تیسرا مذاق
بالآخر پی ٹی آئی کے بدمست ہاتھی کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی کے مطابق سدھا لیا ہے۔ اب یہ دیو ہیکل پارٹی، جس میں ساری طاقت دراصل خود اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ سے بھری تھی، عوام کی بے جا توقعات کو ایک ایک کرکے ختم کرتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں پوری قیادت گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے تو بلوچستان اور سندھ سے اس کے حق میں آواز تک سنائی نہیں دیتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ہی اس کا سوا ستیاناس کرنے کے لئے کافی تھے کہ بشریٰ بی بی نے وہاں ڈیرے جما لئے ہیں۔ بات فائنل کال سے آخری کارڈ تک جا پہنچی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عوام نے سول نافرمانی بھی نہ کی تو پی ٹی آئی کیا کرے گی؟ اس کے بعد کیا گل کھلائے گی؟؟
سمجھنے کی بنیادی بات یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے فائنل کال اور آخری کارڈ کی بات کرکے اپنے ووٹروں سپورٹروں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اس کے بعد ہر طرح کی خیر کی توقع ختم کردی جائے اور پی ٹی آئی سدھائے ہوئے ہاتھی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی بجائے حکومت سے مذاکرات کی ڈگر پر چل پڑے گی۔ سیاست میں کبھی کوئی حتمی بات نہیں کی جاتی بلکہ واپسی کا دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے جبکہ عمران خان یوں حتمی بات کرتے ہیں جیسے آسمان سے فرشتوں نے اتر کر وہ سب کچھ کردینا ہے جو کچھ وہ فرمارہے ہیں، ایسا ممکن تبھی ہوتا اگر جنرل فیض حمید وہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے جس کے منصوبے وہ جنرل مشرف کے زمانے سے بنارہے تھے مگر
قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب لبِ بام رہ گئے
کے مصداق ان کے جملہ منصوبوں کی پینگ تڑک کرکے ٹوٹ گئی کیونکہ عالمی اسٹیبلمشنٹ بھی نہیں چاہتی تھی کہ عراق کے صدر صدام اور مصر کے حسنی مبارک کی طرح پاکستان میں بھی ایک فوجی اگلے بیس تیس برسوں کے لئے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھے اور افغانستان میں اپنی مرضی کے گل کھلانا شروع کر دے۔ پہلے ہی انہوں نے سوات میں جو کھیل رچایا اور اب پی ٹی آئی کے لانگ مارچوں کی آڑ میں جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ جنرل فیض حمید کی کوتاہ بینی کا بین ثبوت ہے۔
خیر عمران خان کی جانب سے آخری کارڈ کے طور پر سول نافرمانی کی بات دراصل ایک ہارے ہوئی جواری کی نشانی ہے جو آخری داؤ میں اپنی بیوی بھی ہار جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے حلقے اس کے الٹ سوچ رکھتے ہوں اور ان کے نزدیک عمران خان دراصل یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کو تب تک انگیج رکھنے کے لئے کر رہے ہوں جب تک کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا لیتے کیونکہ دیکھا جائے تو اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ٹرمپ کی الیکشن مہم پر جس طرح پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے اور اس سے قبل امریکی کانگریس سے جس انداز سے عمران خان کے حق میں قراردادیں پاس کروائی ہیں، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے فوراً بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور عمران خان اسی طرح جیل سے برآمد ہوں گے جس طرح وہ امریکہ میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے حل کیلئے ان کی ثالثی کی خبر لے کر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تھے اور یہ مژدہ جانفزا فرماتے ہوئے سنے گئے تھے کہ وہ دوبارہ سے ورلڈ کپ جیت آئے ہیں مگر بعد میں جو کچھ ہوا، اس سے قوم کو بآسانی اندازہ ہو گیا کہ یہ تو جنرل پرویز مشرف کے کشمیر فارمولہ کا تسلسل ہی تھا جس کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ کشمیر کا جو حصہ انڈیا ہے پاس ہے، انڈیا کا ہے اور جو پاکستان کے پاس ہے، پاکستان کا ہے!
2025کا سیاسی منظر نامہ اس کے سواکچھ نہیں نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ سے پیپلز پارٹی کے قالب میں ڈھل جائے گی، بلاول بھٹو اور مریم نواز ایک دوسرے کے مدمقابل آن کھڑے ہوں گے جبکہ نواز شریف کی بھرپور کوشش ہوگی کہ آصف زرداری کی طرح وہ بھی ایک مرتبہ پھر سے وزارت عظمیٰ پر براجمان ہو سکیں۔ فیصل واؤڈا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے اس کھیل کو رچایا ہے جس کا مقصد دوبارہ سے پی ٹی آئی کو تیس نشستوں کی پارٹی بنانا اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے حلقوں کو ایک مرتبہ پھر سے بلاول بھٹو کے سپرد کرکے انہیں قسمت آزمائی کا موقع دینا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو کس حد تک پنجاب کو سر کرنے میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں کیونکہ عمران خان تو جیل جا کر بھی پنجاب میں وہ جنبش پیدا نہیں کر سکے جس کا باربار خیبر پختونخوا سے اظہار ہوتا ہے۔
جب پنجاب میں عمران خان پس منظر اور بلاول بھٹو پیش منظر پر آجائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی کا سارے کا سار ووٹ پیپلز پارٹی کی طرف رجوع کر جائے گا بلکہ بہت سارا ووٹ نون لیگ کی طرف جائے گا کیونکہ جنرل فیض حمید کی اسٹیبشلمنٹ نے جہاں پیپلز پارٹی کے ووٹ پر ہاتھ صاف کیا تھا وہاں پر ان کی بھرپور سوشل میڈیا کمپین کے نتیجے میں نون لیگ کا ایک حصہ بھی متاثر ہو کر اور مہنگائی کا ذمہ دار شہباز شریف کی نگران حکومت کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے پی ٹی آئی کو ووٹ دے بیٹھا تھا۔ اب ایسے جذباتی ووٹروں سپورٹروں کی واپسی کا موسم بھی آنے والا ہے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اس وقت کورس کریکشن کے پیریڈ سے گزر رہی ہے اور جلد ہی اپنی اصل نہج پر آجائے گی اور عمران خان ایک مرتبہ پھر تیسری فورس کا تیسرا مذاق بن کر رہ جائیں گے۔