کوپ 29، ہم نے  مانا  کہ  تغافل  نہ کرو  گے  لیکن. . .

کوپ 29، ہم نے  مانا  کہ  تغافل  نہ کرو  گے  لیکن. . .
کوپ 29، ہم نے  مانا  کہ  تغافل  نہ کرو  گے  لیکن. . .

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


"تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 
شاعر انقلاب حبیب جالب کے ان جذبات کی حقیقی ترجمانی ماحولیاتی اعتبار سے بدتدین مخدوش صورتحال سے دوچار ممالک نے باکو میں کوپ 29 اجلاس کے دوران ڈیڈ لاک پر بطور احتجاج مشاورتی عمل سے علحیدگی اختیار کر کے کی ہے۔ مسلسل بڑھتی سطح سمندر سے شدید متاثر جزائر پر مشتمل ممالک، افریقہ کی غریب ریاستوں کے سفارتکار اور مندوبین نے حتمی اعلامیئے سے پہلے فنانس ڈیل پر اپنے گہرے دُکھ، کرب اور غصے کا کھل کر اظہار کیا۔
11 نومبر سے شروع ہونے والی کوپ 29 دراصل 22 نومبر کو اختتام پذیر ہونا تھی، لیکن جب تقریباً 200 ممالک کے نمائندے اور مندوبین کسی حتمی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے تو ایک اور کوشش کے لئے اس میں توسیع کر دی گئی۔ تمام ممالک اگلی دہائی کے لئے ماحولیاتی مالی معاونت کے منصوبے پر اتفاق رائے سے معاہدے کے خواہشمند تھے۔ طویل مشاورت اور بحث و مباحثے کے بعد ابتدائی طور پر 250 ارب ڈالر فنڈ جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، لیکن مجوزہ معاہدہ منظر عام پر آنے پر غریب ملک تلملا اُٹھے۔ معاملہ اس قدر سنگین ہو گیا کہ احتجاجاً بعض ممالک مشاورتی عمل سے ہی الگ ہو گئے۔ الائنس آف اسمال آئی لینڈ نیشنز کے رہنما امیر ممالک کی جانب سے اُن کے مطالبات پر کان نہ دھرنے پر شدید صدمے میں تھے اور اس رویئے کو توہین آمیز تک قرار دیا۔ غریب ممالک نے اپنا نقطہ نظر ڈنکے کی چوٹ پر کھل کر پیش کیا کہ اگر کوپ 29 میں اُن کی امنگوں اور امیدوں کے مطابق معاہدہ طے نہ پایا تو نہ صرف عالمی نظام انصاف اور احتساب سے اُن کا اعتماد اُٹھ جائے گا بلکہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے کے بلند اہداف کا حصول بھی ممکن نہیں رہے گا۔ ناکامی کی طرف بڑھتی کوپ 29 کی ساکھ بچانے کے لئے چمچماتی دنیا کے نمائندے پھر میدان میں اترے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے دوبارہ غریب ممالک کے ساتھ مل بیٹھے۔ 

24 نومبر کی رات ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ کوپ 29 ناکام کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ عالمی میڈیا کے نمائندے کانفرنس ناکام ہونے کی بریکنگ نیوز دینے کو تیار ہی تھے کہ آخری لمحات میں امیر ممالک نے معاہدے پر متفق ہونے کا اعلان کر دیا۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، یورپی یونین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو 300 ارب ڈالر فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ فنڈ گرانٹ و  پراجیکٹس کے لئے دیئے جائیں گے اور نجی سطح پر سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔ طویل مشاورت کے بعد جو اعلامیہ سامنے آیا، اُس کے مطابق 2035 تک سالانہ 1.3 کھرب ڈالر کی ماحولیاتی مالی معاونت جمع کرنے کا وسیع ہدف بھی شامل کیا گیا۔ ساتھ ہی امیر ممالک نے دو ٹوک الفاط میں پیغام دیا کہ حکومتوں کو مزید براہ راست  فنڈنگ کی توقع سیاسی طور پر غیر حقیقی ہوگی۔ یہ معاہدہ دراصل ترقی یافتہ ممالک کے اُس سابقہ وعدے کی جگہ لے گا جس کے تحت غریب ممالک کو سالانہ 100 ارب ڈالر کی ماحولیاتی مالی معاونت فراہم کی جانی تھی، یہ ہدف 2 سال کی تاخیر کے بعد 2022 میں پورا ہوا اور 2025 میں ختم ہوجائے گا۔

حتمی معاہدے میں تاخیر کی ایک وجہ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا تھا کہ زیادہ فنڈنگ کے لئے کن ممالک سے تعاون کا کہا جائے گا اور قرض کے بجائے کتنی رقم گرانٹ کی صورت میں دی جائے گی ؟ یورپی حکومتوں نے دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین اور تیل میں خود کفیل خلیجی ریاستوں سمیت دیگر ممالک سے بھی غریب ممالک کےلئے تعاون کا مطالبہ کیا۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یعنی  یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینچ (UNFCCC) کے سربراہ سائمن اسٹیل معاہدے پر بہت خوش ہیں، لیکن سماجی تنظیمیں معاہدے کو دھوکا قرار دے رہی  ہیں۔  امیر ممالک کے نمائندے بھی اس پیش رفت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، لیکن فنڈنگ کے لئے معاملے کا آخری لمحات تک لٹکنا اور ٹینشن زدہ ماحول میں مذاکرات سے اختلافات بھی واضح ہو گئے ہیں۔ 
پھر امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح بھی باکو کانفرنس پر کافی حد تک اثر انداز ہوئی۔ ٹرمپ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی کو ڈھونگ قرار دیئے جانے کے بعد امیر ممالک کوئی معاہدہ یا وعدہ کرنے میں کافی تذبذب کا شکار نظر آئے۔ مغربی ممالک پر کافی گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ انہیں گرین ایجنڈے کے خلاف اپنے اپنے ممالک میں دائیں بازو کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مندوبین اور ایکٹوسٹس کو خدشہ ہے کہ امریکا ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت کے دوران موسمیاتی معاونت کے ہدف میں اپنا حصہ نہیں ڈالے گا۔
عالمی سطح پر ماہرین اور کلائمٹ ایکٹوسٹس کانفرنس کے نتیجے پر کافی تنقید کر رہے ہیں۔ اُن کے مطابق ترقی پذیر ممالک نئے اہداف کے حوالے سے بدستور پریشان ہیں اور بڑھتے موسمیاتی تناؤ کے درمیان ضروریات پوری کرنے کے لیے اس امداد کو ضرورت سے بہت کم قرار دیا ہے۔ اُن کا موقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں درکار فنڈز تک رسائی اور معاہدے پر عمل کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا، عزائم و وعدے، عمل اور ڈیلیوری سے ہم آہنگ نہ ہوئے تو مشترکہ مقاصد کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔
پوری دنیا کی نظریں اب برازیل کے شہر بیلم میں ہونے والی کوپ 30 پر لگ گئی ہیں جس میں کوپ 29 میں کئے گئے وعدوں پر عمل کا احتساب کیا جائے گا۔ کوپ 29 کی کامیابی اور غریب ملکوں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے اب فوری اور پائیدار عمل، شفافیت اور کارکردگی دکھانا ناگزیر ہے۔  برازیل کی وزیر ماحولیات اور کلائمٹ چینج  مرینا سلوا پر امید ہیں کہ 2035 تک موجودہ طے شدہ رقم کو 390 ارب ڈالر تک بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ انہیں اس امر کا بھی ادارک ہے کہ باکو میں درپیش چیلنجز  کا تدراک کیے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ 
عالمی میڈیا نے بھی معاہدے پر زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بی بی سی نے سرخی جمائی ہے کہ رقم ناکافی ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ دو ہفتوں کی طویل بحث کے بعد وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جن کے غریب ممالک منتظر تھے۔ امیر ممالک نے ماحولیاتی تبدیلی کے باعث  کمزور ہونے والے معاشروں اور افراد کو موسمیاتی بحران سے بچانے اور کرہ ارض کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سنہری موقع گنوا دیا۔ 
باکو میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی سابق وزیر ماحولیات شیری رحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ امیر ممالک توانائی کے روایتی ذرائع سے جدید طریقہ کار پر منتقل ہونے کے لئے انفرااسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور جدت کے لئے فنانسگ میں تیزی لانا ہو گی۔ وہ کہتی ہیں"پاکستان اور الائنس آف اسمال آئی لینڈ نیشنز رینیو ایبل انرجی (سولر) کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن غریب ممالک کو اس مقصد کے لئے عالمی سطح پر 4 ٹریلین ڈالر درکار ہیں"
امیر دنیا نے ایک بار پھر ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اوراپنی ذمہ داریاں سے راہ فرار اختیار کی۔ غریب معاشروں اور افراد کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا اور انہیں اپنی صفوں سے خارج کر کے موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ 
ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو عزم نو کے ساتھ  متحد ہو کر پھر اُن امیر ممالک کے احتساب کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جن کی وجہ سے دنیا کلائمٹ چینج کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر اس حال تک پہنچی ہے۔ انہیں  ہار نہ مانتے ہوئے چمکتی دمکتی دنیا سے واجب الادا رقم حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا ہو گا۔
امیر ممالک نے فنڈز کی فوری فراہمی کے بجائے دوبارہ ماضی کی ماحولیاتی کانفرنسز جیسا روایتی طریقہ واردات دہراتے ہوئے پھر مستقبل کے سنہانے خواب دکھائے اور خوشنما وعدے کے، یہ حسین خواب، کھوکھلے نعرے اور وعدے کلائمٹ چینج سے متاثرہ ملکوں کے ساتھ کھلا دھوکا ہیں۔  
"یہ کیسا کلائمٹ جسٹس ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں کروڑوں زندگیاں داو پر لگی ہیں اور امیر ممالک ایک خیالاتی حسین دنیا کے خواب دکھا رہے ہیں۔ سائنسی ڈیٹا کی دستیابی، سائسندانوں کی بار بار وارننگ، دنیا کے مختلف حصوں میں کلائمٹ ایکٹوسٹس کے احتجاج، گلوبل وارمنگ کے باعث جلتے ہوئے کرہ ارض کے کونے کونے کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کے باوجود امریکا اور مغرب نے جو رقم دینے کی زبان دی ہے، وہ پیسہ دینے کے لئے بھی یہ سفاک لیڈرز وہ وقت مقرر کر رہے ہیں جب ہمارا دم نکل جائے گا"

ہم نے  مانا  کہ  تغافل  نہ کرو  گے  لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

.

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -