عوام کا ”خاموش غصہ “ ۔۔۔مہنگائی کی دہائی اور2تجاویز
تحریر : طیبہ بخاری
غریب ،مفلوک الحال ، فاقوں ، خود کشیوں پر مجبور عوام کی حالت زار بیان کی جائے تو
ہمارا خون ارزاں ہی بہت ہے
سہولت سے بہایا جا رہا ہے
میں آیا تھا زمانہ دیکھنے کو
مجھے کیا کچھ دکھایا جا رہا ہے
اور لڑو ۔۔۔لڑتے رہو ۔۔۔لڑتے لڑتے ایک دوسرے کو ختم کر ڈالو
کیونکہ ابھی تو صرف تمہاری لڑائی میں ”دوسرے“ مر رہے ہیں ۔۔۔مظلوم مر رہے ہیں ۔۔۔عوام مر رہے ہیں ۔۔۔بے گناہ مر رہے ہیں ۔۔۔محب وطن مر رہے ہیں ۔۔۔بچے ، بوڑھے ، جوان ، خواتین ۔۔۔سب مر رہے ہیں
اور کتنی موت چاہیے ۔۔۔اور کتنا بحران چاہیے ۔۔۔اور کتنا ظلم کرو گے
جن کے مر رہے ہیں اور جو مر رہے ہیں ۔۔۔انہی سے مطالبہ کرتے ہو ، توقع رکھتے ہو کہ۔۔۔ وہی اٹھیں۔۔۔وہ بھی لڑیں ۔۔۔اور مریں ۔۔۔اور روئیں ۔۔۔اور بحران پیدا ہوں ۔۔۔اور تباہی آئے
عوام۔۔۔مظلوم اور بے بس ہیں ۔۔۔بے حس نہیں ۔۔۔خاموش نہیں ۔۔۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ” جو تمہاری خاموشی سے تمہاری تکلیف کا اندازہ نہ کر سکے اس کے سامنے اظہار کرنا صرف لفظوں کو ضائع کرنا ہے ۔“
عوام بولیں گے ۔۔۔کیونکہ وہ تکلیف میں ہیں ۔۔۔تکلیف حد سے زیادہ بڑھ چکی ۔۔۔اظہار بھی ہو گا ۔۔۔ضرور ہو گا ۔۔۔بس اندازے غلط لگائے جا رہے ہیں ، اپنے نقطۂ نظر کے مطابق لگائے جا رہے ہیں ۔
لفظوں سے اظہار بھی ہو رہا ہے ۔۔۔مزید ہو گا ۔۔۔کیونکہ لگانے والے پابندیاں بھی اپنے اندازوں کے مطابق لگا رہے ہیں ۔
احتجاج کبھی ضائع نہیں جا تے ۔۔۔ریکارڈ پر آ رہے ہیں ۔۔۔تاریخ میں درج ہو رہے ہیں ۔۔۔”شور“ اور ”شعور“ میں فرق واضح کرتے جا رہے ہیں ۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے ۔۔۔
خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ الیکشن سے بھاگنے کیلئے کوئی نہ کوئی حادثہ یا جرم کروایا جائے گا،
ایمرجنسی لگانے کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔۔۔کون چاہتا ہے کہ 1998 والی صورتحال دوبارہ ہو،کیوں کہا جا رہا ہے کہ ملک خانہ جنگی اور سول نافرمانی کی طرف جا سکتا ہے۔
یہ سب نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ایسی گفتگو بھی نہیں ہونی چاہیے
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو پھر ڈرون بیس بنایا جائے گا، آج مصر، سری لنکا اور پاکستان ایک پیرائے پر آ گئے ہیں
بالآخر کون گھٹنے ٹیکے گا ۔۔۔ کس کوسیاسی مار پڑنی ہے ۔۔۔کس کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملنی
کوئی بھی کسی بھول میں نہ رہے، اس بار ڈبوں سے ووٹ نہیں کچھ اور نکلے گا ۔۔۔
عوام کا ”خاموش غصہ “ دکھائی بھی دے گا اور سنائی بھی دے گا ۔۔۔ہو سکے تو ابھی سے دیکھنا شروع کر دو ۔۔۔سمجھنا شروع کر دو
کراچی تا خیبر ایک ہی دہائی، مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی، ریکارڈ توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے ،آئے روز اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔مہنگائی نے خرچے تنخواہوں سے’ ’ڈبل“ کر دئیے ہیں،عوام کےلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے۔لوگ دکانوں ، ٹھیلوں سے ریٹ پوچھ کر واپس لوٹ جاتے ہیں،فہرست بنا کر بازار جانے والے لوگ آدھا پونا سامان خریدنے پر مجبور ہیں۔۔۔ پیاز اور مرغی کے دام نیچے آنے کو تیار نہیں ۔مارکیٹ سے کبھی آٹا غائب ہو جاتاہے تو کبھی چینی،تیل، گھی اور گوشت ۔۔۔ہر شے کا ریٹ گھنٹوں کے حساب سے بدل رہا ہے۔جو چیز مل رہی ہے اس کی من مانی قیمتیں لی جا رہی ہیں۔۔۔مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافے نے متوسط اور غریب طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، سفید پوش طبقہ بھی قرض مانگ کر مہینہ گزار رہا ہے۔
عوام کی قوت خرید ختم ہوچکی۔۔۔ دکاندار، مزدور اور رکشہ، ٹیکسی ڈرائیور سب پریشان ہیں۔۔۔بھوکے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پروائرل ہو رہی ہیں ۔۔۔ کوئی مانے نہ مانے ایک ”تبدیلی “ تو آئی ہے پہلے لوگ برا بھلا کہہ کر چپ ہو جاتے تھے اب بددعاؤں کیساتھ ساتھ وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جنہیں میڈیا پردکھایا ، پڑھایا اور سنایا نہیں جاتا ۔۔۔ احتجاج کا یہ انداز آپ سمجھ تو گئے ہونگے۔۔۔
احتجاج ہو رہا ہے ۔۔۔اگر کوئی دیکھے تو۔۔ نوابشاہ میں دلہا اور دلہن رخصتی کے بعد گھر جانے کے بجائے باراتیوں سمیت مہنگائی کیخلاف احتجاج کرنے پہنچ گئے۔نواب شاہ کے رہائشی دولہا دلہن نے باراتیوں کے ہمراہ سڑک پر آٹا، پیٹرول اور چینی مہنگی کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پردیکھی جا سکتی ہے۔۔۔اس سے زیادہ حالات کی سنگینی اور عوام کی لاچاری کیا ہو گی کہ وہ اپنی خوشیوں میں بھی احتجاج کو شامل کر رہے ہیں ۔
کراچی کے ڈاکو توغریب محنت کشوں پر بھی رحم کرنے کےلئے تیار نہیں ۔۔۔ڈاکوﺅں کے حالات بھی اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ سہراب گوٹھ کی گبول شاہین کالونی میں مالش کا کام کرنے والے25سالہ نوجوان کو ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کر دیا ۔یہ نوجوان روزگار کےلئے بہاولپور سے آیا تھا ۔۔۔یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ 2023ءکو شروع ہوئے ابھی صرف 2ماہ ہوئے ہیں اور صرف کراچی میں سٹریٹ کرائمز میں مزاحمت پر 25 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ 25 سے زائد زخمی ہوئے۔خود اندازہ لگا لیں کہ یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس ریکارڈ پر آئے اور جوریکارڈ پر نہیں ان کی تعداد کتنی ہو گی اور ابھی یہ صرف ایک شہر کی بپتا ہے۔۔۔گلی محلوں میں ہونیوالے ان جرائم کے پیچھے غربت ، بھوک ، بد حالی ، ذہنی تناو¿، بے روزگاری نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔
کسانوں پر بھی مہنگائی کی ”بجلی “ گر چکی ہے ، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے بجلی کی قیمت میں کسان پیکج کے تحت دی جانیوالی سبسڈی ختم کردی گئی ہے جس سے کسانوں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3 روپے 60 پیسے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
ایک طرف مہنگائی اور دوسری جانب ٹیکس عوام کیلئے وبال جان بن چکے ہیں، صرف ایف بی آر نے فروری میں 527 ارب 20 کروڑ روپے کے ٹیکس اکٹھے کیے، فروری میں ٹیکس وصولیوں میں 17 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں 4 ہزار 493 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے۔ گزشتہ سال اسی عرصے میں 3 ہزار 820 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر گزشتہ سال کی نسبت ٹیکس وصولی میں 18 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
ملک میں مہنگائی کا 49سالہ ریکارڈ ٹوٹ ٹوٹ گیا ہے ، فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 31.55 فیصد تک پہنچ گئی۔جنوری کے مقابلے میں فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 4.32 فیصد اضافہ ہوا ۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق فروری کے دوران دیہات میں مہنگائی 4.01فیصد بڑھ کر 35.6 تک پہنچ گئی جبکہ شہری علاقوں میں 4.54 فیصد اضافے کے بعد 28.8 تک پہنچ گئی ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کی آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق آئندہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح 28 سے 30 فیصد ہوسکتی ہے، غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ روپے کی بے قدری اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھی، جولائی سے جنوری تک مہنگائی 25.4 فیصد رہی۔سود کی ادائیگیوں کے باعث اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں ٹیکس وصولیوں میں کمی کے خدشات ہیں، 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔جولائی سے جنوری تک ترسیلات زر میں 11 فیصد کمی ہوئی، برآمدات میں 7.4 اور درآمدات میں 20.9 فیصد کمی ہوئی، غیرملکی سرمایہ کاری میں 44.2 فیصد کمی ہوئی۔
بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ” اعداد و شمار دیوالیہ ہونے سے بھی آگے کھڑے ہیں۔ پچھلے 11 ماہ میں 62 فیصد روپے نے اپنی قدر کھوئی۔ بین الاقوامی اداروں نے ریٹنگ سی اے اے 3 کی ہے، بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات 2 ارب ڈالر سے نیچے چلی گئی ہیں۔ بجلی کے صارفین سے سالانہ 335 ارب روپے سر چارج لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، 3 روپے 82 پیسے فی یونٹ سر چارج وصول کیا جائے گا۔ مہنگائی کم ہونے میں بہت وقت لگے گا۔“
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ معیشت کی بحالی کا کام بہت مشکل سے ہو گا،معیشت کو بچانے کیلئے مزید قربانیاں دینی ہوں گی، ملک پر بہت مشکل وقت ہے۔18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات تو مل گئے لیکن فنڈز نچلی سطح پر نہیں پہنچتے ،صوبے ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہے ،سندھ حکومت زرعی ٹیکس جمع نہیں کرتی ۔بیرونی قرض چھوڑیں اب تو مقامی قرض کے چنگل میں بھی پھنسے ہوئے ہیں ، معیشت کی صورتحال ایک سال کی غلطی نہیں ،75 سال کا حاصل ہے ۔ان کاکیا ہو گا جو 75 سال سے غربت میں ہیں ،ہمارے پاس اتنا اناج نہیں جتنی ضرورت ہے۔
شاید ان تمام حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ہی پاکستانی اپنا دیس چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ان اعدادوشمارکا جواب کون دیگا کہ گذشتہ 8 برسوں میں25ہزار 240افراد نے پاکستانی شہریت ترک کی۔صرف 2022ءمیں 670کاروباری افراد اور 330ڈیلرز نے پاکستانی شہریت چھوڑی۔ پہلے نمبر پر جرمنی کی شہریت کےلئے سب سے زیادہ8600 پاکستانیوں نے پاکستانی شہریت چھوڑی۔ دوسرے نمبر پر 3ہزار 700پاکستانیوں نے بھارت کی شہریت کےلئے، تیسرے نمبر پر 2ہزار 268نے ناروے کی شہریت کےلئے، چوتھے نمبر پر 2ہزار 781نے سپین کی شہریت کےلئے اور پانچویں نمبر پر 1ہزار 716نے چین کی شہریت کےلئے پاکستانی شہریت چھوڑی۔ چھٹے اور ساتویں نمبر پر بالترتیب 1ہزار 290اور 158پاکستانیوں نے برطانیہ اور امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کےلئے پاکستان کی شہریت ترک کی۔
آخر میں 2تجاویز کا ذکر کرتے چلیں ۔ ایک تجویز ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کےلئے سخت نظام رائج کیا جائے۔ مارکیٹ پر مکمل چیک اینڈ بیلنس ہوناچاہیے، مہنگائی کی بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ ہے۔ماضی میں ہنگامی بنیادوں پر ڈپو سسٹم، کوٹہ سسٹم اور فیلڈ ورک رائج کئے گئے۔ لوکل کمیونٹی پر مشتمل پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے۔
دوسری تجویز ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لانے، کرپشن کیسز بحال کرکے احتساب کرنے کے بعد الیکشن کروانے کی ہے۔ملک بدترین معاشی و سیاسی بحران سے گزر رہا ہے ، احتساب کا عمل انجام تک پہنچے، ایک بار اچھی طرح سے گند صاف ہوجائے تو پھر ہوجائیں الیکشن۔
مہنگائی کی دلدل ،اعدادوشمار کا جال،سیاست کا برا حال اور 2تجاویز سب آپ کے سامنے ہیں ، فیصلہ خود کریں اور سوچ سمجھ کر کریں ۔
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں