امید کی کرن کبھی بجھتی نہیں کہیں نہ کہیں روشن رہتی ہے، بڑی مایوسی کا وقت تھا، ”دنیا ختم نہیں ہوئی، بڑی زندگی پڑی ہے اللہ ضرور کوئی اور موقع دے گا“

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:133
2ہفتے کے لیے ڈیفر؛
میڈیکل بورڈ آؤٹ ہونے کی کہانی بھی سن لیں۔ جب ڈاکٹر نے مجھے بتایا؛”کہ آپ میڈیکل ان فٹ ہیں“ تو میں نے ڈاکٹر انچارج سے بحث کی۔ وہ مسکرائے اور بولے؛بیٹا! ہم نے تمھیں 2 ہفتے کے لئے defer ہی توکیا ہے۔ 2ہفتے بعد اسلام آباد آنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ معلوم نہ تھا کہ یہ 2ہفتے نہیں عمر بھر کے لیے ڈیفر کر دیں گے۔میں ان کی بات سے مطمئن نہ تھا۔ میڈیکل سے فارغ ہوا اور سیدھا اپنے چچا ڈاکٹر جاوید رشید جو سروسز ہسپتال لاہور کے(اے ایم ایس تھے) ان کے گھر چلا گیا۔انہیں سارا ماجرہ بیان کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر کا نام اور حلیہ پوچھا۔ سنکر بولے؛”او تے میرا بڑا یار تے جماعتیا اے۔“ہم مسلم ٹاؤن پہنچے جہاں میڈیکل ہوا تھا۔انکل جس بے تکلفی سے ڈاکٹر کو ملے ان سے ان کی دوستی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ چاچا جی نے اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے کہا؛”تمھیں میرا بھتیجا ہی ملا تھا بورڈ آؤٹ کرنے کے لئے۔ یہ بھا جی حمید کا بڑا بیٹا ہے۔“ میرے حافظہ سے ڈاکٹر کا نام نکل گیا ہے وہ والد صاحب کو بھی جانتا تھا۔معذرت کرتے کہنے لگا؛”یار! میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے رزلٹ سیل کرکے اسلام آباد بجھوایا ہے۔“چچا بولے؛”وہ defer کر نے والا کیا معاملہ ہے۔“ جواب طفل تسلی نہیں بلکہ بڑا نا امیدی والا تھا۔”آنکھ کی چوٹ اس نوکری کے لیے disqualification ہے۔“امید کی یہ کرن بھی بجھ گئی۔
امید کی کرن کبھی بھی بجھتی نہیں کہیں نہ کہیں روشن رہتی ہے۔ بہرحال وہ بڑی مایوسی کا وقت تھا۔ چچا نے مجھے بڑی تسلی دی ”بیٹا! دنیا ختم نہیں ہوئی۔ بڑی زندگی پڑی ہے اللہ ضرور کوئی اور موقع دے گا۔“ میرے چچا بڑے رحم دل، یار بادشاہ، خدا ترس، خوش لباس، نظم وضبط کے پابند اور کرکٹ کے شیدائی تھے۔ ابا جی کے اکلوتے بھائی عمر میں ان سے 11 سال چھوٹے تھے۔ دونوں بھائیوں کی محبت اور پیار مثالی تھا۔ چچا ابا جی کا بے حد احترام کرتے تھے۔ جب چچا بیمار ہوئے تو اکثر نیم بے ہوشی والی کیفیت ہوتی تھی لیکن جب ا با جی ان کی تیمار داری کے لیے جاتے اور چچا کو آواز دیتے تو وہ آنکھیں کھول دیتے، مسکراتے اور پھر بھائی کے گلے لگ جاتے تھے۔ چچا کی وفات کے سال سواسال کے بعد ابا جی بھی اپنے ابدی گھر چلے گئے۔ وہ چچا کو اکثر یاد کرتے اور ان کی موت کا صدمہ اباجی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
ڈیفر ہو نے کے2ہفتے بعد میں ٹرین سے راولپنڈی جا رہا تھا تو ٹرین میں میرے ہمسفر جنرل ریٹائیرڈ جہاں داد بھی تھے۔ سندھ کے گورنر۔ ان سے خوب گپ شپ رہی۔ میرے کچھ تلخ سوالوں پر بھی وہ مسکراتے ہی رہے تھے۔ کمال شخصیت تھے۔
گھر پہنچا۔ والدین کو سارا ماجرا بیان کیا۔ میں بہت مایوس تھا۔ ابا جی سن کر بولے؛”بیٹا۱ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔اللہ اپنے بندے کے لئے آسانیاں کرتا ہے۔ انسانی منصوبہ بندی اپنی جبکہ اللہ کی اپنی ہے۔ ہونا وہی ہوتا ہے جو اللہ کی منصوبہ بندی ہو۔ ایس ایس بی کے لیے کوہاٹ گیا۔ ایک مشق کرتے ہوئے رسہ میری آنکھ میں لگا اور اسی وجہ سے میں میڈیکل گراؤنڈ پر بورڈ آؤٹ ہو گیا۔ سوچا کیا تھا اور ہوا کیا۔ فکر مت کرو اللہ اور سبب بنائے گا۔ وہی کاز ساز ہے۔ جو اللہ کو منظور۔“(”جو اللہ کو منظور“ والد کا تکیہ کلام تھا) والد کی باتوں سے بہت حوصلہ ملا۔ زندگی آگے بڑھنے لگی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔