فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر 491

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر 491
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر 491

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شمیم آرا سے پہلے انہوں نے ہماری ملاقات صوفیہ بانو سے کرائی تھی۔ صوفیہ بانو نے اتفاق سے لاہور آنے کا قصد ہی نہیں کیا ورنہ وہ بھی ہماری ذمے داری بن جاتیں۔
شمیم آرا نے انور کمال پاشا ساحب کی فلم ’’ انارکلی‘‘ کے لیے لاہور آنے کا ارادہ کیا تو الیاس صاحب نے پھر ہمیں اس سے ملایا اور تاکیدکی کہ دیکھو، لاہور میں ان کا خیال رکھنا۔ اس طرح شمیم آرا ور ان کے گھر والوں سے لاہور میں بھی ہمارا واسطہ پڑا۔ ان کی نانی ہمیں فون کر کے بلالیتی تھیں۔ شمیم آرا پر شدید پابندیاں تھیں مگر پھر ہمارے معاملے میں انہیں کافی آزادی دے دی گئی اور وہ خود بھی ہمیں فون کرلیا کرتی تھیں۔ لاہور میں شمیم آرا کے شب وروز اور فلمی سفر کے ہر مرحلے کے ہم شاہد بھی ہیں اور بعض معاملات میں خود ان کا حصہ بھی رہے ہیں۔
ایک دن الیاس بھائی نے پوچھا’’ میاں آج رات کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
ہمیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ کراچی میں قیام کے دوران میں ہمارا ہر پروگرام الیاس بھائی سے جڑا رہتا تھا۔
’’ سنو کوئلے کے دھاگے والے کباب کھاؤ گے؟‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر490پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ہم نے فوراً ہامی بھرلی۔ الیاس بھائی نے فلمی چٹخاروں کے علاوہ ہمیں زبان کا چٹخارہ بھی لگا دیا تھا۔ کراچی کے ہر مشہور اور قابل ذکر ریستوران کی خصوصی ڈش ہم نے ان ہی کے ذریعے چکھی تھی۔ یہاں تک کہ زندگی میں پہلی بار چائنیز سوپ اور پھر چائنیز کھانا بھی ہمیں الیاس بھائی نے ہی کھلایا تھا۔ طفیل احمد جمالی اور ابراہیم جلیس بھی ساتھ تھے جب وہ ہمیں مسجد خضرا کے پاس والے چائنیز ریستوران میں لے گئے۔
ان وقت سارے کراچی میں تین ہی چائنیز ریستوران تھے۔ ہم نے تو پہلے کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ پاکستان چائنیز کھانوں کے ریستوران بھی ہیں حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ بیڈن روڈ اور ہال روڈ کے درمیان میں ایک کچے راستے پر نالے کے سامنے واحد چائنیز ریستوران واقع تھا جو ایک چینی خاتون چلاتی تھیں۔ بعد میں مال روڈ پر بھی ایک ریستوران بن گیا تھا۔
الیاس بھائی اس وقت صرف چائنیز سوپ کے سوقین تھے۔ جاتے ہی انہوں نے ایک سوپ اور آٹھ سلائس کا آرڈر دے دیا۔ مکھین کے ساتھ۔
ہم نے پوچھا ’’ الیاس بھائی۔ ایک سوپ اور ہم چار پینے والے؟‘‘
بولے ’’ اماں ‘ تم نہیں جانتے ، بڑے پیالے میں اتنا سوپ ہوتا ہے کہ ہم چاروں کے لیے کافی ہوگا۔ اور یہ سوپ پیا نہیں جاتا کھایا جاتا ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد واقعی ایک بہت بڑا چینی کا پیالہ چکن کارن سوپ سے لبالب بھرا ہوا سامنے آگیا۔ شاید اسی لیے آج بھی چکن کارن سوپ ہی ہماری واحد پسند ہے۔ پیالے میں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ ویٹر نے چار چھوٹے پیالے اور چینی کے عجیب شکل والے چمچے بھی لا کر رکھ دیے۔
ہم ہاتھ آگے بڑھایا تو الیاس بھائی نے روک دیا ’’ اماں صبر کرو۔ یہ بہت گرم ہوتا ہے۔ ہم سب بے خبری میں اپنی زبان جلا چکے ہیں۔ ابھی چولہے پر سے پکتا ہوا آیا ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد سلائس اور مکھن بھی آگیا۔ ہم لوگ ایک چمچہ سوپ لیتے اور سلائس کتر کر کھا لیتے۔ اس سے سب کا پیٹ بھر گیا۔
ہم نے پوچھا ’’ الیاس بھائی۔ کیا چائنیز صرف سوپ ہیں کھاتے ہیں، ان کے ہاں کوئی اور کھانا نہیں ہوتا؟‘‘
کہنے لگے ’’ بھئی ‘ باقی سب الابلا ہوتی ہے۔ نہ جانے کیا پکاتے ہیں۔ سنا ہے سخت بدمزہ ہوتا ہے ، تمہیں سوپ کیسا لگا؟‘‘
ہم نے اخلاقاً کہہ دیا ’’ اچھا ہے۔‘‘
بولے ’’ شروع میں اچھا نہیں لگتا بعد میں مزہ پڑجاتا ہے۔ ویسے صرف سوپ ہی یہاں کام کی چیز ہے ، باقی سب بے کار ہے۔‘‘
لیجئے گولے کے کبابوں سے بات چائنیز سوپ تک پہنچ گئی۔
الیاس بھائی نے ایک چلتا ہوا رکشہ پکڑا اور ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔ راستے بھر وہ ولی والے کباب کی تعریف کرتے رہے تھے کہ کس غضب کے کباب بناتا ہے۔
ایک چھوٹی دکان کے سامنے چند کرسیاں اور بینچیں پڑی تھیں مگر خریداروں اور کھانے والوں کا ہجوم تھا۔ دکاندار الیاس بھائی پہچانتا تھا۔ انہوں نے انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ دو آدمیوں کے لیے کباب بھیج دو۔ اس نے سر ہلا دہا۔
کچھ دیر بعد کباب اور نان آگئے۔ واقعی ، مزید ارتھے مگر مرچیں اس غضب کی تھیں کہ ناک اور آنکھ سے پانی کی جھڑی لگ گئی۔
’’میاں‘ رومال نکالو رومال ، اس کے بغیر یہ کباب نہیں کھا سکتے۔‘‘
ہم نے جیب سے رومال نکال کر آنسو اور ناک کا پانی صاف کیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ کھاتے بھی جاتے تھے، روتے بھی جاتے ، بعد میں چائے منگائی گئی۔ چھوٹی سی پیالی میں آدھی پیالی چائے تھی۔ کراچی کایہ دستور ہمیں معلوم ہوچکا تھا۔
بل ادا کرنے کے بعد الیاس بھائی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’ آؤ‘ آج آج تمہیں چیکو سے ملاتے ہیں۔‘‘
چیکو کراچی کی فلموں میں نئی نئی آئی تھیں۔ بعد میں ان کا نام رخسانہ ہوگیا تھا مگر لاہور آنے کے بعد ‘ بہت سی فلموں میں ہیروئن اور دیگر اہم کردار کیے۔ پھر شادی کر کے انگلستان چلی گئی تھیں۔
اس زمانے میں ریوالی سنیما نیا نیا بنا تھا اور قابل دید سنیما تھا۔ اس کے مالک سے بھی بعد میں ہماری دوستی ہوگئی تھی۔ غالباً ابو سیٹھ یا اسی قسم کا نام تھا۔ جوان آدمی تھے اور بہت دلچسپ ، اقبال شہزاد سے بھی ان کی دوستی تھی۔ وہ اداکار بہار کے خالو بھی تھے۔
ریوالی سنیما کے برابر والی سڑک (جسے کراچی والے گلی کہتے تھے) پر بائیں جانب پرانے فلیٹ تھے ان میں سے ایک فلیٹ کی نچلی منزل کے ایک یا دو کمروں میں چیکو رہتی تھیں۔ ابھی نووارد تھیں۔ ویسے بھی کام اور معاوضہ اس وقت کم ہی ملتا تھا۔
الیاس صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا اور آوا ز دی ’’ کھولو بھئی!‘‘
’’ کون ہے ؟‘‘ اندر سے زنانہ آواز آئی۔
دروازہ فوراً کھل گیا۔ ’’ آیئے‘‘ السلام صاحب! ‘‘ ان کی والدہ نے سلام کیا پھر چیکو نمودار ہوئیں۔ چھٹے قد کی صحت مند ، انتہائی سیماب صفت اور خوش شکل اداکارہ تھیں۔
’’ السلام و علیکم الیاس بھائی!‘‘ انہوں نے سلام کیا۔ الیاس صاحب کو ہیروئنوں کا الیاس بھائی کہنا قطعی برا نہیں لگتا تھا، وہ جگت بھائی تھے۔کراچی میں تو الیاس بھائی کا طوطی بولتا تھا اس لئے بہت سی شوقین لڑکیاں انکی مدد سے ہی ملک کی صف اول کی ہیروئیں بن پائیں ۔شریف اور مرنجان مرنج انسان تھے ۔ویکلی نگار کے مالک تھے اس لئے نگارخانوں میں ان کا ادب لحاظ بہت تھا ۔
’’ یہ دیکھو کون ہیں؟‘‘ انہوں نے اس طرح کہا جیسے کوئی عجوبہ دکھا رہے ہوں۔’’ یہ آفاقی صاحب ہیں، لاہور سے آئے ہیں۔ بہت بڑے صحافی ہیں۔ تم جب لاہور جاؤ گی تو یہی تمہارے کام آئیں گے۔ ان کے کہے بغیر اسٹوڈیو میں داخلہ ہی نہیں ملتا۔‘‘
چیکو جھٹ بولیں’’ آفاقی صاحب‘‘ آپ مجھے داخلے کا پاس دے دیں گے نا؟‘‘
الیاس صاحب بول پڑے ’’ دے دیں گے ‘ دے دیں گے، اب تم ان کی خاطر تو کرو۔‘‘
ان کی والدہ نے اپنے بیٹے محسن کو بھیج کو فوراً دو بوتلیں منگوائیں۔ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ یہ سارا خاندان انتہائی باتونی تھا۔ سب بیک وقت یکے بعد دیگرے بولتے تھے اور بولتے ہی رہتے تھے۔ مگر بہت دلچسپ ، سادے اور مخلص لوگ تھے۔ وہ بھی عجب دور تھا اور لوگ بھی عجیب ہی تھے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا نہ ایسے ۔ اس طرح چیکو سے ہماری پہلی ملاقات کراچی میں الیاس بھائی نے کرائی اور مراسم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)