سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چالیسویں قسط
جسٹس ملک محمد قیوم کا کہنا تھا کہ یہ کرکٹ بورڈ پر منحصر ہے کہ وہ میری تجویز کردہ سفارشات پر کسی طرح عمل کرتا ہے۔میرا کام گہرائی کے ساتھ تحقیق کرکے اپنا فیصلہ دینا تھا مگر باقی کام بورڈ کا ہے جو کہ ایک خود مختار ادارہ ہے اور حق انتخاب رکھتا ہے ۔اگربورڈ میری تجاویز پر کلی طور پر اقدامات نہیں کرتا تو پھر اپنی باریکی کے ساتھ طویل تحقیق کی کیا ضرورت تھی۔جسٹس صاحب نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بورڈ رپورٹ کی اشاعت پر تیار ہو گیا ہے ورنہ عموماً عدالتی کمپشنوں کی رپورٹس جاری نہیں کی جاتیں۔
جسٹس قیوم نے ٹیلی گراف کو انٹرویو دینے کی بھی تردید کی جس میں انہوں نے سلیم ملک اور مشتاق احمد پر تاحیات پابنید کی سفارش کا انکشاف کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی تحقیقات کے مندرجات کسی کو جاری نہیں کئے۔میں صرف اس وقت بات کروں گا جب پی سی بی رپورٹ جاری کر دے گی۔نیز انہوں نے رپورٹ میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوشش کو بھی عدالتی کمیشن کی ذمہ داریوں میں مداخلت سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ رپورٹ میں ٹیمپرنگ کی کوشش قطعی نہ کی جائے کیونکہ اصل رپورٹ ان کے پاس موجود ہے جو کہ بعض حالات میں جاری بھی کی جا سکتی ہے۔
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ادھر جسٹس قیوم رپورٹ کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری تھا تو دوسری جانب ایک برطانوی اخبار نے سلیم ملک کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کر دی جو ایسے حالات میں جلتی پر تیل کے مترادف تھی جب سلیم ملک کے بارے میں پہلے ہی پابندی کی خبریں آرہی تھی۔
نیوز آف دی ورلڈ ریکارڈ نامی برطانوی افسانہ طرز اخبار نے دعویٰ کیا کہ اس کے رپورٹرز جنہوں نے اپنی شناخت خفیہ رکھی انگلینڈ میں سلیم ملک سے ملے اور انہوں نے خفیہ طور پر اس سے ہونے والی گفتگو نہ صرف ریکارڈ کی بلکہ پوشیدہ رکھے جانے والے کیمروں کے ذریعے اس ملاقات کی فلم بھی تیار کی جس کے دوران سلیم ملک نے یہ اعتراف کیا کہ99ء کے عالمی کپ میں پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش میچ فکسڈ تھا اور آئی سی سی کا ایک عہدیدار بھی اس میں ملوث ہے جوکہ اندرونی طور پر میچ فکسنگ کا انتظام کرنے کے عوض50ہزار پونڈ فی میچ معاوضہ لیتا ہے۔
سلیم ملک نے سری لنکا کے خلاف پاکستان میں ہوم سیریز کے تمام میچوں کو فکسڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اس سیریز میں دس ملین پاؤنڈز کی شرط جیتی تھی۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین میچوں کو بھی سلیم ملک نے ڈبل فکسڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ٹیمیں پریشان تھیں کہ کیا کریں،ہم چاہ رہے تھے کہ وہ ہمارے خلاف زیادہ سے زیادہ رنز کریں جبکہ ہم آؤٹ ہونا چارہے تھے تووہ ایسا نہیں کررہے تھے۔سلیم ملک نے یہ انکشاف بھی کیا کہ میچ فکسنگ میں امپائرز بھی شریک ہوتے ہیں جبکہ بعض دوسرے لوگوں کو بھی ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ بعض ایسے بالرز اور بیٹسمینوں کے نام بھی بتا سکتا ہے جو کہ اس کی ہدایت پر کام کرتے ہیں اور یہ بھی کہ انہوں نے اب تک کیا کیا ہے۔
اخبار کے مطابق سلیم ملک نے انکشاف کیا کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ کسی بھی میچ فکس کر سکتا ہے کیونکہ میچ سے پہلے ایک جگہ جمع ہو کر تمام امور طے کرلئے جاتے ہیں۔یہ منشیات کے کاروبار سے بہتر ہے جس میں صرف ایک بک میکر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام بھارت میں ہوتا ہے۔میں ایک بھارتی بک میکر سے آپ کی ملاقات کرادوں گا وہ آکر آپ سے مل لے گا۔
نیوز آف دی ورلڈ میں شائع ہونے والی اس کہانی کے بعد سلیم ملک نے لاہور میں پریس کانفرنس کی کوشش کی تو اسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے روک دیا گیا تاہم صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جذباتی اندازسے سلیم ملک نے کلمہ پڑھتے ہوئے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ مجھے معلوم ہے پریس کانفرنس کس نے اور کیوں رکوائی ہے۔بعدازاں معلوم ہوا کہ لندن میں مقیم آئی سی سی میں پاکستان کے نمائندے احسان مانی نے برطانوی اخبار میں شائع شدہ کہانی کے بارے میں معلومات کیں اور اس حوالے سے آئی سی سی کے اہم عہدیداروں سے بات چیت کے بعد سلیم ملک کی پریس کانفرنس رکوائی دی گئی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ سلیم ملک بالآخر حقائق کو سامنے لانے پر آمادہ ہو گئے تھے اور میچ فکسنگ کے اصلی کرداروں کو سامنے لانے پر تل گئے تھے۔ ان کے عزائم کی بھنک پڑتے ہی قومی ٹیم میں شامل اہم کھلاڑیوں کی سفید پوشی کا لبادہ اتر جاتا۔
جاری ہے۔ اکتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔