سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، انتالیسویں قسط
وسیم اکرم کے علاوہ جن دیگر کھلاڑیوں پر سزاؤں اور جرمانوں کا اطلاق کیا گیا۔اس کے مطابق سلیم ملک پر10لاکھ،مشتاق احمد پر 3لاکھ،عطاء الرحمن،وقار یونس، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور پر ایک ایک لاکھ روپ جرمانوں کی سفارش کی گئی۔ بعدازاں اس فیصلے کے خلاف وسیم اکرم نے بورڈ میں اپیل کی کہ وہ بے قصور ہے اس پر جرمانہ کیوں کیا گیا ہے۔
جسٹس قیوم کے فیصلے پر بعض ناقدین نے حیرت و تنقید بھی کی، تاہم یہ سوال معمہ بن گیا اور اس سے بعض شبہادت کو تقویت بھی ملی کہ وسیم اکرم ایک بار اثر شخص ہے۔اگر سٹے بازی اور میچ فکسنگ کا معاملہ عالمی حیثیت نہ اختیار کرجاتا تو وسیم اکرم اس دباؤ سے چکنی مچھلی کی طرح نکل جاتا۔ وسیم اکرم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خلاف ثبوت نہیں چھوڑتا۔ وسیم اکرم کے خلاف اس کے مخالفین کا یہ رویہ سوائے حسد و بغض کے کچھ نہیں ہے۔وسیم اکرم جواری اور اس قدر توانا اور پر اسرار شخص ہوتا تو برڈ کبھی بھی اسے مختلف اوقات میں خوار کرنے کی کوشش نہ کرتا۔
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اٹھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وسیم اکرم کے قریبی حلقے کہتے ہیں کہ اسے معتوب وسزا وار کہلوانے میں سلیم ملک اور اس کی دوستی کا بڑا ہاتھ ہے۔وسیم اکرم اور سلیم ملک کے درمیان دانٹ کاٹی دوستی تھی۔ سلیم ملک پر جب بھی سٹہ بازی کے الزامات لگے وسیم اکرم نے اس کا دفاع کیا بلکہ کئی بار اس سے جھگڑبھی پڑا لہٰذا ایک برے آدمی کی قربت کا یہ فیض تو ملنا تھا۔
جسٹس قیوم کے فیصلے میں بعض ایسے نکات بھی سامنے آئے جن پر ناقدین نے کہا کہ فیصلہ میں کچھ باتیں بہت حیران کن ہیں۔جن کا مقصد دراصل وسیم اکرم کو بچانا ہے۔راشد لطیف جس نے سٹے باز کرکٹرز کے معاملے کو ا بھارنے اور منظر عام پر لانے میں مرکزی کردارادا کیا تھا اس نے فیصلے پر خوشی ظاہر کی اور کہا۔
’’مجھے خوشی ہے کہ آخر کارانصاف مل گیا،گزشتہ چند برسوں میں میرا کرکٹ کیرئیر تباہ ہوا لیکن اب مجھے اس کا صلہ مل گیا ہے کیونکہ رپورٹ کو خواہ کسی نظر یا زاویہ سے دیکھا جائے اس کا مجموعی تجزیہ یہی کہتا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ میں میچ فکسنگ ہو رہی ہے اور میرا موقف اس حوالے سے درست تھا۔ پی سی بی کے سربراہ اور جسٹس ملک محمد قیوم اس فریضے کی انجام دہی پر بلاشک وشبہ تعریف کے مستحق ہیں‘‘۔راشد لطیف نے عطاء الرحمن پر تاحیات پابندی کے فیصلے کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ وجوہات سمجھ میں نہیں آتیں کہ اس کے خلاف یہ فیصلہ کیوں صادر کیا گیا ہے۔اگریہ فیصلہ اس کے حلفیہ بیان میں اس اقرار کے بعد کیا گیا ہے کہ اس نے وسیم اکرم سے رقم لی تھی تو پھر جس شخص نے اسے یہ رقم دی تھی اسے تاحیات پابندی سے کیوں مستثنیٰ رکھا گیا؟
عدالتی فیصلہ آنے سے قبل کمیشن کے سربراہ نے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سلیم ملک اور مشتاق احمد پر تاحیات پابندی یک تجویز ہے ۔مذکورہ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ملک محمد قیوم نے سلیم کا نام براہ راست لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ایسا کھلاڑی ہے جس کے خلاف انہوں نے تاحیات پابندی کا فیصلہ دیا ہے۔جسٹس قیوم نے وسیم اکرم کے بارے میں کہا کہ وہ بھی سزا سے مستثنیٰ نہیں ہے۔تاہم اس وقت کسی بھی جگہ عطاء الرحمن پر پابندی کا تذکرہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی اور طرف سے اس بارے میں سن گن ملی تھی کہ عطاء کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کیا جارہا ہے۔
جنرل توقیر ضیاء کے بیانات کے بارے میں جسٹس قیوم نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھ رہے ہیں۔وہ ایک مخصوص زاوئیے سے اس رپورٹ کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ اسے دیکھنے کا ایک مختلف زاویہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم میں اس بات سے نا واقف ہوں کہ وہ اس کا جائزہ کس زاویے سے لے رہے ہیں۔ایک بات کہنے میں وہ بالکل درست ہیں کہ پوری ٹیم نے اجتماعی طور پر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت میچ فکسنگ نہیں کی ہے۔جسٹس قیوم نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پی سی بی کے سربراہ نے ان سے ملاقات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مکمل رپورٹ منظر عام پر لے آئیں گے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ آخر وہ کیوں رپورٹ کے مندرجات پر اس کی اشاعت سے قبل ہی تبصرہ کررہے ہیں۔میں اسی بات پر حیران ہوں کہ انہیں رپورٹ کی اشاعت کے بعد ان چیزوں پر بات کرنا چاہیے تھی۔
برطانوی اخبار نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگررپورٹ میں تبدیلی کی گئی اور جسٹس قیوم نے اپنے فرائض کی انجامی دہی میں کسی قسم کی مداخلت یا تبدیلی محسوس کی تو آئی سی سی کے پاس اس کے سوا کوئی متبادل راستہ نہ ہو گا کہ وہ پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کر دے کیونکہ کھیل کی گورننگ باڈی یہ اعلان کر چکی ہے کہ عدم تعاون کی صورت میں کسی بھی ملک کو پابندی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان دنوں پی سی بی کے سربراہ کا موقف یہ کہ آئی سی سی کے قوانین کا اطلاق ان باتوں پر قطعی نہیں ہو گا جو کہ ماضی میں ہو چکی ہیں۔پاکستان میں ہونے والی انکوائری ایک پرانا قصہ ہے اور آئی سی سی کے فیصلے کا اطلاق اس دن سے ہو گا جب یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ یوں بھی پاکستان میں ہونے والی تحقیق آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی اور یہ پی سی بی پر منحصر ہے کہ وہ جج کی رپورٹ پر کیا کارروائی کرتا ہے اور کسی طرح سفارشات پر عمل درآمد ہوتا ہے۔
جاری ہے۔ چالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔