شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 27
اللہ تعالیٰ سبحانہ نے انسانی ذہن بھی عجیب کر شمہ بنایا ہے ..... ساٹھ سال کی ساری یادیں میرے ذہن کے پردوں پر اس طرح منقوش ہیں جیسے ابھی کل کی بات ہو ..... میں جب کوئی واقعہ تحریر کرنا شروع کرتا ہوں تو ان یادوں کی تصاویراس طرح منعکس ہونے لگتی ہیں جیسے سب زندہ ہوگئی ہوں ..... یہی وجہ ہے کہ میرے قصوں میں ایک واقعے کے ضمن میں کتنے ہی اور واقعات کا سلسلہ ملتا چلا جاتا ہے ..... یہی میری تحریر خصوصیت بھی ہے اور خوبی بھی .....
شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں واحد شکاری ہوں جو اردو میں سچے واقعات قلمبند کرتا ہے ..... اور واحد ادیب ہوں بحمداللہ تعالیٰ جس نے شکاریات کو ادب عالی کا مقام عطا کیا ہے ..... میرے اس کارنامے کو تاریخ ادب اردو بیان کرے یا نہ کرے ..... میرا نام نقدسخن میں آئے یا نہ آئے ..... مجھے اس سے غرض نہیں ..... میری طمانیت قلب کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میری بیس کے قریب کتابیں صرف اسی موضوع پر شائع ہو چکیں ..... جو لوگ میری تخلیقات کے مطالعہ کرتے ہیں ان کی تعداد کا اندازہ دشوار ہے ..... نا ممکن ہے ..... جو لوگ میری کتابیں پڑھکر مجھے خطوط لکھتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہے کہ میں ان سب خطوط کا جواب نہیں دے پاتا مثال کے طور پر ..... گذشتہ ہفتے ہی مجھے میری ناولیں شکاریات اور شعری تخلیقات پڑھنے والے مہربانوں کے اکتالیس خطوط ہندوستان ‘ پاکستان ‘ جرمنی ‘ سوئیڈن ‘ ناروے‘ انگلینڈ ‘ کینڈا ‘ اور امریکہ کے کئی شہروں میں موصول ہوئے.....
میں گمنام ہوں ..... لیکن اتنا گمنام بھی نہیں ..... !
میں بیر کنڈ کے آدم خور کا قصہ بیان کر رہا تھا .....ہم دونوں ..... ایک دوسرے کی طرف پشت کئے کھڑے تھے ..... میرے ہاتھ میں رائفل اس طرح تھی کہ چشم زدن سے کم عرصے میں شانے پر آسکے .....
میں نے تھرمس سے چائے نکال کر عظمت کو دی دوسری پیالی میں اپنے لیے انڈیلی اور اسی طرح کھڑے کھڑے ہم نے چائے پی.....’’اب کدھر جانا ہے گا ..... ؟‘‘
’’اوپر ..... آگے ..... ‘‘
ذرا دیر بعد ہی ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا ..... عظمت خاں آگے آگے اور میں کوئی آٹھ قدم ان کے پیچھے ..... رفتار غالباً نصف میل فی گھنٹہ سے بھی کم .....
ہمیں یہ خبر نہ ہوسکی کہ پہاڑ کا اختتام کہاں ہے ..... کب ہم چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے ..... اس لیے کہ کئی بار ایسا ہوا..... ہم ایک سطح مقام پر پہنچے اور ابھی یہ سوچتے ہی تھے کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر آگئے اسی وقت سامنے دوسری بلندی نظر آگئی اور ہم اس طرف چل پڑے .....
ایک بار پھر بلندی پر درخت کی آڑ لے کر ہم لوگ ٹھہرے ..... سانس درست کرنے کی ضرورت بھی تھی ..... میں نے نشیب کی طرف نظر ڈالی ..... حدنگاہ تک سرسبز و شاداب درخت ..... پہاڑ ..... پہاڑیاں ..... جن کے درمیان سے جا بجا سرخ پتھر کی چٹانیں سر نکالے جھانک رہی تھیں ..... دور مغرب کی طرف ایک پہاڑ کی ڈھلان کا سارا دامن جنگلی پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا ..... جن کی ہلکی خنک ہوا کے جھونکے جھولا جھلا رہے تھے .....
’’یہ رہا شیر ..... ‘‘میں نے اچانک کہا
’’شیر ..... ؟!‘‘عظمت گھبرا کر بولے ..... اور ایسے بدک کر ہٹے جیسے شیر ان کے پیر کے نیچے ہی ہو ..... پھولوں بھرے پہاڑی دامن سے ذرا اوپر ایک جانب ایک دیو پیکر چٹان کے سنگلاخ فرش پر شیر بیٹھا اپنا پنجہ چاٹ چاٹ کر سر اور چہرے پر پھیر کر صفائی کر رہا تھا ..... غالباً شریفے کا ایک درخت اس طرح جھکا تھا کہ چٹان پر ساری شاخوں نے سایہ کرلیا تھا ..... جو شاخیں جھک پڑی تھیں شیر ان کی آڑ لے کر ہی بیٹھا تھا لیکن رخ کچھ ایسا کہ ہماری جانب سے صاف نظر آتا تھا ..... ممکن ہے دوسری سمت سے نظر نہ آتا ہو .....
فاصلہ ..... ؟! تقریباً سات سو گز ..... ! ہم دونوں کسی قدر آڑ میں تھے ہی ..... اس کو دیکھتے ہی اور آڑ لے لی ..... ’’بہت دور ہے ..... ‘‘
’’ہاں ..... ‘‘
’’اب کیا کریں خاں ..... ‘‘
’’چلتے ہیں ..... لیکن اس جگہ کو اچھی طرح شناخت کر لو ..... ‘‘
اطراف کے نشانات اور علامات کو ذہن نشین کر کے ہم ساتھ کی جھاڑیوں میں چھپتے نشیب کی طرف مغرب رخ اترنے لگے ..... کسی قدر وقفے سے میں جھانک کر شیر کی موجودگی اور اس چٹان کو دیکھ لیتا جہاں وہ موذی اب بھی بافراغت بیٹھا اپنے جسم کی صفائی میں مشغول تھا .....
چند لمحوں بعد ہی ہم گھنے جنگل میں داخل ہوگئے جہاں وہ چٹان نظر نہیں آسکتی تھی ..... باوجود یکہ میں نے شیر کو چٹان پر بیٹھے دیکھ لیا تھا ..... اور یہ بھی معلوم تھا کہ اس علاقے میں اور کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن میں غافل پھر بھی نہیں تھا ..... میری نظر ہر طرف نگراں تھیں ..... میں نے ان لال منھ کے بندروں کو بھی دیکھ لیا جو ہماری پیش قدمی سے مطلع ہو کر درختوں کے جھنڈوں میں ایسی آہستگی سے سرک گئے تھے کہ ایک پتی کو بھی جنبش نہیں ہوئی .....
ہماری پیش قدمی کی رفتار سست تھی ..... عظمت میاں اب بھی آگے آگے تھے ..... اور واقعی نہایت احتیاط کے ساتھ قدم اٹھا رہے تھے ..... شیر کی نظر دور بین نہیں ہوتی ..... قدرت نے اس کو قریب کی نظر عطا کی ہے ..... اس کی وجہ یہی ہے کہ شیر کو دور دراز فاصلوں تک دیکھنے کی ضرورت نہیں ..... وہ گھنے جنگلوں میں رہنے والا اور گھنے علاقوں میں شکار کرنے والا درندہ ہے ..... اس لیے نظر اتنی ہی ملی جتنی وہ استعمال کر سکے .....
ہم جتنے فاصلے پر تھے اگر وہاں سامنے بھی ساکت و جامد کھڑے رہتے تو شیر ہم کو شناخت نہ کر سکتا تھا ..... اس لیے کہ سات آٹھ سو گز پر اس کی نظروں میں ساکن اشیاء میں تمیز کرنے کی اہلیت ہی نہیں رہتی ..... البتہ حرکت کو وہ دیکھ سکتا ہے ..... !
ہمیں اپنی جگہ سے حرکت کیے کوئی بیس منٹ گزر گئے تھے اور جس رفتار سے اتنی دیر حرکت کی تھی اس کے پیش نظر غالباً ہم ایسے خطے میں پہنچ گئے تھے جہاں شیر سوڈیڑھ سو گز کے اندر ہونا چاہیے تھا ..... یا شاید اس سے بھی کم .....
ہماری سست رفتاری اس لیے تھی کہ نہ صرف شیر ہی کی نظر سے بچنا تھا بلکہ جنگل کے دوسرے باشندے بھی ہمارے طرف دار نہیں تھے ..... شکاری کو دیکھ کر کوئے اور مینائیں تو شور کرتی ہی ہیں ..... بندر اور عام چڑیاں بھی احتجاج میں شریک ہوتی ہیں ..... آہستگی سے قدم اٹھانا ..... چلنا ..... رک جانا ..... جھاڑی کی آڑ لینا ‘ ہاتھوں کوزیادہ حرکت نہ دینا ..... یہ سب احتیاطی تدابیر ہیں ..... اور اکثر اسی طرح حرکت سے پرندے اور چرندے بھڑکتے نہیں ہیں ..... ان علاقوں میں مینائیں بھی تھیں اور بندر بھی ..... ابھی تک ہم لوگ ان دونوں بلیات کو ساکت رکھنے میں کامیاب تھے .....
آدم خور بلا کا چالاک ہوتا ہے ..... ذراسی غیر عادی آواز ..... معمولی سی حرکت‘ کسی پتے پتی کی جنبش ہر مشتبہ صورت حال اس کو خطرے کی گھنٹی معلوم ہوتی ہے ..... اور چوکنا کر دیتی ہے ..... آدم خور کے ہوشیار ہوجانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جگہ فوراً تبدیل کردے ..... چھپ جائے ..... یا جس شئے سے اس کو خطرہ محسوس ہوا ہو اس کی جستجو شروع کر دے .....
آدم خور کا کسی کی جستجو کرنا ..... کچھ ایسا خوش آئندہ نہیں ..... اس سے زیادہ سال شیروں کا شکار کرنے کے باوجود ہر گز کسی آدم خور کا اپنے تعاقب میں آنا گوارا نہیں کر سکتا ..... یہ کون پسند کرے گا کہ موت اس کے تعاقب میں آئے ..... آدم خور شیر چلتی پھرتی موت ہوتا ہے ..... !
(جاری ہے )