سی سیکشن اور اس سے جڑی باتیں
اپنے خاندان میں قریب آدھ درجن خواتین کا ایک ہی مسئلہ دیکھ کر سوچا کہ اگر ایک گھر میں ایک جیسے مسائل ہو سکتے تو باقی کیا ہوگا۔ بس اسی وجہ سےتحقیق شروع کی اور پھر حقائق سے پردہ اٹھتا چلا گیا، میرے بھتیجے کی پیدائش پر ایسا واقعہ ہوا جس نے ہمارے ہوش اڑا دیئے اور سب کی اصلیت کے بھی پول کھول دئیے، وہ چاہے سرکاری ہسپتال ہو یا پرائیوٹ، سب ایک جیسے ہیں۔ جس ڈاکٹر سے چیک اپ ہو رہا تھا وہ پرائیویٹ تھی، اس نے ایک جگہ ریفر کیا لیکن انہوں نے کیس لینے سے منع کر دیا کہ اگر ہم سے چیک کرواتے تو ہم لیتے، اس کے بعد ایک سرکاری ہسپتال لےجانا پڑگیا ،پہلے تو انہوں نے چیک نہیں کیا ، پھر فائل لی اور کہا کہ انتظار کریں پھر کہا کہ جی آپ نے پہلے ہم سے چیک نہیں کروایا، اس لیے اپنے مریض کو لے جائیں۔
اب سوال یہ ہے ایک مریض تشویشناک حالت میں ہے اس کے باوجود آپ اسکا علاج نہیں کر رہے ، کیوں؟ پھر وہیں سے ایک ڈاکٹر آتی ہے اور کہتی ہے ،اسے میرے کلینک لے جاؤ میں کرتی ہوں، کیسا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔۔ سوال یہ ہے ایک سرکاری ہسپتال جو شاید عوام کی سہولت کے لیےبنا ہے، وہاں سے بھی اگر کسی مریض کو نکال دیا جائے ،صرف یہ کہہ کر کہ آپ نے پہلے چیک نہیں کروایا تو مریض کہاں جائے ؟؟؟؟؟ یہ کس کی نا اہلی ہے؟؟؟ اب بات کر لیتے ہیں حقائق کی ۔۔۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور طبی سہولیات میں اضافے کے باعث دنیا میں شرح اموات میں کمی آئی ہے مگر اب بھی ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سالانہ لاکھوں نوزائیدہ بچے اور ان کی مائیں زچگی کے دوران یا ڈیلیوری کے بعد دم توڑ جاتی ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر یہ شرح اموات ہر ایک لاکھ پیدائشوں میں 211 ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تعداد 276 فی ایک لاکھ سے کم ہو کر 186 اموات ہوگئی ہے پھر بھی ہم ناکافی طبی سہولیات یا آگاہی کے فقدان کے باعث کافی پیچھے ہیں۔
دنیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بین الاقوامی فہرست میں پاکستان کا نمبر 139 جبکہ ہمسایہ ملک بھارت کا نمبر 120 واں ہے جہاں ایک لاکھ میں سے 139 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی آبادی میں فرق کے لحاظ سے یہ اعداد وشمار پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ فہرست میں پاکستان کا نمبر نیپال جیسے پسماندہ ملک کے ساتھ آتا ہے۔ سب سے کم شرح اموات یورپی ممالک بیلاروس، اٹلی، ناروے اور پولینڈ میں ہے جہاں پیدا ہونے والے ہر ایک لاکھ بچوں میں سے صرف دو بچے زندگی سے ہاتھ دھو رہےہیں۔ بنگلہ دیش 173 اموات کے ساتھ 135 ویں نمبر پر آتا ہے۔
لیکن دوسری جانب ہم آپریشن کے بغیر ڈیلیوری کی روایت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ عرصے کے دوران سی سیکشن یا آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 1990 کی دہائی میں نوزائیدہ بچوں کی بڑے آپریشن سے پیدائش کی شرح صرف تین اعشاریہ دو (3.2) فیصد تھی جو 2018 میں 20 فیصد تک جا پہنچی اور آج یہ شرح غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے آپریشن کے ذریعے پیدائش کو اس کے نقصان دہ اثرات کے باعث زچگی کا ناپسندیدہ طریقہ قرار دیا ہے ، اس کے لئے سالانہ 10 سے 15 فیصد سٹینڈرڈ شرح مقرر کی ہے لیکن اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو حالیہ چند برسوں میں دنیا بھر میں سیزیریئن عمل سے پیدائش میں اندازاً 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ چین میں تقریباً ہر دوسرا بچہ سی سیکشن سے پیدا ہورہا ہے، جہاں مجموعی شرح 47 فیصد ہے۔ امریکہ میں 32 جبکہ انگلینڈ میں 26 فیصد بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا اور جرمنی میں ایک تہائی ڈیلیوریز سی سیکشن کے ذریعے ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ویسے تو شعبہ صحت کی مجموعی صورتحال ہی اطمینان بخش نہیں اور عوام کو علاج معالجے کے لئے کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں بچوں کی پیدائش کے لئے سی سیکشن جسے ہماری روزمرہ کی زبان میں ’بڑا آپریشن‘ کہتے ہیں کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سی سیکشن کا آغاز کس ملک سے ہوا؟۔ کیا ڈیلیوری کے لئے زچہ کے آپریشن کی واقعی ضرورت ہوتی ہے یا محض کمائی کے لئے زچہ، بچہ اور ان کے خاندانوں کو اذیت میں ڈالا جاتا ہے؟۔اس کے فوائد اور مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اپنے طور پر ایک سروے کیا جس میں اپنے قریبی ،دوست اور رشتہ داروں سے معلومات لیں، تقریباٍ 20 میں سے 18 لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کی پیدائش سی سیکشن سے ہوئی، بعض کے تو سب بچے ہی سی سیکشن سے ہوئے اور کمر میں لگے انجکشن کی وجہ سے خواتین مسائل سے بھی دوچار ہیں، جھک کر کوئی چیز پکڑ نہیں سکتیں، اپنے بچوں کو نہیں اٹھا سکتیں یہاں تک کہ مسلسل کمر درد سے انکے گھریلو مسائل میں اضافہ ہوا، بیماریاں بڑھ گئیں، اب سوال یہ ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ماہرین صحت سے اس بارے بات ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ اب غذا خالص نہیں جس وجہ سے زیادہ تر خواتین کے کیسزز خراب ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ آجکل کی خواتین کام نہیں کرتی کچھ اس لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
یہ کہانی تو ایک طرف ، ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرنے والی خاتون سے بات ہوئی تو اس نے اندر کی ایک اور ہی کہانی سنائی کہ وہ جہاں پہلے کام کرتی تھی ،اس کلینک پر ہر آنے والی مریض کا سی سیکشن کیا جاتا ۔ پہلے کہا جاتا کہ نارمل ہے بعد میں اسے ایسا انجیکشن لگایا جاتا کہ حالت خراب ہو جاتی اور فیملی کو کہا جاتا کہ پانی ختم ہو گیا یا اور کوئی مسئلہ سمجھادیا جاتا جو سادہ لوح لوگ سمجھنے سے ہی قاصر ہوتے ہیں ، اس لیے آخری حل یہی ہے ،کہیں اور جانے کی کوشش کی تو ماں اور بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا، مرتا کیا نہ کرتا، بس وہیں پر سب ہار جاتے ہیں۔
اسی تناظر میں ایک اور نرس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ اتنے بڑے ہسپتال کے خرچے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہے کیونکہ اگر سب نارمل ڈلیوری کریں تو ایک تو مریض جلدی ڈسچارج ہو جاتا ہے ، دوسرا اس کا بل بھی کم بنتا ۔ نارمل کیس کا 25 سے 30 ہزار بنتا ہے ، اگر سی سیکشن کریں تو وہی بل 3 لاکھ تک چلا جاتا ۔۔ یہ ایک نارمل کلینک کی بات کی جا رہی ہے اگر کسی بڑے ہسپتال کی بات کریں تو یہ بل اس سے ڈبل ہو جاتا ہےجہاں ایک روم کا ایک دن کا بل 50 ہزار ہے۔
سی سیکشن کے بارے میں ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلی مرتبہ یہ کہاں ہوا تاہم دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی ملک سوئٹزر لینڈ میں 1500 عیسوی میں ایک شخص کو اس وقت بیوی کا ’بڑا آپریشن‘ کرنا پڑا جب زچگی کو کئی روز گزر گئے اور 13 دائیاں بھی بچے کی نارمل پیدائش میں ناکام رہیں۔ زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث زچہ کا آپریشن کرنا پڑا۔ ڈیلیوری کے لئے آپریشن کی ضرورت عام حالات میں نہیں ہوتی لیکن کئی کیسز میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈاکٹرز مالی فائدے کے لئے لواحقین کو خاتون کے آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس وقت ایک اوسط درجے کے پرائیویٹ ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری کی فیس 30 ہزار روپے سے 60 ہزار روپے جبکہ سی سیکشن کی فیس 60 ہزار روپے سے سوا لاکھ روپے تک ہے۔ اس ریٹ کا آپ اندازہ لگا لیں کہ نارمل اور سی سیکشن کیسز کے نرخ میں دوگنا فرق ہے۔
اور۔۔۔۔
ادویات کے اخراجات اور چھ ماہ تک جسمانی طور پر تکلیف الگ۔
یہ چکر یا سائیکل اتنا سادہ نہیں، اس میں فارماسوٹیکل کمپنیوں کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔ میڈیکل ریپس کے ذریعے ڈاکٹروں کو مالی فائدے کی رغبت دلانے یا incentivise سے جو ساز باز کی جاتی ہے ، اس سے ہم سب آگاہ ہیں جو دوا ڈاکٹر لکھ کر دیتے ہیں وہ اسی کلینک یا اس کے قریبی میڈیکل سٹوریا اسی ہسپتال سے ہی ملتی ہے ۔ ہدف پورا کرنے والے بعض ڈاکٹروں کو اندرون ملک حتی کہ بیرون ملک تفریحی دورے کرائے جاتے ہیں اور اس میں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز کے ڈاکٹرز شامل ہیں۔
بعض ڈاکٹر صاحبان تو میڈیکل سٹور کی دوائی لکھ کر مریض کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ادویات لاکر دکھا دیں تاکہ تسلی ہوجائے کہ صحیح دوا ہی خریدی گئی، مریض اور اس کے لواحقین بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے توجہ دی ،دوسری طرف ادویات دکھانے کی غرض سے مریض صرف قریبی سٹور سے ہی دوائیں لیتے ہیں۔ بہر حال۔۔۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔!
آج کل سی سیکشن کے لئے روایتی اینستھیزیا کے ذریعے مریض کو بے ہوش کرنے کی بجائے ایپی ڈیورل Epidural اینستھیزیا طریقے سے سُن کرنے کا بھی رجحان فروغ پا رہا ہے۔
اس میں فرق کیا ہے؟
فرق یہ ہے کہ بے ہوش کرنے والے ماہر ڈاکٹر یا اینستھیزیا ایکسپرٹ نے مریض کو اس کی حالت کے مطابق بے ہوشی کی ڈوز دینا ہوتی ہے ، اس کے بعد وہ مریض کے مکمل بے ہوش ہونے کی تسلی کرتا ہے اور یہ بھی یقینی بناتا ہے کہ ڈوز اتنی ہو کہ مریض کو بعد میں آسانی سے ہوش بھی آ جائے۔ دوسری طرف ایپی ڈیورل اینستھیزیا کے استعمال میں زچہ کا نچلا دھڑ بے جان کر کے ڈیلیوری کی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں پچاس فیصد ڈیلیوری کیس ایپی ڈیورل طریقے سے ہی ہوتے ہیں۔
لیکن!
بات صرف اتنی نہیں، سپائنل کارڈ یعنی ریڑھ کی ہڈی میں انجیکشن لگا کر سن کرنے سے زچہ اور بچہ دونوں کے لئے میڈیکل کمپلی کیشنز پیدا ہوتی ہیں۔ اگر تو پیچیدگی کی شدت کم ہو تو خاتون Baby Blues مسئلے کا شکار ہوسکتی ہے۔ ’بے بی بلیوز‘ کی کیفیت میں ڈیلیوری کے فوری بعد 70 سے 80 فیصد مائیں منفی محسوسات یا Mood Swings کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خاتون ماں بننے پر خوشی کی بجائے اداسی محسوس کرتی ہے۔ وہ بلاوجہ روتی ہے۔ چڑچڑی، اور بے صبری ہوجاتی ہے۔ تھکن، بے آرامی، بے خوابی (چاہے بچہ سویا ہی کیوں نہ ہو) اداسی، موڈ میں اتار چڑھاؤ اور معاملات پر عدم توجہ کا شکار ہو جاتی۔ گویا خاتون ایک قسم کی نفسیاتی مریض ہی بن جاتی ہے۔ اگر ایپی ڈیورل کے اثرات کی شدت زیادہ ہو تو ماں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی طرف چلی جائے گی ۔
سی سیکشن سے ماں پر مرتب ہونے والے اثرات میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن سب سے زیادہ اہم ہے۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 31 فیصد خواتین ڈیلیوری کے آپریشن کے بعد اس پیچیدگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماں بننا کسی خاتون کے لئے زندگی کی غالباً سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے لیکن آپریشن کے بعد بعض عورتیں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا بری طرح شکار ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ ڈیلیوری کے بعد زچہ کا ہارمون لیول گر جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس سارے معاملے کو حکومت کس لیول پر حل کرتی ہے اور یہ گورکھ دھندا کرنے والے کب تک ماں اور بچے کی زندگی سے کھلواڑ کرتے رہیں گے ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔