جاگ اٹھی ..... میں تیزی سے اپنی جگہ سے ہٹا ..... اور دائیں جانب ایک چٹان کے قریب ہو گیا ..... اور عقب کی طرف دیکھنے لگا ..... گاڑی کا راستہ تو صاف تھا ..... لیکن ..... ؟!خدا کی پناہ ..... صرف پندرہ گز کے فاصلے پر ایک جھاڑی میں شیر غائب ہوتا نظر آیا ..... صرف پندرہ گز پر ..... گویا یقینی موت.....صرف پندرہ گز پر ..... ! میں نے رائفل سیدھی کرلی ..... پھر خیال آیا .....
کہیں ایسا تو نہیں ..... شیر بھی گاڑیوں کی طرف جارہا ہے ..... لیکن یہ خیال درست نہیں تھا ..... شیر کی بہترین تدبیر تو وہی تھی کہ وہ نالے میں چھپا رہتا اور گاڑی والوں کو اس موڑ سے گھومنے دیتا ..... اس نے یقیناًمجھے دیکھ لیا اور پھر حملے کی نیت سے نالے سے نکل کر تعاقب میں آیا تھا ..... تعجب یہ کہ اس نے حملہ نہیں کیا ..... اور اس میں رائفل مانع تھی جو اس نے میرے ہاتھ میں دیکھ لی ..... اور جس کے دھماکے سے وہ آشنا ہوگیا تھا ..... اگر اس نے پندرہ گز سے ہی حملہ کر دیا ہوتا تو خدا جانے کیا صورت ہوتی .....!
میں جہاں تھا وہیں پیش و پس سے نگراں ..... کھڑا رہا ..... لیکن صرف چند ہی منٹ گزرے تھے کہ سامنے سے گاڑیاں آتی نظر آگئیں ..... جب میں نے اطراف کی جانب اچھی طرح دیکھ کر اطمینان کر لیا تو سامنے گاڑی کے راستے پر نکل آیا ..... اس وقت گاڑی مجھ سے کوئی پچیس تیس گز پر رہی ہوگی ..... گاڑی والے یکباریگی مجھے دیکھ کر یقیناًحیرت زدہ رہ گئے ہوں گے ..... کیونکہ جہاں تھے وہیں رک گئے ..... میں نے گھوم کر پیچھے دیکھا ..... راستہ صاف تھا ..... !