شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 26

شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 26
شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 26

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عظمت کی رینچ پر جنگل میں بکثرت ہرن ہیں ..... لیکن عظمت شکارسے مستعفی ہو چکے ہیں ..... میں گیا تھا تو میں نے ایک ہرن شکار کیا ..... جس کے کباب بھابھی عاصمہ اور بیگم منیر نے متفقہ کوشش سے تیار ہوگئے جو ایسے لذیذ بنے کہ میں نے کباب فریز کروائے اور ساتھ ٹلسا لایا ..... 
ہم آبادی کے کھیتوں سے نکلے تو اس بار میں نے وہ سمت اختیار کی جدھر صبح شیر بھاگ کر گیا تھا ..... اس طرح جنگل گھنا تھا ..... اور درختوں کے نیچے جھاڑیاں بھی نسبتاً گھنی تھیں ..... جا بجا آندھی میں گر جانے والے درختوں کے تنے اور شاخیں سو کھ کر ایسے ڈھیر بن گئی تھیں کہ ان سے گزرنا ممکن نہیں تھا ..... میں نے عظمت میاں سے کہہ دیا تھا کہ جہاں کوئی گھنی جھاڑی یا ایسا موڑ آئے کہ دور تک نظر نہ آتا ہو وہاں وہ ٹھہر جائیں تاکہ میں قریب آکر دیکھ بھال کر لوں ..... 

شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شیر کو جنگل میں تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں ..... شاید کسی کو یہ گمان ہو کہ جنگل میں ہر طرف شیر نظر آتا ہوگا ..... ایسا نہیں ہے..... بھوسے کے ڈھیر میں ہوئی تلاش کرنا آسان ہے ..... اس لیے کہ سوئی نہ تو خود چھپتی پھرتی ہے نہ کسی پر حملہ کرتی ہے ..... لیکن شیر نہ صرف خود چھپتا ہے بلکہ حملے کے لیے بھی آمادہ رہتا ہے ..... !
سینکڑوں میل پر پھیلے گھنے جنگل ..... نالے ندی ..... غار کھوہ ..... نشیب و فراز ..... جھاڑ جھنکار میں شیر جا بجا چھپتا پھرتا ہے..... وہ شیر جو نہ صرف ماہر ترین شکاری ہوتا ہے بلکہ چھپنے اور دیکھنے کے فن کا امام ..... اگر شیر کسی جھاڑی میں چھپا ہو تو اس کو دیکھنا ممکن نہیں ..... انھیں جنگلوں میں رہنے والے جانور جھاڑی سے جھانکتے ہوئے شیر سے دھوکا کھا جاتے ہیں ..... انسان تواس کا عادی ہی نہیں ہوتا ..... الایہ کہ شکاری ..... اور وہ بھی مشاق اور تجربہ کار شکاری ہو ..... 
جنگل میں کوئی ایک گھنٹہ چلنے کے بعد وہ مسطح جنگل پہاڑی دامن میں تبدیل ہوتا گیا اور ہم بلندی کی طرف بڑھے .....عام حالات میں ایک گھنٹے میں تقریباً تین میل فاصلہ طے ہوتاہے لیکن اس دشوار جنگل میں جہاں ہمیں آدم خور کی فکر تھی ..... اور قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی تھیں بمشکل ایک میل طے ہوا ہوگا ..... ا س لیے کہ کسی قدر بلندی پر آنے کے بعد ایک کھیلی جگہ سے میں نے آبادی کی طرف دیکھا تو گاؤں کے دو ایک گھر درختوں کے درمیان سے جھانکتے نظر آئے مجھے یہ اندازہ کرنے میں دشواری نہیں ہوئی کہ فاصلہ شاید اب ایک میل سے بھی کم ہی ہو ..... !
ہم چند قدم بڑھے ہی تھے کہ اک طرف سے چیتلوں کا ایک چھوٹا مند جھاڑیوں سے نکلا اور آہستگی سے چلتا ہوا پہاڑی کے دوسری جانب اتر گیا ..... مندے میں سات مادائیں اور دو کم عمر نر تھے ..... پہاڑی پرجو درخت تھے وہ تناور نہیں تھے ..... کم جثہ تھے ..... بیشتر شریفہ ’ ببول اور کروندے ویرہ کے درخت ہوتے ہیں ..... یا پھر چرونجی ‘ اور لہسوڑہ ..... یہ درخت پھل دار تھے اس لیے ا س علاقے می چرندے بھی زیادہ آتے جاتے رہے ہوں گے ..... ہر طرف جہاں مٹی نرم تھی چیتل اور سانبھر کے کھروں کے نشانات بکثرت نظر آتے تھے ..... اور ؟!
میں یہ نشانات کنکھیوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ عظمت میاں یکبارگی ٹھہرے ..... زمین کی طرف جھکے اور سر پیچھے گھما کر میری طرف دیکھتے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کیا ..... 
ماگھ ..... ؟! تازہ بہ تازہ ..... ! ہماری پیش قدمی کی لائن شمالا! جنوباً تھی ..... شیر کاماگ شرقاً غرباً تھا ..... میں نے مغربی سمت نگاہ کی ..... نشیب کی طرف اترتی ہوئی گھاٹی ..... ادھر دور تک بلند گھاس تھی ..... اور جا بجا بہت تنا ور درخت گھاس کے درمیان کھڑے تھے ..... ہم چونکہ بلندی پرتھے اس لیے یہ دیو پیکر درخت رکاوٹ ثابت ہوئے اور میں دور تک اس علاقے میں نہیں دیکھ سکا..... تاہم جس قدر ممکن ہوا ہم دونوں نے بہت غور توجہ کے ساتھ دیکھا ۔شکار میں عجلت کرنا غلط ہے ..... خصوصاً جب شیر ..... اور وہ بھی آدم خور شیر کو تلاش کرنے کا مرحلہ ..... ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا عین دانشمندی ہے ..... 
عظمت میاں نے بھی گاؤں سے اس مقام تک آنے میں شکاری لوازمات کی پوری پاسداری کی تھی ..... انھوں نے ..... میرے آگے آگے چلنے کے ساتھ ساتھ کسی قدم پر لاپرواہی کا ثبوت نہیں دیا تھا ..... ویسے واقعہ یہ ہے کہ وہ خود بہت اچھے شکاری ہیں ..... شیر کے شکار سے وہ میری ہدایت کے مطابق احتراز کرتے رہے جو ان کے حق میں یقیناًمفید رہا ..... وہ اس راز سے آگاہ ہوگئے تھے جس کی بناء پر ان کو شیر کے شکار سے منع کیا گیا تھا ..... یہ بھی ان کی دانشمندی اور عافیت اندیشی کی دلیل تھی ..... 
میں نے عظمت کو اشارہ کیا کہ وہ مغرب کی طرف جانے کے بجائے سیدھے چلتے رہیں ..... مجھے آدم خوروں کی نفسیات سے پوری واقفیت تھی ..... یقین تھا کہ شیر جس طرف گیا ہے ادھر ناک کی سیدھ میں تو ہر گز نہیں گیا ہوگا ..... دوراستے تھے ..... یا تو نشیب کی طرف ..... یا بلندی کی طرف ..... یہاں اگر میں اس مجرمانہ ذہنیت کا تذکرہ کروں جو اکثر مشاہدے میں آتی ہے تو آدم خور کو مجرم گردانتے ہوئے یہ باور کرنا عین درست تھا کہ شیر بلندی کی طرف گیا ہوگا ..... میری مراد ہے کہ کچھ دور مغرب کی طرف چل کر پھر وہ شمال کی سمت گھوم گیا ہوگا ..... یہی آدم خو رشیروں کی نفسیاتی حرکت ہے ..... یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ عام طور سے مجرموں کی عادت یہی ہوتی ہے کہ وہ بلندی کی طرف فرار کرتے ہیں ..... 
عظمت میاں اسی طرف چلے ..... قدم قدم سنبھل کر رکھتے ..... جھاڑیوں درختوں کے جھنڈوں سے بچتے بلندی کی طرف جاتے رہے ..... بلندی کی طرف جانے میں سانس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اس لیے زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے ..... ایسی حالت کہ تنفس تیز ہوتورائفل فائر کرنا ممکن نہیں رہتا ..... اور اگر شیر نزدیک ہے یا کوئی خطرناک درندہ حملہ آور ہے تو پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ان کا نشانہ بنانا ممکن نہیں ہوتا..... میں بلندی پر جانے میں ہمیشہ احتیاط کرتا ہوں ..... پانچ منٹ کا فاصلہ پچیس منٹ میں طے کرنا بہتر سمجھتا ہوں بہ نسبت اس کے کہ پانچ منٹ میں اوپر آؤں اورسامنے شیر کھڑا نظر آئے.....
ہم ٹھہر ٹھہر کر قدم اٹھاتے بلندی کی طرف بڑھتے رہے ..... میں وقتاً فوقتاً گھوم کر پیچھے دیکھ لیتا ..... دشمن کے علاقے میں اپنے عقب سے غافل نہیں چاہیے ..... یہ جنگ کا ایک اہم نکتہ ہے ..... !
بلندی تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ..... ذراسی مسطح پتھر یلی زمین یا کسی چٹان راہ میں آتی اور پھر وہی چڑھائی ..... اس سارے فاصلے میں کوئی اور ماگھ بھی نہیں آیا ..... میں نے کئی بار گھوم کر گاؤں کی طرف دیکھا لیکن اب جنگل راستے میں رکاوٹ بن چکا تھا اس لیے آبادی نظر نہیں آئی..... 
جس سمت ہم جارہے تھے اسی طرف بیر کنڈ کی آبادی تھی ..... جو وہاں چھ سات میل رہی ہوگی ..... مجھے یقین تھا کہ آدم خور اس وقت بیر کنڈ کا رخ کر گیا ..... شیر طویل فاصلوں تک روزانہ چہل قدمی کرتا ہے ..... رات میں تقریباً پندہ بیس میل چکر لگا کر اپنی اقامت گاہ میں واپس آجاتا ہے ..... لیکن دن کے وقت اس کو اتنا کرنے کی تاب نہیں ہوتی ..... دھوپ اور گرمی سے شیر بہت گھبراتا ہے ..... 
ہم نے اس کوہ کو سر کرنے کی کوشش میں تقریباً ایک گھنٹہ اور صرف کیا ..... جب اس کی تسخیر کا امکان نزدیک معلوم نہ ہوا تو عظمت کو میں نے رکنے کا اشارہ کیا ..... 
انھوں نے پوچھا ’’ذرا ٹھہر جاتے ہیں ..... ‘‘ اور ہم لوگ ایک درخت کے تنے کے پاس رک گئے ..... اس طرح کہ ہم دونوں کی پشت ایک دوسرے کی طرف تھی ..... 
چندماہ قبل ہی امریکہ کے DISCOVERY CHANNEL پر ایک فلم دکھائی گئی تھی جو شمالی ہن دکی کسی SANCTUARY میں بنائی گئی ..... اس خصوصی علاقے میں ایک شیر آدم خور ہو گیا ..... اور دو چار دیہاتیوں کو لقمہ بنا یا ..... ایک نوجوان لڑکی کو سخت زخمی کر کے چھوڑ دیا ..... فلم میں یہ لڑکی اور اس کے زخموں کے نشانات بھی کھائے گئے ..... 
اس علاقے کے متعلقہ افسران نے اس آدم خور کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر اس کے لیے گارا باندھا گیا ..... گیم وارڈن مچان پر بیٹھا ..... اور شیر آیا تو اس کو گولی کا نشانہ بنایا ..... اور جیپ کے یونٹ پر لاد کر آبادی میں لایا جہاں ہندو عورتوں اور مردوں کو شیر کو چومتے . . شیر کو ہاتھ لگا کر پیشانی کو چھوتے اور اس کے لاش کے سامنے عقید تمندانہ ختم ہوتے بھی دکھایا گیا ..... ! 
یہ ساری حرکات میری پہلے بھی دیکھی ہوئی ہیں .....!
جو میرے شیر کے شکار کا زمانہ تھا یعنی 1944ء سے 1964ء ..... ان دنوں ویڈیوکمرے کا رواج نہیں ہوا تھا ..... مووی کیمرہ ہوتا تھا ..... میرے پاس مووی کمرہ تھا ضرور ..... لیکن آخرزمانے میں کیونکہ میں نے پہلا مووی کمرہ 1963ء میں خریدا ..... اس کیمرے کی دشواری یہ تھی کہ بیٹری سے چلتا تھا ..... شور بہت کرتا تھا ..... اس میں فلم آٹھ ملی میٹر کی لگتی جو صرف تین منٹ کی ہوتی تھی ..... اس فلم کو کوڈیک کمپنی کوڈاک سے بھیجنا ہوتا ..... جو اس کو ڈیویلپ DEVELOP کر کے ڈاک سے ہی واپس کرتے تھے ..... تین منٹ کی فلم میں کیا آتا ..... اور شکار میں اس شور کرتے ہوئے کیمرہ کو لے جانے کا کیا فائدہ تھا ..... 
اب میرے پاس بحمدللہ نہایت قیمتی ویڈیو کیمرہ ہے ..... اس میں ایک گھنٹے سے چھ گھنٹے تک کی فلم چلتی ہے ..... بجلی اور بیٹری دونوں سے چل سکتا ہے ..... میرے پاس اس میں استعمال کے لیے تین بیٹریاں ہیں ..... ایک جو کیمرے کے ساتھ ملی وہ آدھے گھنٹے کی ہے ..... دو میں نے خریدیں دونوں دو دو گھنٹے کی ہیں ..... اس طرح میں ساڑھے چار گھنٹے ان بیٹریوں کی مدد سے فلم بنا سکتا ہوں ..... 
اور پھر اس کیمرے میں خصوصیت یہ ہے کہ BUILTIN وی سی آر بھی ہے ..... فلم بنا کر اس کو اسی کیمرے کی اسکرین پر دیکھا جا سکتاہے ..... اب میں شکار پر رائفل کے ساتھ اس کیمرے کابوجھ بھی اٹھائے پھرتا ہوں اور نہایت عمدہ اور دلچسپ فلمیں بنا کر لاتا ہوں.....
کاش کہ اس وقت یہ ویڈیو کیمرہ میرے پاس ہوتا جب میں بنگلہ دیش ‘ نیپال ‘ برما‘ ہندوستان ‘ پاکستان ‘ یوگنڈا اور کانگو میں شکار کرتا پھر رہا تھا ..... اب تو ان شکاروں کی تصویریں بھی باقی نہیں رہیں ..... گزشتہ سال میرے سامان میں آگ لگ جانے کا حادثہ پیش آیا..... اس آتشزدگی میں جو چند جوڑے کپڑوں ..... میری رائفلوں اور کیمروں کے علاوہ سب کچھ جل کر خاک ہوگیا..... بیس پچیس البم ایسے جلے کہ ان کانشان بھی نہیں رہا ..... 
اس واقعے سے متاثر ہو کر میں نے مندرجہ ذیل غزل تخلیق کی : ۔
یہ نہیں ہے غم کہ سارا گھر جلا 
ساتھ منظر کے ہی پس منظر جلا 
آگ جو باہر لگی تھی بجھ گئی 
غم تو اس کا ہے کہ جو اندر جلا 
شمع تو جلتی رہی ہے رات بھر 
جبکہ پروانہ فقط دم بھر جلا 
ہوگئے خاموش سارے ہی چراغ
اک چراغ دل تھا بجھ بجھ کر جلا 
بے سروساماں ہوا کوئی تو کیا 
راہ جو روکے تھا وہ پتھر جلا(جاری ہے )

شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

کتابیں -شکاری -