خوبصورت وادیوں کا مسکن۔ سرزمین چکوال
سرزمین چکوال صوبہ پنجاب کا تاریخی شہر اور ضلعی مقام ہے۔ یکم جولائی 1985ء کو اسے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1985ء سے پہلے اس علاقے کا کچھ حصہ ضلع جہلم اور کچھ رقبہ ضلع اٹک کاحصہ تھا۔ بعد ازاں تلہ گنگ کو تحصیل کا درجہ دے کر چکوال کے ساتھ ملا دیا گیا، اس کے شمال میں ضلع اٹک، جنوب میں ضلع خوشاب، مشرق میں جہلم اور راولپنڈی، جبکہ مغرب میں ضلع میانوالی واقع ہے۔ سطح کے اعتبار سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے (1) پہاڑی حصہ (2) نا ہموار حصہ اور (3) وادی سون کا حصہ۔ پہاڑی حصہ سلسلہ کوہستان نمک کی جنوبی وسطی اور شمالی شاخوں کے درمیان واقع ہے، یہ دلجبہ اور نیلی پہاڑ سے لے کر سکیسر کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے، اندرونی طور پر اس علاقے کو جھنگڑ کہون اور ونہار کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے یہ ضلع بڑا تاریخی اور خوشحال ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کوہستان نمک یا وادی سوان کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب کہلاتی ہے،اس کا زمانہ تقریبا چار لاکھ سال قبل مسیح بتایاجاتاہے۔ اس کے بعد پتھر کا زمانہ آتا ہے۔ ضلع چکوال کے مضافات میں موجودہ موضع ڈھلال میں ایک ایسی بستی کا سراغ بھی ملا ہے، جس کے باشندے ایسے پتھر کے اوزار استعمال کرتے تھے، جن کی عمر تقریبا سات ہزار سال قبل مسیح بنتی ہے۔ جدید تحقیق کی روشنی میں تو یہ حقیقت بھی منکشف ہو چکی ہے کہ نظر یہ علاقہ واریت کے مطابق اولین انسان کا ظہور بھی اسی علاقے میں ہوا تھا اور پھر اس کے بعد اس کی نسل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گئی۔ محکمہ آثار قدیمہ حکومت پنجاب کے سروے کے مطابق اس ضلع میں پچاس سے زیادہ ایسے مقامات موجود ہیں، جن کی آثاریاتی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے۔ ان میں متعدد آثار زمانہ قبل از تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقے میں ایک جگہ کوٹ میرا تھر چک کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں سے ایک ایسا سکہ ملا ہے،جو مہاراجہ کنشک کے بیٹے اور جانشین مہاراجہ ہوشکا (185/162) کا ہے۔ یہاں پر ایک عجیب و غریب قسم کی عمارت بھی موجود ہے، جس کا نام ہجرہ ہے۔ چکوال سے18 کلومیٹر دور بن امیر خاتون نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کے اردگرد سالٹ رینج کی خوبصورت سمندری چٹانوں اور پہاڑوں نے اس چھوٹے سے گاؤں کو سحر انگیز بنا دیا ہے۔ اب یہ گاؤں پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے، کیونکہ یہیں سے چند سال قبل برآمد ہونے والے فاسلز کی دو کروڑ بیس لاکھ سال پرانے ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس ضلع کی حدود میں شمر قد قلعہ بھی واقع ہے۔ در حقیقت چکوال آثار قدیمہ کی جنت ہے۔ ڈاکٹر وانی کے مطابق چکوال میں دریافت ہونے والے فاسلز کی اتنی بڑی تعداد آج تک دنیا میں کہیں بھی دریافت نہیں ہوسکی ہے۔تاریخی طور پر ضلع چکوال کا علاقہ کئی تہذیبوں کا وارث رہا ہے۔ جنگ مہا بھارت کے ہیرو پانڈووں نے اپنے بارہ سالہ بن باس کا کچھ حصہ دوبیتیہ ونا جھیل (موجودہ کٹاس) کے قرب و جوار میں گزارا۔ کٹاس میں ”ست گھرا‘ انہوں نے ہی تعمیر کیا تھا۔ مہا بھارت کا سن تصنیف ایک ہزار قبل مسیح سے600 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ پھر یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کے زیرنگیں آیا۔ اس ضلع میں موضع نیلہ کے قریب شیریں فرہاد کی قبریں اس دور کی یادگار ہیں۔ اس عہد میں یہاں سے فوجی بھرتی کر کے ایران اور یونان کی جنگوں میں لڑائے جاتے رہے۔326ق م میں جب سکندراعظم والئی ٹیکسلا سے صلح کے بعد پہاڑی راستوں کو تیزی سے عبور کرتا ہوا آگے کی طرف بڑھا تو وہ چواسیدن شاہ کے قرب و جوار سے گزرا۔ اُس کو یہاں کے سدا بہار گلاب کے پھول بہت پسند آئے۔ غزنوی، غوری، خلجی، تغلق، مغل سب حملہ آور اسی علاقے سے گزر کر آگے بڑھتے رہے۔ شیر شاہ سوری سے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دوروں سے جتنی قو میں اور حملہ آور ایران اور وسطی ایشیا سے آگے بڑھ کر وادی گنگا جمنا کی تسخیر کی نیت رکھتے،ان کا گزر مارگلہ سے براستہ ڈھوک پٹھان (ضلع چکوال کے ایک سرحدی گاؤں جو دریائے سواں کے کنارے آباد ہے) اسی ضلع کے سلسلہ کو ہستان نمک کے زیر سایہ ہی ہوتا۔ ان کا اولین ہدف بھیرہ کا خوشحال شہر اور نندنہ کا مضبوط قلعہ ہوتاتھا۔ ان قوموں اور حملہ آوروں میں دراوڑوں، آریوں، سکندر اعظم، باختری یونانی، سفید ہندی، مغلوں، غز نویوں، غوریوں اور امیر تیمور کا نام بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کا چینی سیاح ہیون سانگ ایک جگہ لکھتا ہے کہ ضلع چکوال کے علاقہ چواسیدن شاہ کے قریب سنگھا پورہ کا شہر واقع تھا۔ سنگھا پورہ کی بادشاہت وسیع و عریض علاقے تک قائم تھی۔ یہ ریاست ٹیکسلا کی ہم عصر تھی۔اس کا احاطہ تقریباً 350 مربع میل تھا۔ دریائے سواں ان دونوں ریاستوں کے درمیان حد فاصل کا کام کرتا تھا۔ یہاں ایک بدھ مت یونیورسٹی بھی تھی۔ بدھ مت کے آثار بھی ضلع چکوال کے بعض مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ اس دور کا ایک کنواں میراتھر چک میں تھا۔ ملوٹ کا قلعہ اور شوگنگا کے مندر بھی اس ضلع کی قدامت کا پتہ دیتے ہیں۔ ابوریحان البیرونی نے وادی چکوال کی جنوبی گھاٹیوں کے قلعوں ملوٹ، کنشک اور نندنہ میں انتہائی اطمینان اور سکون سے اپنی ذہانت اور فطانت سے زمین کا قطر معلوم کیا۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب ظہیر الدین بابر نے اپنے دوسرے سفر میں دلجہ کی پر فضا جگہ کو قیام گاہ کا شرف بخشا۔ لوگوں کی استدعا پر1527ء میں گھوڑی گالا کے مقام پر پہاڑ کو کاٹنے کا حکم دیا۔ سات ہزار مزدوروں نے وادی چکوال کے وسطی حصہ سے ڈھن کے پانی کو پہاڑ کاٹ کر نکال باہر کیا۔ بابر نے کلر کہار کے مقام پر تخت بابری بنوایا اور باغ لگوایا۔ بادشاہ اکبر کے زمانے میں ضلع چکوال سندھ ساگر کا حصہ تھا۔ اس عرصے میں یہاں گکھڑقابض تھے۔ اور نگ زیب کی وفات (1707ء) کے بعد اس کے بیٹوں کی خانہ جنگی میں کامیاب ہونے والے شہزادہ اعظم ملقب بہ بہادر شاہ (1707-1712ء) نے سیدو خان گکھڑ کو بطور سزا اس علاقے سے بے دخل کر کے اقوام مائر اور کسر کے سرداروں کو یہ علاقہ دے دیا۔ مائر منہاس راجپوت قوم ہے۔ یہ سب سے پہلے چکوال میں چک بازید کے مقام پر جھیل کے کنارے آباد ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ پھیلتے گئے۔ موجودہ چکوال انہوں نے ہی آباد کیا تھا۔ مغلوں کے زوال کے دور میں سکھوں نے اس علاقے میں کارروائیاں کیں۔ احمد شاہ درانی نویں حملہ کے بعد جب واپس افغانستان لوٹ گیا تو سردار چڑت سنگھ نے دھنی چکوال کہون اور جھنگڑ کے علاقے اپنی دسترس میں لے لیے۔ 1801ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ خود دھنی میں آیا اور علاقے کو بغیر کسی مزاحمت کے زیرنگین کر لیا۔ 1810ء میں سلطان فتح محمد جنجوعہ والئی کسک کوہستان نمک) کی شکست کے بعد یہ علاقہ مکمل طور پر سکھوں کی عملداری میں آگیا۔ سکھوں کی انگریزوں کے ساتھ دوسری لڑائی (1849ء) کے وقت یہ تمام علاقہ چھتر سنگھ کے ماتحت تھا۔ انگریزوں کے قبضے کے بعد جنرل نکلسن کے تحت اس علاقے میں پہلا سرسری بندو بست اراضی کیا گیا ہے انگریزوں نے چکوال کو ضلع جہلم کی ایک تحصیل بنا کر اسی میں شامل کردیا۔ 1985ء میں اسے الگ ضلع کی حیثیت دی گئی اور اس میں ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل پنڈ دادن خان کا تھانہ چواسیدن شاہ کے علاقے بھی شامل کئے گئے۔ بعد ازاں چواسیدن شاہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہوا۔