26 ویں آئینی ترمیم کے عدالتی ثمرات

   26 ویں آئینی ترمیم کے عدالتی ثمرات
   26 ویں آئینی ترمیم کے عدالتی ثمرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میری ریٹائرمنٹ سے قبل ایک دن استاد مکرم بیرسٹر فرخ قریشی دفتر آ پہنچے۔ کلب لے جا کر انواع و اقسام کے کھانے کھلائے، میری ہر کہی ان کہی کو سنی ان سنی کرکے حکم دیا کہ "آج سے صمدانی اینڈ قریشی میں بیٹھا کرو"۔ بڑوں کے اعتماد کی یہی وہ ناؤ ہے جسے کھیتے کھیتے ردائے زیست پر پھیلی زردی سے گزر کر اب  میں گھنگھور اندھیروں میں گم ہوا چاہتا ہوں۔ عدالتوں میں مقدمات کے احوال دیکھنا شروع کیے تو دیکھا کہ 1986 کی عدلیہ اگر مثالی نہیں تو قابل قبول ضرور تھی۔ وکلا خوب تیاری کر کے ا ٓتے تھے، عدالتوں میں قانون ہی کی باتیں ہوتی تھیں، سیاست اور سیاسی ماحول بار میں تو زیر بحث آ جاتے لیکن عدالتی کٹہرا ان سے پاک تھا۔ اسی سال استاد محترم اور مثل باپ میرے  پرورش کنندہ ڈاکٹر انیس احمد (رفاہ انٹرنیشنل  کے موجودہ وائس چانسلر) نے مجھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں لے لیا۔ یوں عدلیہ سے تعلق تو موقوف ہو گیا لیکن یادیں کبھی محو نہیں ہوئیں۔

اب جب ریٹائرمنٹ کے بعد ادھر کا رخ کیا تو توبہ ہی بھلی۔ پہلے کبھی لکھ چکا ہوں کہ لائسنس ملنے پر گڑگڑا کر التجا کی تھی: "رب کریم! میرا رزق وکالت کے واسطے سے نہ دیجیو۔" یہ تب کی بات ہے جب بار اور عدلیہ قابل قبول حد تک گوارا تھے۔ معلوم ہوا کہ اب  یہاں معاملات آئین و قانون نہیں، سیاست اور تعلقات پر طے ہوتے ہیں۔ بار اور عدالتیں، سبھی سیاست میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ نئے لوگ اس کا ادراک نہیں کر سکتے کہ عدالتیں ہوتی کیا ہیں، چلتی کیسے ہیں، ان کا کام کیا ہوتا ہے، اڑھائی عشروں میں آئین شکنوں کی بد اعمالیوں کے باعث آئین و قانون دلیل، عقل اور مکالمہ ہر شعبے سے ہجرت کر چکے ہیں۔ عدالتی ہتھوڑے کی جگہ سلطان راہی کا گنڈاسا پڑا ہوا ہے۔ گنڈاسا جس نے آئین کی جگہ لے لی ہے۔ گنڈاسا جو منتخب حکومتیں اڑانے کے کام آتا ہے۔ یہ کچھ دیکھ کر میں نے خود کو وہاں اجنبی پایا۔ اور یوں مجھے ایوان عدل سے رابطہ مکرر منقطع کرنا پڑا۔

 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں یحییٰ آفریدی چیف جسٹس بن گئے۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک ماہ میں 4372 مقدمات فیصل کیے،  1853 نئے مقدمات دائر ہوئے، الحمدللہ۔ اور یہ اس عالم میں ہوا کہ گویا ملک میں سپریم کورٹ ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی ہاہا کار اور نہ ہر ٹی وی پر "سینیئر وکلا" کی سڑی بسی باتیں۔ یہی رفتار کار رہی تو ہر ماہ اڑھائی ہزار مقدمات کم ہوں گے۔ یوں تین سال مکمل ہونے سے قبل سپریم کورٹ مقدمات سے خالی ہو جائے گی۔ اس ٹھنڈی ٹھار پروا کے ہلکورے تو 26 ویں ترمیم سے قبل آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس خاموش انقلاب کا آغاز جسٹس فائز عیسی کی تقرری کے ساتھ ہو گیا تھا۔ انہوں نے عدالتی کارروائی ٹی وی پر دکھا کر "نامی گرامی" وکلا کی شہرت چند ہفتوں میں زمین بوس کر دی. متعدد قارئین نے مجھے اپنے تاثرات یوں دیے کہ ان سے اچھی باتیں تو ہم حجام سے سن لیتے ہیں۔ ہمارا ٹیکسی ڈرائیور بولنا شروع ہو جائے تو کیا غضب کی قانونی موشگافیاں بکھیرتا ہے۔۔۔۔۔!

 گزشتہ سوا سال سے یہ " نامور وکلا" سپریم کورٹ سے غائب ہیں. جسٹس ارشاد تا جسٹس بندیال ایک ہی عدلیہ دیکھی گئی. منصف اور وکیل چیمبر میں کچھ طے کرتے اور اگلے دن سماعت کا ناٹک رچا لیا جاتا۔ سپریم کورٹ سرنگیے وکیلوں سے بھری تھی۔ سرنگیے جو سرنگ سے گزر کر منزل تک پہنچتے ہیں۔ قاضی فائز عیسی نے انہیں کیمرے کے آگے کھڑا کرنا چاہا تو وہ فرار ہو گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ اگر ان کے حسب حال نہیں تھے تو یہاں اب یحیی آفریدی اور دیگر جج بھی تو ہیں۔ کبھی سنا کہ 26 نومبر کے بلوائیوں کی 278 اموات کا نقارہ بجانے والا وکیل کبھی سپریم کورٹ میں گیا ہو؟ اور وہ لاہور کا پیپلز پارٹی لیکن تحریک انصاف کی دہری شہریت والا وکیل کیا ریٹائر ہو گیا؟ آئے دن سیاسی جماعتیں بدلنے والا اور آخری خبروں تک تحریک انصاف کا پنڈی والا وکیل کیا مفقود الخبر  ہو گیا؟

محدودے چند بکھرے موتیوں کے، قد کاٹھ کے صاحبان بصیرت اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ وہ جو امروز کی پرلی طرف جھانک سکیں۔ وہ جن کی وسعت نظر فردا کو دبوچ سکے۔ وہ جو عصر رواں سے کہیں آگے افق سے پرے ان زمانوں میں جھانک سکیں جنہیں اقبال کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ جب یہ المیہ ہو تو 26 ویں آئینی ترمیم من و تو اور محض امروز کے اعشاری پیمانوں ہی سے جانچی پرکھی جائے گی۔ اس ترمیم پر وہ بھی چیخ رہے ہیں جو تا قیامت کوچہ اقتدار میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ وہ جو آج فارم 47 کا واویلا کیے جا رہے ہیں، 2018 میں مقدس آرا بھرے صندوق لوٹ لیے جانے پر ساکت و صامت تھے۔ کسی نے قومی اسمبلی میں ناپ تول کر بتایا تھا کہ 10 انتخابات میں اتنے ووٹ مسترد نہیں ہوئے جتنے صرف 2018 میں ہوئے۔ چنانچہ اگر وہ حکومت جائز تھی تو آج فارم 47 والی ناجائز کیوں؟ وہ حکومت جائز تھی تو یہ ناجائز کیوں؟

 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کم از کم سپریم کورٹ کی حد تک عدلیہ کی کایا پلٹ چکی ہے۔ اڑھائی عشروں میں اس عدالت کا ماحول کیا مچھلی مارکیٹ کے سوا کچھ اور تھا؟ لیکن آج سرنگیے وکیل غائب ہو چکے ہیں۔ فیض حمید کی تلچھٹ یقیناً موجود ہے لیکن لگتا ہے کہ اللہ کریم کو ہم پر ترس آگیا ہے۔ حکومت غلط ہے یا صحیح، سیاسی جماعتیں اس بارے میں عوام کی تربیت جاری رکھیں اور پانچ سال انتظار کریں۔ احتجاج کرنا چاہیں تو مہذب انداز میں کریں۔ راستوں کی بندش، جھوٹ کی اشاعت، عمال پر قاتلانہ حملے، توڑ پھوڑ، املاک اور درختوں کی آتش زنی اور دہشت گردی یہ سیاست نہیں مجرمانہ اعمال ہیں۔ ان کے تائید کنندہ بھی مجرم ہیں۔

جسٹس منصور نے چیف جسٹس کو لکھا کہ "26 ویں ترمیم پر آئینی بینچ کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہ بلایا جائے۔ کیونکہ درخواست منظور ہونے پر کمیشن کے فیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی اور یہ بات ادارے کے لیے باعث ہزیمت ہوگی"۔ یہ دلیل مان لی جائے تو فیصلہ آنے تک تمام عدلیہ بند کرنا پڑے گی۔ آئینی بینچ نے اگر 26 ویں ترمیم خلاف آئین قرار دے دی تو اس بینچ کی حیثیت کیا ہوگی جو خود 26 ویں  ترمیم کی پیداوار ہے؟ "خلاف آئین" بینچ کا فیصلہ آئینی کیسے ہو پائے گا؟ جسٹس منصور کمیشن کے بے وقعت فیصلوں کے ساتھ اگر بے وقعت اور "غیر آئینی" طور پر قائم آئینی بینچ اور اس کے متوقع فیصلے کی آئینی حیثیت بھی بتا دیتے تو چیف کو معاملہ فہمی میں آسانی رہتی۔ میں اپنی پرانی اور متعدد بار دی گئی تجویز دہرانے پر مجبور ہوں کہ تمام ریاستی عمال کا سالانہ نفسیاتی معائنہ لازمی قرار دیا جائے۔ امید ہے کہ چیف جسٹس عدلیہ کی حد تک یہ عمل شروع کردیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -