ایک کالم رؤف طاہر کی یاد میں
موت برحق ہے، قرآن پاک کے الفاظ میں ”ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے“۔سوال صرف یہ ہے کہ کس حالت میں انسان دُنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ ہمارے دوست رؤف طاہر بھی چل بسے، اس کیفیت میں کہ وہ لیکچر دے رہے تھے۔یوں وہ نئی نسل کی ذہنی تربیت میں مصروف تھے۔ان کا فیلڈ صحافت تھا،جس میں انہوں نے کم و بیش چالیس سال گزارے۔اندرون و بیرون ملک ان کی ممتاز اخبارات و رسائل سے وابستگی رہی۔ وہ رپورٹر اور چیف رپورٹر بھی رہے، ایڈیٹری بھی کی اور دورِ آخر میں تو صحافتی حلقوں میں اُن کی شناخت بطور کالم نگار کی تھی۔
رؤف طاہر سے میری شناسائی اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم پر ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ شناسائی بے تکلف دوستی میں بدل گئی۔ مَیں 1973ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کے سال دوم کا طالب علم تھا، جب انہوں نے یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ جمعیت کے ایک نہایت متحرک کارکن بن گئے۔مَیں نے انہیں متعدد بار جمعیت کے جلسوں میں شعلہ بیانی کرتے دیکھا۔ہفت روزہ ”آئین“ کو بھی ان سے قلمی تعاون حاصل تھا۔ اس پرچے کے ایڈیٹر مرحوم مظفر بیگ تھے، جن سے میری بھی نشست و برخاست رہتی تھی۔ رؤف طاہر سے زیادہ تعلقات ہفت روزہ ”زندگی“ کے دوبارہ اجراء (ستمبر1977ء) کے بعد بنے۔ مَیں تو پانچ چھ ماہ کے بعد قائداعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی تاریخ کرنے چلا گیا، لیکن وہ بطور ڈپٹی ایڈیٹر اُس وقت تک کام کرتے رہے جب تک سنسر شپ آ نہ گئی اور یہ مؤقر سیاسی جریدہ اسی سنسر شپ کی زد میں آ کر دم توڑ گیا۔ اس کے بعد رؤف طاہر نوائے وقت سے بطور رپورٹر وابستہ ہو گئے۔
کچھ عرصہ روزنامہ ”جسارت“ لاہور کے بیورو چیف بھی رہے۔ یہیں سے انہوں نے سعودی عرب کی طرف اڑان بھری اور ”اردو میگزین“ جدہ کے ایڈیٹر مقرر ہو گئے۔وہیں وہ میاں نواز شریف فیملی کے قریب ہوئے۔ اُس وقت پاکستان کے وجود پر فوجی آمریت اپنے پنجے گاڑ چکی تھی، اسے کسی بھی طرف سے ہونے والی تنقید قابل ِ برداشت نہ تھی۔رؤف طاہر نے ایسے انٹرویوز اور تجزیے شائع کیے، جن سے مشرف آمریت کی پیشانی پر بل آ جاتے تھے۔بالآخر اسی جبر نے یہ رسالہ بند کروا دیا اور رؤف طاہر وطن لوٹ آئے۔اس کے بعد وہ پہلے روزنامہ ”جنگ“ میں کالم لکھنے لگے، بعدازاں ”دُنیا“ سے وابستہ ہو گئے اور تادمِ آخر اِسی اخبار میں ان کا کالم چھپتا رہا۔
رؤف طاہر باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ ان سے جب کبھی ملاقات ہوتی تو ان سے بالکل تازہ لطائف سننے کو ملتے۔ وہ جب تک دوستوں کے درمیان بیٹھے رہتے،پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے۔ ان کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں سے گہرے تعلقات تھے۔اس طرح سے وہ پاکستانی سیاست کے اندرونی منظر سے براہِ راست واقفیت رکھتے تھے۔ ان سے بعض دوست یاد داشتیں قلمبند کرنے کا اکثر تقاضا کرتے تھے اور وہ آمادگی کا اظہار بھی کرتے۔ ویسے تو وہ اپنے کالموں میں بہت کچھ لکھ چکے تھے، ان تحریروں کو مرتب کر دیا جائے تو پاکستانی سیاست کے کئی چُھپے گوشے منکشف ہو سکتے ہیں۔
رؤف طاہر اخبار نویسی کے رموز سے کامل واقفیت رکھتے تھے۔ اسلام اور وطن ِ عزیز سے ان کی کمٹمنٹ بڑی واضح تھی۔ ان کے دامن پر لفافہ جرنلزم کا کوئی داغ نہ تھا۔ بہت سوچ کر لکھتے اور جو لکھتے اس پر معذرت کا کوئی سوال نہ تھا۔ان سب پیشہ وارانہ محاسن کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذات میں ایک نہایت مہذب آدمی تھے۔ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے ملتے اور جس کے زیادہ نزدیک ہوتے اُس سے اتنی ہی بے تکلفی سے چھیڑ چھاڑ کرتے۔ جواب میں دوسرے کی زبان پر جو آتا اس سے خود بھی محظوظ ہوتے۔انہوں نے زندگی کے بہت سرد و گرم حالات دیکھے،لیکن مایوس کبھی نہ ہوئے، تلخی کو بھی طبیعت پر غالب نہ آنے دیتے۔ حسرت آتی ہے کہ کچھ روز اور جی لیتے،لیکن قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں،جن سے راضی بہ رضا رہنا پڑتا ہے۔رؤف طاہر جیسے زندہ دِلوں ہی کے لئے ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا ہے:
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں