”شیطان، انسان اور بھگوان“
”انسان“ ابھی اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھا کہ شیطان پر شدید غم وغصے کی کیفیت طاری ہوگئی اوراُس نے ”انسان“ کے ساتھ شیطانیاں شروع کردیں۔اُس کے کرتوت آج تک یہی ہیں۔”رحمان“ نے انسان کی تخلیق کا ارادہ کرتے ہی یہ فیصلہ کرلیاتھا کہ خالق کائنات کی رحمت اُس کے غضب پرحاوی رہے گی۔اس لئے شیطان کی شیطانیاں بس آنیاں جانیاں ہی ہوتی ہیں اورانجامِ کار عبادالرحمن اُس کی شیطانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔انسان اورشیطان کے درمیان آنکھ مچولی کایہ کھیل بہت دلچسپ اوربہت پُرانا ہے۔شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ انسان ”رحمان“ کے سوا باقی ہرچیزکو اپنا”بھگوان“ سمجھے۔ اُس کی تگ ودو کامحوریہی ہوتا ہے کہ انسان خود کو ”بھگوان“ سمجھے یا حیوان سمجھے، کچھ بھی سمجھے نہ مگرانسان سمجھے۔اس کاوش میں شیطان کی کامیابی کاتناسب ہمیشہ سے خاطر خواہ رہا ہے اورانسان اپنے ہی جیسے انسان کے لئے کبھی شہنشاہ تو کبھی جہاں پناہ رہا ہے۔چندممالک میں مادی چیزوں کو”بھگوان“کادرجہ دے دیاجاتا ہے مگربہت سے ذیِ روح انسان کادرجہ حاصل کرنے کے لئے عمر بھر تڑپتے رہتے ہیں۔ذات پات کا پُرانانظام بنانے والوں نے کبھی سوچابھی نہ ہوگاکہ یہ معاشرتی تقسیم کچھ کو ”بھگوان“ اور باقی کو ”حیوان“بنانے کاموجب بنے گی۔انسانی تاریخ میں اصل جنگ تو انسان کی انسانیت اوراُس کی اپنی ہی حیوانیت کے درمیان رہی ہے۔ایک تاریخ نگار نے بالکل بجاکہا ہے کہ کائنات کے خطرناک ترین معرکے انسان کے اپنے وجودکے اندرخیروشرمیں کسی ایک کے انتخاب کے دوران لڑے گئے ہیں۔انسان کی اصل لڑائی ازل سے اپنے ہی نفس امارہ سے ہے جس میں کبھی انسان بیچارا ثابت ہوتا ہے تو کبھی نفس امارہ۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ قرۂ ارض کی بعض جگہوں پر”بھگوانوں“ کی تعداد انسانوں کی تعدادسے بہت زیادہ ہے وہ اپنے ایک بے سُرے دوست کو کہتے ہیں کہ اس کے گلے میں ”بھگوان“ بولتا ہے بلکہ ”بھگوان“ ہنومان بولتا ہے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انسان نے بہت سے مظاہر فطرت کو تسخیر کرلیا ہے مگر اُس کی اپنی ذات، ابھی تک اُس کے لئے ایک معمہ ہے۔وہ ستاروں کی راہ گزر تک جاپہنچا ہے مگراپنے اندر کاراستہ بھولتا جارہا ہے۔سورج کی شعاعیں اُس کی دسترس میں ہیں مگر اپنے وجودکی اندرونی ظلمت اُس کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔بعض جگہوں پرانسان کے ہاتھوں اپنے ہی جیسے انسانوں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے انسانیت، حیوانیت کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچارہورہی ہے۔شیطان کی شیطانیاں کامیاب ہورہی ہیں۔انسانی نسل حضرت آدم کے دوبیٹوں قابیل اورہابیل سے چلی۔ ایک قاتل تھا تودوسرا مقتول۔ایک ظالم تھاتو دوسرا مظلوم۔ یہی نسل انسانی کی کہانی ہے۔ تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ انسان یاظالم ہوتے ہیں یامظلوم۔ تناسب بدلتا رہتا ہے۔ منٹو نے بہت خوبصورت بات کہی کہ ”انسان صرف دو طرح کے ہوتے ہیں طیب اورغیر طیب“۔ ہمار المیہ یہ ہے کہ شاید زمین پر طیب لوگوں کی بہتات کبھی نہ رہی ہومگر اتنی قلت بھی شاید کبھی نہ رہی۔جس خطہ زمین سے ہمارا تعلق ہے وہاں طیب لوگوں کی تعدادہمیشہ قابل ذکر رہی ہے۔علامہ اقبال نے ایشیاء اور یورپ کاتقابل کرتے ہوئے شایدازراہ تفنن کہا تھا کہ ”رحمان اورشیطان نے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں“ آج کل کے حالات دیکھ کرکبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ شاید اب یہ تقسیم الُٹ ہوچکی ہے۔مغرب میں آج انسان آسودہ حال ہے مگر ہمارے ہاں لوگوں کی ایک کثیر تعدادبدحال ہے اورزندگی اُس کے لئے وبال ہے۔
ایک شاعر نے بجا کہا ہے کہ ”جسم اورجان خالق کائنات کی عطا ہیں مگر اس جہان میں جینے کے لئے ہرانسان کواپنا ہنر بھی آزمانا پڑتا ہے“ علامہ اقبال بھی کسی زمانے میں کہہ گئے تھے کہ ”اللہ تعالیٰ بے شک قادر و عادل ہے مگر اس جہان میں مزدور کامقدر تلخی ہے“ مزدور کی حیات ہمیشہ ہی تلخ رہی ہے مگر کرۂ ارض کے بعض خطوں میں اب یہ تلخی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ انسان کی انسان سے بلاوجہ جنگ بہت سے علاقوں میں زندگی کی اُمنگ چھن چکی ہے۔ قتل وغارت کے مستقل عذاب نے انسان سے اُس کاشباب چھین لیاہے اوراس کی سوچوں کوبانجھ کرکے رکھ دیاہے۔ایک شاعرنے بالکل بجاکہاتھاکہ ”انسان بننا فرشتوں سے بہترہے مگر اس کے لئے محنت ذرا زیادہ درکارہوتی ہے“ رحمان نے انسان بڑے مان کے ساتھ بنایا ہے۔ کاش ہم لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ انسان،انسان رہے گا وہ نہ تو ”بھگوان“ بنے گااورنہ ”حیوان“ کیونکہ انسان ہونا اتنی خوبصورت پہچان ہے کہ اس دنیا کے باقی تمام سابقے،لاحقے کوئی اوقات ہی نہیں رکھتے۔ انسان ہونا تخلیق کی معراج ہے۔ یہی وہ رازہے جوشیطان ہم سے نہاں رکھنا چاہتا ہے مگر”رحمان“ہم پرعیاں کرناچاہتا ہے۔”رحمان“ نے انسان کی عزت کی خاطرشیطان کودھتکاردیا۔ ضرورت اس بات کی ہے انسان بھی اپنی عزت کی خاطرشیطان کی شیطانیوں سے محفوظ رہنا سیکھ کر اپنا اصل مقام پہچان کرتسخیرکائنات کے لئے اپنی توانائی وقف کرڈالے۔ یہی ایک کام اس کے شایان شان ہے۔