شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 31
دوسرے روزصبح میں گاؤں سے اس طرح چلا کہ ایک جلوس بیل کو ساتھ لیے ہمراہ تھا ..... انہوں نے اس طرح کا شکار پہلے نہیں دیکھا تھا ..... سب کو اس تماشے سے دلچسپی ہوگی ..... عظمت خاں گویا اس جلوس کے سربراہ تھے ..... ہم تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد اس موڑ پر آگئے جہاں شیر نے گاڑی والوں پر یا شاید مجھ پر تاک لگائی تھی ..... برگد کے جس درخت کا میں نے تذکرہ کیا وہ گاڑی کے راستہ سے کوئی بیس تین گز جنوب کی طرف تھا اور بہت تناور تھا .....
پہلے گاؤں کے دو آدمی بہ آسانی اس درخت پر چڑھے اور اچھی طرح دیکھ بھال لیا ..... میں نے ان کو اشاروں سے درخت پر جا بجا جانے کو کہا ..... آخر اس مطلوبہ جگہ کا تعین ہوگیا جہاں میں بیٹھنا مناسب سمجھتا تھا اور گاؤں سے جو ایک ٹوٹی کھٹیا لائی گئی تھی وہ اسی جگہ شاخوں پر اچھی طرح جما کر رکھی گئی اور رسیوں سے باندھ دیا گیا .....
شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بیل کو درخت سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر گاڑی کے راستے کے شمال میں پہاڑی کے دامن پر نالے کے اتصال کے قریب درخت کی ایک جڑ سے باندھ دیا گیا ..... رسہ کافی لمبا تھا نہ تاکہ بیل ادھر ادھر حرکت کر سکے ..... نہ گھاس کی کمی تھی نہ جھاڑیوں کی ..... بیل کو مفت ضیافت اڑانے کی آزادی اس لیے ملی کہ اس کی رسائی چرونجی کی ان جھاڑیوں تک بھی تھی جو وہاں خوب پھل رہی تھی ..... بیل کو باندھنے سے پہلے پانی پلا دیا گیا ..... اس کے بعد اس کو باندھ کر ..... آدم خور کے حوالے کر دیا گیا .....
میں نے بھی گاؤں والوں کے جلوس کے ساتھ واپسی کی ..... اس لیے کہ میں دن کے وقت وہاں بیٹھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا ..... وہ سارا دن میں نے با اقساط سونے میں گزارا ..... عصر کی نماز پڑھ کر میں تیار ہوا ..... گاؤں کے چھ آدمی ساتھ ہوئے اور میں ڈیڑھ گھنٹے میں مطلوبہ مقام پر آگیا ..... لیکن بیل ..... ؟
بیل تو غائب تھا ..... !
اور نہ صرف بیل ..... رسہ بھی غائب تھا ..... مجھے ہی تعجب نہیں ہوا بلکہ دیہاتی بھی متعجب ہوئے اگر شیر اس کو مار کر لے جاتا تو کوئی نشان تو ہوتا ..... اور شیر رسہ کھولتا کس طرح .....
میں نے اس جگہ کا چھی طرح جائزہ لیا ..... شیر کا کوئی نشان نہیں تھا ..... یقیناً کسی نے رسے کی گرہ کھولی اوربیل لے گیا ..... اور..... یہ کام کسی انسان کا ہی ہو سکتا ہے ..... ہم لوگ جس وقت گاؤں واپس آرہے تھے ..... اسی دوران بوند ا باندی شروع ہوگئی اور بادل گہرے ہو رہے تھے ..... گاؤں میں بیل کی گمشدگی کی خبر نے سب ہی کو حیران کیا .....
’’عظمت میاں ..... کیا خیال ہے ..... ؟‘‘
’’عظمت میاں ذرا سوچتے رہے ..... ‘‘
’’خاں ..... یہ تو کسی کی جرات ہیگی ..... اپن پتہ کر ہی لیں گے ..... ‘‘انھوں نے اپنے آدمی کو بلایا .....
’’تم جا کے پتہ کرو ..... بیل کس نے بیچا تھا ..... ‘‘
’’اس گاؤں کا آدمی تھا ..... ‘‘
’’اس سے پتہ کرو ..... اور اگر نہ بتائے تو اس کو دھمکاؤ..... ‘‘
’’لیکن اسے کیا معلوم ہوگا ..... !‘‘ میں نے دخل دیا
’’خاں ..... ‘‘ عظمت بولے ’’تم شکاری تو پکے ہوگے ..... مگر میں جاگیردار ہوں گا ..... مجھے ان کے کل پر زے کا پتہ ہے گا ..... ‘‘ میں چپ ہو رہا .....
بہر حال ..... شام تو ہو ہی گئی ..... اور بارش بھی زیادہ ہونے لگی ..... ہم لوگ گمشدگی کے مسئلے کے بارے میں سوچتے رہے..... بلکہ شاید عظمت کے علاوہ اور سب سوچتے رہے ..... عظمت سے جب اس کی بات کی ان کی جبیں پُر شکن ہوگئی ..... ان کو یقین تھا کہ بیل دستیاب ہو جائے گا.....
صبح ہم ناشتے سے فارغ ہو کر چائے پی رہے تھے کہ وہ آدمی جس نے بیل فروخت کیا تھا اس کو دو آدمی بمشکل لے کر آئے ..... نہایت برا فروختہ تھا .....
’’کیا بات ہے ..... ؟‘‘
عظمت نے گرج کر پوچھا ..... ان کی آواز بڑی گرجدار ..... اور لہجہ اکثر ایسے موقعوں پر نہایت جاگیردارانہ ہوجایا کرتا تھا .....
’’سر کار ..... یہ کچھ نہیں بتاتا ..... ‘‘
’’اچھا ..... ‘‘ عظمت اٹھ کر دو قدم اس کی طرف بڑھے ..... اس بیوقوت دیہاتی کی یہ ہمت کہ ان کو بڑھتے دیکھکر نہایت مضحکہ انداز سے ہنسا.....
بس عظمت خاں کو جاگیردارانہ جلال آہی گیا ..... قریب پڑا ہوا ایک ڈنڈا اٹھا کر انہوں نے جو اس کی پٹائی شروع کی ہے تو اللہ دے اور بندہ لے ..... اس کے تو خواب و خیال میں نہیں تھا کہ عظمت میاں ..... جن کو اس نے احمق شہری بابو سمجھا تھا ..... اس قدر طاقتور اور ایسے خونخوار ثابت ہوں گے دو منٹ میں ہی وہ چیں بول گیا..... اور رو رو کر اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ..... ہاتھ جوڑے ..... قدموں پر سر رکھا ..... اورنجانے کس کس طرح گڑ گڑایا ..... بھاگنے کی کوشش کی تو عظمت نے لنگڑی اڑا کر گرادیا ‘
آخرعظمت میاں نے ہاتھ روکا .....
’’پوچھو اس سے بیل کہاں گیا ..... ؟ ‘‘
ان کی آنکھوں میں واقعی خون اتر آیا تھا جیسے اس نے آنسوؤں ہچکیوں التجاؤں اور نجانے کس کس کو اس کے ساتھ جو کچھ اپنی زبان میں بتایا اس کا ترجمہ یہ تھا کہ بیل کو اس کا ایک رشتے دار وہاں سے چار میل شمال مغرب کی چند گھروں کی آبادی کو اڑا لے گیا ..... خود اسی نے یہ پلان بنایا کہ پیسے بھی وصول کر لے اور بیل بھی غائب کر دے اس کو یہ خیال تھا کہ ہم اس کو شیر کی حرکت سمجھیں گے .....
’’ اس سے کہو دوڑا جائے اور بیل لے کر آئے ..... اور فوراً ورنہ جہاں یہ جلسہ گاوہیں آکر اس کی ہڈیاں تو ڑ دوں گا .....‘‘ آدمی نے ویسے ہی ترجمہ کر دیا ..... اور اس خبیث نے ہاتھ جوڑ کر اور قدموں میں سر رکھ کر وعدہ کیا کہ جلدی ہی لے کر آئے گا.....
گاؤں والوں نے یہ جلال اور پٹائی دیکھی تو سارے ہی سہم گئے ..... ایک آدمی نے اپنی پرانی بیکار گھوڑی لاکر پیش کی نہایت لاغر بھی تھی ..... کوتاہ قد بھی اس کی پیٹھ پر گہرے زخم تھے جن پر مکھیاں بھنک رہی تھیں ..... میں نے اس کو بیس روپے بھی دیئے اور گھوڑی لے لی ..... .
’’اب وہ اس کا اپن کیا کریں گے ..... خاں ..... ؟ ‘‘ عظمت نے پوچھا
’’اس کو باندھیں گے گارے کے لیے ..... ‘‘
بالعموم شیر گھوڑے پر حملہ نہیں کرتا ..... شاید اس کی تیز رفتاری یا بلند قامتی کی وجہ سے ..... لیکن یہ زخمی گھوڑی تو قد میں گدھے کے برابر ہی تھی .....دوپہر کو اسے کھلا پلا کر وہیں باندھ گیا جہاں بیل بندھا تھا ..... اور ابھی ہم لوگ گاؤں واپس آہی رہے تھے کہ وہ چوراپنا بیل لے کر بھی آگیا .....
اس بیل کو میں نے گاؤں سے ذرا دور مشرق کی جانب جنگل کے عین وسط میں جہاں ایک کشادہ میدان تھا بندھوا دیا ..... اسی کے قریب درخت پر عظمت میاں بمعہ اپنے دو عدد ملازمین کے بیٹھے ..... نہ معلوم انہوں نے یہ منصوبہ کب بنا لیا مجھے نہیں بتایا کہ شاید میں اجازت نہ دوں .....
ان کو درخت پر محفوظ بٹھانے اور تاکید کر دینے کے بعد کہ شام کے بعد وہ قدم درخت سے نیچے نہ رکھیں میں چار پانچ دیہاتیوں کو ساتھ لے کر اس جگہ آیا جہاں گھوڑی بندی تھی ..... اور بہ آرام مچان پر بیٹھ گیا ..... تھر مس میں چائے تھی وہ ساتھ کی شاخ پر لٹکا دیا ..... میں سردیوں میں ساتھ کمبل وغیرہ نہیں رکھتا ..... اس لیے کہ میرا شکاری لباس خود خوب گرم ہے ..... تھوڑی ٹھنڈک محسوس ہوتی رہے تو نیند دور رہتی ہے ..... اچھی طرح گرم ہوجانے کا مطلب ہے کہ نیند آجائے .....
میرے درخت پر بیٹھ جانے کے بعد دیہاتی میری ہدایت کے مطابق ہلکی آواز میں باتیں کرتے گاؤں کی طرف واپس ہوگئے.....
اب میں تھا اور اس جنگل کا سناٹا ..... وہ سکوت جو زندہ تو ضرور ہوتا ہے ..... بولتا تو ضرور رہتا ہے لیکن وہ آوازیں صرف شکاری ہی سن اور سمجھ سکتا ہے ..... ایک عام شخص کو ان کا احساس نہیں ہوتا اس لیے کہ جنگل کی آوازیں اس کے ماحول میں اس قدر گھلی ملی ہوئی ہیں کہ ان کو اس فضا سے جدا کر کے سننا اور سمجھنا ممکن نہیں ہوتا ..... الایہ کہ سماعت و ہوش کو ان کا تجزیہ کرنے کی عادت ہو ..... !
میں سن رہا تھا کہ ایک ننھا مناٹڈا ..... اپنے پیروں کو رگڑ کر وہ مسحور کن آواز کر رہا ہے جو اس کی محبوبہ کو کچے دھاگے میں باندھ کر کھینچ لائے گی .....
میں اس جھینگر کی آواز بھی سن رہا تھا جو اسی برگد کے درخت کی نزدیکی شاخ پر گیت گا رہا تھا ..... مجھے اس گبریلے کی بھی خبر تھی جو کسی غذائی مواد کا گولا بنا کر لڑھکا رہا تھا..... میری سماعت میں اس ننھی چڑیا کا گیت بھی نغمہ بن کر آرہا تھا جو کہیں دور پر کوئی راگ الاپ رہی تھی میں بالکل بے خیال ..... بے فکر ..... اور اطمینان کے حال میں پلنگڑی کی تنگ مچان پر بیٹھا تھا ..... رائفل گود میں رکھی تھی ہاتھ گرفت کے گرد ..... ٹریگر کے قریب ..... نظر میں ہر جنش کو دیکھنے اور تجزیہ پر آمادہ ..... سارا شعور سر گرم عمل ..... !
وہ وقت بہترین وقت تھا .....
ساری کونین جیسے معدوم ہوگئی تھی ..... نہ فکر نہ خیال ‘ نہ تردو ‘ نہ غم ‘ نہ خوشی ..... بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف خوشی ہی خوشی تھی ..... سکون ..... سکوت اور سکون یہی وہ دو قیمتی اجناس ہیں جو ہمیں زندگی کے مختلف ادوار میں بمشکل ہی نصیب کا اندازہ کسی کو نہیں ہو سکتا ..... وہ لمحات ایسے بیش قیمت تھے کہ اگر ان کی کیفیت کا کسی کو اندازہ ہوجائے تو اپنی ساری زندگی کائنات دے کر ان لمحات کا فراغ حاصل کرے..... ذہن ‘ اعصاب ‘ جسم ‘ سب کامل اطمینان کی حالت میں تھے ..... ! خالی الذہن ہونا بھی ایک نعمت الٰہی ہے ..... میں قطعاً خالی الذہن تھا ..... کوئی خیال ہی نہیں تھا ..... نہ میں کچھ سوچ رہا تھا..... نہ وہاں بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت تھی .....
ہوا بہت خوشگوار تھی ..... ! بادل خوب گہرے ہوگئے تھے ..... جنگل میں تھوڑی بارش ہو کر رک جائے مٹی سے ایسی سوندھی معطر خوشبو اٹھتی ہے جو روح کو فرحت اور ذہن کو مسرت پہنچاتی ہے ..... ساراماحول اس سوندھی سوندھی خوشبو میں بسا ہوا تھا درخت ..... بارش میں نہاکر ایسے نکھر آئے تھے کہ ان کو دیکھ کر ہی نظروں کو فرحت ہوتی تھی ..... بعض بعض جگہوں پر خوش رنگ جنگلی پھول اس ماحول کی رنگینی میں اور اضافہ کر رہا ہو.....
ان علاقوں کی مٹی لال ہوتی ہے ..... اکثر پتھر بھی اسی رنگ کے ہوتے ہیں ..... سامنے جو بلند و بالا پہاڑ تھے ان میں جابجا ہرے بھرے درخت تو تھے ہی ..... جہاں کہیں درخت اور سبزہ نہیں تھا وہاں سرخ یا کالی بڑکی بڑی بڑی چٹانیں سرابھارے جھانک رہی تھیں .....
لال منھ کے بندر کا ایک قبیلہ اس طرف سے گزرا ..... غالباً وہ اس طرف رہے تھے جہاں ان کی شب گزاری کا انتظام تھا ..... بندروں کو رات کے وقت بالخصوص ایسی محفوظ قیام گاہ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ بہ حفاظت رات گزار سکیں ..... ان کا سب سے بڑا دشمن تو تیندوا ہوتا ہے جس کے لیے درخت پر نقل و حرکت آسان ہوتی ہے .....
انسان کو اطمینان اور سکون کی دولت کم ہی میسر آتی ہے ..... جو بھوکا ننگا ہے وہ بھی پریشان و مضطرب اور جو متمول ہے وہ بھی ..... سکون کسی کو میسر نہیں ..... الااس کے جو دنیا جہاں سے بے نیاز ہوچکا ہو ..... یا وہ شخص جو اپنے حالات سے سمجھوتہ کر کے قانع ہو گیا ہو.....
میں جس جگہ بیٹھا تھا اس کے گردشاخوں کو ادھر ادھر ہٹا کر ایسی مناسب آڑ بنادی گئی تھی کہ میں بالکل صاف نظر نہیں آسکتا تھا ..... یہ اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ مجھے تھوڑی بہت حرکت کی اجازت رہے ..... سارا وقت دیوار بن کر تو کوئی نہیں بیٹھ سکتا ..... البتہ مچان پر بیٹھ کر حرکات میں احتیاط بھی ضروری ہے اور کم از کم حرکت کر بھی ..... مسلسل جبنش تو کسی جانور کو بھی متوجہ کر سکتی ہے ..... (جاری ہے )