6-7ستمبر، بعض بے جا واقعات کی وضاحت!
معروضی حالات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ستمبر 1965ء اور اس سے پہلے کے حالات آج کے حالات سے قطعی مختلف تھے، ہمارے یہاں کارگل کا بار بار ذکر ہوتا ہے اور یوم دفاع بھی منایا جاتا ہے تاہم 6ستمبر65ء سے پہلے والے حالات کا ذکر کم ہوتا ہے، حالانکہ یہ بھی ضروری ہے اور ہمارے دفاعی ماہرین نے ان حالات پر بھی اپنی رائے اور تجزیے پیش کئے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت اس پہلی بڑی سترہ روزہ جنگ کے بعد ایک عرصہ تک یوم دفاع منایاجاتا رہا اور اس روز لاہور، سیالکوٹ، قصور اور دیگر سرحدی شہروں کے لوگ یادگاروں پر بھی جاتے رہے۔ ایک دور میں سرکاری چھٹی بھی ہوتی تھی تاہم بتدریج اس میں سست روی آتی رہی جو شاید خارجہ پالیسی کا تقاضہ تھا۔ بہرحال افواجِ پاکستان کی طرف سے تو ہر صورت اپنا فرض سمجھ کر اس روز یادگاروں پر حاضری اور شہداء کی یادگاروں اور مزاروں پر روایت کے مطابق سلامی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جاتا رہا،میں نے گزشتہ روز کے کالم میں عوامی جوش اور افواجِ پاکستان کے نوجوانوں کے جوش کے بارے میں عرض کیا تھا، ایک دو بار بعض واہموں کی بھی تصحیح کر چکا ہوا ہوں، ایک تو یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ 1965ء میں فریقین کے اسلحہ کی یہ پوزیشن نہیں جواب ہے، آج کے دور میں جتنے جدید آلات اور اسلحہ موجود ہے اگر اب جنگ ہو تو شاید 17روز تک چل بھی نہ سکے اگرچہ یوکرین اور روس کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا اور غزہ پر اسرائیلی مظالم اور نسل کشی کا سلسلہ جاری ہوئے سو دن سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ میں نے جو آج کے دور کے حوالے سے 17روز کا جو ذکر کیا تو وہ اس لئے کہ اس خطہ میں بھارت اور پاکستان دونوں ہی ایٹمی صلاحیت کے مالک ہیں، دونوں کے پاس جدید میزائل سسٹم بھی موجود ہے۔ تعداد میں آج بھی بھارتی افواج زیادہ ہیں لیکن ہم مسلمانوں کے نزدیک تعداد تو حضور اکرمؐ کے دور ہی سے اپنے معنی کھو چکی تھی اور جذبہ ایمان جاری آتا رہا تھا، آج بھی پاکستان کی مسلح افواج کی تعداد کم ہونے کے باوجود جذبہ جوان ہے اور شہادت ہی مطلوب و مقصود ہے، اس لئے دنیاوی عدم توازن ہی جدید اسلحہ کی آزمائش پر مجبور کر دے گا اور پھر یہ ایسی تباہی ہو گی کہ کسی کے سنبھلے نہ سنبھلے گی،اس لئے دعا ہے کہ ایسی نوبت نہ آئے اگرچہ بھارتی ہندوتوا ذہنیت ہر دم یہی سوچتی رہتی ہے، جس کے سبب لڑائی ہو اللہ سے دعا ہے کہ انسانیت کو بچائے
آج (7ستمبر) یوم فضائیہ ہے، اس لئے 1965ء کی جنگ میں فضائیہ کے کردار پر بھی بات کی جا سکتی ہے اور میں کروں گا بھی، لیکن اجازت دیں کہ میں ستمبر 65ء کے بعض توہمات کا ذکر کر سکوں۔ ہم میں ضعیف الاعتقادی بہت ہے، ان دنوں ہماری رانی توپ کا بہت ذکر تھا،یہ شالیمار باغ سے تھوڑا آگے رحمان پورہ میں نصب تھی اور جلد ہی اس کی شہرت بھی پھیل گئی تھی کہ رحمان پورہ سے چلائے جانے والے گولے بھارتی سپاہ پر آگ بن کر گرتے اور اس کی صفیں بربادکر دیتے تھے، انہی دنوں یہ افواہ پھیل گئی کہ سبز پوش بھارتی گولے کیچ کر لیتے ہیں ایسے ہی ایک یہ بھی چلی کہ چونڈہ میں ٹینکوں کی رومیل (عالمی جنگ) والی جنگ کے بعد دوسری یہ بڑی جنگ تھی۔اس میں بھی بھارت اچانک حملہ آور ہوا، لیکن ہمارے مجاہدین نے اسے نہ صرف روکا بلکہ چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا تھا اس بارے میں یہ بات چلائی گئی کہ نوجوان سینے پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور ان کو اڑا دیا یعنی پاکستانی فوج میں بھی ”خودکش بمبار“ ہیں۔ یہ بھی غلط مفروضہ ہے اور جوانوں کی بہادری پر سوالیہ نشان لگانے والی بات ہے، یہ درست کہ یہ حملہ بھی اچانک تھا،اس میں اللہ کی مدد شامل تھی وہ یوں کہ بھارت نے اپنا آرمرڈ بریگیڈیئر چھپا رکھا تھا اور غیر متوقع طور پر جموں کی طرف سے سیالکوٹ سرحد کی طرف سامبا کی پہاڑیوں پر چڑھا کر سیالکوٹ فتح کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا، پاک فوج کو ایک مجاہد کے ذریعے جو مقبوضہ کشمیر میں تھا یہ علم ہو گیا، وقت بھی کم رہ گیا تھا چنانچہ بڑی تیزی سے پاکستان کے آرمرڈ بریگیڈ اور دیگر محاذسے ٹینکوں کو سیالکوٹ بھیجا گیا اور مقابلہ چونڈہ میں ہو گیا۔ ہمارے جوانوں نے بڑی مہارت اور جوانمردی سے دشمن کا حملہ روکا اور اسے تہس نہس کر دیا، بم باندھنے والی باتوں کی میدان کار زار کے مجاہدوں نے بھی تردید کر دی تھی۔
قارئین! میں نے یہ لڑائی یا جنگ بہ نفس نفیس کور کی ہوئی ہے اس لئے واقعات اتنے پیش آئے کہ اس کے لئے کتاب ضروری ہے اس دوران ہم سے کوتاہیاں بھی ہوئیں تاہم اللہ نے مدد کی جہاں تک شہریوں کے جذبے کا تعلق ہے تو یہ درست کہ یہ جوش و جذبہ کے ساتھ سرحد کی طرف روانہ ہوئے لیکن یہ اسلحہ کی لڑائی ڈنڈوں سے نہیں لڑی جا سکتی تھی،اس لئے ہمارے فوجی جوانوں کو ان سب کو شالیمار باغ سے ہی روک کر بمشکل واپس کیا تھا۔
آج (7ستمبر) پاک فضائیہ اس جنگ کے حوالے سے یوم فضائیہ منا رہی ہے اور یہ حق بھی بنتا ہے کہ 65ء ستمبر میں زیادہ جدید طیارے نہیں تھے، اگرچہ ہمارے پاس ایف16بھی تھے لیکن امریکی پابندی کے باعث یہ استعمال نہیں کئے جا سکتے تھے اس لئے ان کو ایک دوست ملک کے پاس محفوظ کیا گیا اگرچہ 6ستمبر کوہمیں اس طیارے کے ساؤنڈبیریئر کی آواز سے اندازہ ہوا کہ کچھ بڑا ہو گیا ہے، ہماری فضائیہ نے سیبر جیٹ طیاروں سے بھارتی فضائیہ تباہ کر دی تھی 6ستمبر کو شاہینوں نے واہگہ اور جلو کے درمیان سڑک پر موجود بھارتی فوج کے ٹینکوں کو تباہ کر دیا تھا اور پھر جب یہ فضائیہ میدان میں آئی تو ایم ایم عالم ہی نے چار منٹ میں پانچ بھارتی طیارے ما ر گرائے اور پھر ہمارے ایف ای چودھری کے صاحبزادے سیسل چودھری کی قیادت میں شاہینوں نے بھارتی سرحد کے اندر گھس کر ہلواڑہ کے ہوائی اڈے کا حلوہ بنا دیا تھا اور وہ اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ مارے گئے۔ یوں یہ بڑی بہادرانہ جنگ تھی اور وطن کا دفاع بھی جرائت اور بہادری سے کیا گیا، ہم سے جو غلطیاں ہوئیں ان کو ماننا ہوگا، میری خواہش ہے کہ کرنل غلام جیلانی خان 6ستمبر سے پہلے والے واقعات پھر لکھیں۔
لاہوریوں کی جرأت اور بے خبری کا ذکر رہ گیا، بھارتی ہوائی جہاز نے لاہور ریلوے سٹیشن پر حملہ کیا اور بم گرائے۔یہ سٹیشن کے باہر دو موریہ پُل کے قریب گذرے۔زیادہ نقصان نہ ہوا، پھر بھارتی جہاز نے ہماری ایک مال گاڑی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جو اسلحہ لا رہی تھی۔بم کالا شاہ کاکو کے پاس کھیتوں میں گرا کر بھاگ گئے،لاہور والوں کو وہ دن بھی یاد ہے جب شہر کی فضاء میں شاہینوں نے بھارتی جہاز کو گھیرا اور شہر کے اوپر ڈاگ فائٹ ہوئی۔گولیاں چلیں، لاہور والے چھتوں پر نعرے لگا رہے تھے۔ ایک گولی اڑتی آئی اور ہمارے موچی دروازے کے ایک نوجوان کو لگی جو شہید ہوا۔