شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 30

شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر ...
شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 30

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اور اس وقت اس طرف جدھر میں نے پندرہ گزپر شیر کی غائب ہوتے دیکھا تھا ..... سور کا زبردست نعرہ ..... پھر شیر کی دھاڑ..... اور جھاڑیوں میں زبردست انتشار اختلال ..... ایک ہنگامہ برپا ہوگیا پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی سورہوں ..... ایسا ہی غل غپاڑا تھا ..... میں اسی طرف رخ کیے الٹے قدموں گاڑیوں کی طرف پسپا ہوا ..... میں چاہتا تھا فاصلہ ذرا زیادہ ہو جائے ..... بجانے یہ سور کہاں سے اس جگہ نکل آئے کہ شیر کو گھیر ہی لیا ..... شیر کے مسلسل غرانے اور دھاڑنے کی آوازیں آتی رہیں پھر جیسے کوئی سور بد حال ہو گیا ..... شور جب زخمی اور ناکارہ ہوتا ہے یا جنگ میں شکست کھاتا ہے تو بڑی دردناک قسم کی آواز سے چیں چیں کرتا ہے جیسے رورہا ہو اور ساتھ ہی ہنگامہ ختم .....

شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
شیر کے غرانے کی آواز در ایک بار آئی ..... وہ بھی نالے کی طرف سے اور میں نے یہی طے کیا کہ وہ اس فساد سے اکتا کر لٹاپھر تا نظر آتا..... ایک دو روز بعد کی بات ہے ۔مجھے راستے میں گاڑیوں کے ساتھ سات آدمیوں کا قافلہ نظر آیا ..... سب نے قریب آکر فرداً فرداً میرے پاؤں چھوئے اور لاکھ منع کرنے کے باوجود ایسا کیا ..... مجھے اس سے بڑی وحشت ہوتی ہے مگر ان علاقوں کا رواج ہی یہی ہے .....
وہ لوگ اردوقطعاً نہیں بولتے تھے ‘ نہ سمجھتے تھے ..... لیکن میں جب گاڑی کے پاس آگیا تو حال کھلا ..... گاڑی میں ایک شدید زخمی شخص چادروں میں لپٹا ہوا تھا ..... وہ لوگ سب ہی غالباً اس کا حال مجھے سنانے کی کوشش میں تھے لیکن مجھے کنٹری قطعی نہیں آتی .....
غالباً جنوبی ہند میں بولی جانے والی ساری علاقائی زبانوں میں کنٹری سب سے مشکل زبان ہے ..... اس کے قریب قریب ہی تلگو ..... اور اس کے بعد ملیالم ..... جو تالم ناڈو میں بولی جاتی ہے ..... ملیالم غالباً بہت قدیم زبان ہے اور جنوب مغربی ہندوستان کی بہت بڑی آبادی یہ زبان بولتی ہے ..... لیکن تعجب خیز یہ کہ ملیالم ایک بہت ترقی پذیر زبان ہے ..... میں جن دنوں ابو ظہبی گورنمنٹ کا العین میں کوآپریٹیو ساسائٹی کا کمرشل منیجر تھا ان دنوں میرے ماتحت کئی لوگ کیرالہ کے تھے ..... اور یہ سب تامل بولتے تھے ..... میں نے اس سے بعض الفاظ سیکھ لیے تھے جن کا تلفظ ہی بہت مشکل تھا .....
کیرالہ کے ایک مسلمان میرے ساتھ ابو ظہبی کے انگریزی اخبار EMIRATES NEWS میں بھی کام کرتے تھے ..... ان کا نام جلیل تھا ..... بہت نمازی اور دیندار شخص تھے ..... وہ بتاتے تھے کہ ملیالم زبان میں قرآن پاک کے تراجم ..... تفاسیر ..... احادیث نبوی ﷺ کے تراجم اور دوسری تمام علمی وادبی کتب قدیم زبانوں سے لکھی جاتی رہی ہیں اور اب بھی بکثرت ہوتی اور لکھی جا رہی ہیں ..... ملیالم میں نہ صرف مدارس بلکہ یونیورسٹی تک کی تعلیم ہوتی ہے .....
موسیقی سے مجھے دلچسپی ہے ..... اور دنیا کے مختلف ممالک کی موسیقی میں سنتا رہا ہو ..... جہانگرد ہوں اس لیے ہر ملک میں کچھ نہ کچھ موسیقی کا سامان ہوجاتاہے ..... مجھے ملیالم کی خالص دیسی موسیقی سے قطعاً دلچسپی نہیں ہوئی ..... اس طرح کو ریانی ‘ جاپانی اور چینی موسیقی میں مجھے دلچسپی نہیں ہے .....
خیر ..... !وہ زخمی شخص بڑی تکلیف میں تھا ..... میں نے ان سے پوچھنا چاہا لیکن مشکل زبان کی تھی ..... تاہم ایک شخص نے اشاروں اور الفاظ کی مشترکہ کوشش سے یہ سمجھا دیا کہ اسے شیر نے زخمی کیا ہے ..... اور وہ لوگ اسے بلھار شاہ ہاسپٹل لے جار ہے تھے ..... راستے میں دیر ہوگئی گاڑی کا دھرا ٹوٹ گیا دوسرا دھر بنائے اور بدلنے میں بڑا وقت لگ گیا .....
زخمی شخص ..... گزشتہ روز اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا ..... تین چار آدمی ساتھ تھے ..... یہ شخص کسی ضرورت سے قریب ہی جھاڑی میں گیا ..... اور شیر ا س پر چڑھ دوڑا ..... غالباً شیر وہاں ان پر تاک لگائے بیٹھا رہا ہوگا ..... اچھا یہ ہوا کہ اس کے ساتھی بلم برچھے لے کر دوڑ پڑے اور شیر اس کو چھوڑ کر بھاگ لیا ..... لیکن اتنے ہی عرصے میں اس نے زخمی کو ایک بار تو شانے کے نیچے اس طرح پکڑا کہ پوراشانہ منھ میں تھا دانت سینے سے گھسے ..... پشت پر بھی دو بڑے دانت گھس گئے تھے ..... دوبارہ ان سے پکڑ ایک جھٹکا دیا ..... ران کی ہڈی ٹوٹ گی تھی .....
غالباً خون بہت نکل گیا تھا ..... جس وقت میں نے زخمی کا معائنہ کیا اور وقت تو خون رک چکا تھا لیکن زخمی کو نقاہت بہت تھی ..... میں نے عظمت میاں کے ملازمین سے مرغ کا سوپ بنوا کر اس کو پلایا ..... اس کے زخم گہرے تھے ..... اور خراب ہونے کا اندیشہ تھا..... درد بھی بہت تھا..... میں نے اس کو اسپرین کھلائی ..... اور زخموں کو اچھی طرح پانی سے صاف کر کے اس پر دوا لگا دی تاکہ جراثیم اور خرابی سے فی الوقت محفوظ رہیں ..... ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ..... بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شیر نے چبا کر توڑ دی تھی ..... اس کو دونوں طرف سے لکڑیاں رکھ کر باندھ دیا ..... اس نے رات نسبتاً آرام سے گزاری ..... صبح روانگی سے پہلے میں اس کو ایک بار پھر مرغ کا سوپ پلوایا .....
زخموں پر مزید دوا لگا کر پٹیاں باندھ دیں ..... اور اسپرین کھلا دی ..... میں اس کے لیے اتنا ہی کچھ کر سکتا تھا ..... اس کے ساتھی اسے گاڑی میں ڈال کر بلھار شا کی طرف چلے گئے میں نے ان کو حفاظتی تدابیر بھی دے دی تھیں .....
ان کی روانگی کے بعد میں نے ااورعظمت خاں نے مجلس مشاورت منعقد کی ..... ہم لوگ کا متفقہ فیصلہ یہی تھا کہ فی الحال گبھا کو ہی مرکز بنائے رکھا جائے ..... اس لیے کہ شیر اس علاقے میں زیادہ سرگرم عمل ہے ..... گو اس نے بیر کنڈ میں ایک آدمی کو مجروح کر کے چھوڑ دیا تھا ..... میرا خیال یہ تھا کہ اس علاقے میں چیتے کے تو کئی جوڑے تھے لیکن شیر نہیں تھا ..... یہ واحد شیر اس سارے علاقے پر حکمراں تھا اور بیرکنڈ سے گبھا تک کے علاقے میں گشت کر تا رہتا تھا .....
’’میں بھی آج تمہارے ساتھ چلوں گا خاں..... ‘‘میں نے ایک ذرا توقف کیا .....
’’ تم کو مجھ پر اطمینان نہیں رہے گا ..... ؟‘‘’’یہ بات نہیں میرے بھائی ..... مجھے خود اپنے پر اعتماد نہیں ..... ‘‘
’’کیا مطلب ہیگا .....‘‘’’ کچھ کچھ ایسا ہی ہے ..... میں تم سے درخواست کرتا ہوں برادر کہ تم گاؤں میں رہو ..... لوگوں کے ساتھ ..... تاکہ ان کی حفاظت بھی کر سکو ..... شیر کسی وقت بھی گاؤں میں آسکتا ہے .....
عظمت میاں بہت سیدھے آدمی تھے اور مجھ پر ان کا اعتماد بھی انتہا کا تھا .....میرے چکمے میں آگئے ..... یہ بات نہیں تھی کہ عظمت میاں شکاری نہیں تھے ..... بہت اچھے شکاری نہایت عمدہ نشانہ ..... بس فائرکووفوری نہیں کر سکتے تھے ..... انتہائی شخص عجلت میں شدید ضرورت کے باجود نشانہ لینے میں دیر کرتے تھے ..... یہ ان کی طبیعت کا تقاضا تھا ..... اور کوشش کے باوجود وہ اس کو تاہی پر قابو نہیں کر سکے.....
شیر ..... وہ بھی آدم خور ..... اور اس کی چالا کی اور خونخواری کا حال پچھلے صفات میں بیان ہوا ..... اگر وہ حملہ کر بیٹھتا اور میری جگہ عظمت میاں صاحب ہوتے تو ..... خدا کی پناہ ..... نجانے کیا ہوتا ..... ویسے واقعہ یوں بھی ہے کہ اتنے سے شیر کے حملے کی صورت میں نجانے میں بھی کچھ کر سکتا کہ نہیں ..... اللہ تعالیٰ ہی حفاطت کرتا ہے ..... !
میں ناشتے سے فارغ ہو کر تنہا ہی نکلا ..... دوپہر کے کھانے کا سامان ساتھ تھا ..... اس روز پان کی طلب بھی تھی ..... لیکن میں چھالیہ ‘ کتھہ‘اور چونا اور الائچی لوگ کھا کر کام چلایا ..... یہ بتا دینا ضروری ہے کہ پان اور اس سے متعلقہ اشیاء کا استعمال شیر کے شکار میں تو جائز ہے ..... لیکن اور کسی جانور کے شکار میں اس کااستعمال قطعاً ممنوع ہے ..... لونگ اور الائچی بہت تیز خوشبودار کو بھگانے یا ہوشیار کرنے میں نہایت کار آمد ہوسکتی ہے شکار میں نہیں ..... !
بلھار شامیں پان ملتے تھے اور میں لایا بھی تھا جو ختم ہو گئے .....گبھا کے چار پانچ آدمی بلھار شاہ گئے ہوئے تھے ان کو عظمت خان نے کچھ روپے دیئے تھے کہ واپسی میں پان لیتے آئیں ..... وہ اس روز شام تک متوقع تھے ..... اس روز مطلع کسی قدر ابر آلوتھا ..... کبھی دھوپ نکل آتی کبھی بادل آجاتے ..... میرا خیال تھا کہ شام تک یہ بادل جمع ہو کر بارش کا باعث بننے لگیں گے ..... ان جنگلوں میں بارش ہوجائے تو زمین نم ہو کر بعض مقامات پر تکلیف دہ بن جاتی ہے ..... گاؤں میں تو کیچڑ سے بڑی ہی اذیت ہوتی ہے ..... لیکن گبھا پہاڑی علاقہ اور بجری کی زمین تھی اس لیے کیچڑکا اندیشہ نہیں تھا ..... پھر وہی پہاڑ ..... ندیاں ..... نالے ..... گھاٹیاں ..... اور شام کا نا کام واپسی ..... تمام دن کی مختصر داستان یہی تھی .....
شام کو بادل خوب گہرے ہوگئے ہو امیں خنکی بھی زیادہ ہوگی ..... اس روز میں نے عظمت میاں کے ایک گارے کے انتظام کی تجویز پیش کی شیر کمزور تھا نہ بوڑھا ..... جانور کی طرف اس کی توجہ نہ ہونے کی وجہ کوئی نہیں تھی ..... !’’کہاں بندھواؤ..... گے خاں ..... ‘‘
’’میرے خیال میں وہی گاڑی کے استے .....‘‘
’’موڑ کے پاس ..... ؟!‘‘
’’ہاں ..... میں نے وہاں برگد کا ایک درخت دیکھا ہے جو میرے بیٹھنے کے لیے اچھا رہے گا ..... وہاں سے موڑ تک تقریباً چالیس پچاس گز جگہ صاف نظر آتی ہے ..... انہوں نے اپنے آدمی کو ہدایت کر دی کہ گاؤں میں کوئی قابل فروخت جانور تلاش کر کے قیمت بتائے ..... ذرا ہی دیر میں ایک کھندا بیل مل گیا ..... جس کے عظمت میاں نے پندرہ روپے بھی فوراً ادا کر دیئے .....(جاری ہے)

شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

کتابیں -شکاری -