تعلیمی ادارے ملکی ترقی کے ضامن
کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کے نظام تعلیم میں پنہاں ہے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے اس ترقی کے حصول میں اہم ممدود و معاون ہیں۔تمام ترقی یافتہ معاشرے اپنے نظام تعلیم کی ترقی پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ دنیا کی کثیر آبادی کے حامل اور دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر چین میں تعلیم کی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی چین میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تازہ ترین فہرست کے مطابق، 31 مئی 2022 تک پورے چین میں 3,013 اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں 2,759 باقاعدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور 254 خصوصی اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل تھے۔اعلیٰ تعلیم کے باقاعدہ اداروں میں 1,270 انڈرگریجویٹ ادارے، اور 1,489 ووکیشنل کالجز اور خصوصی اعلیٰ تعلیم کے سکول شامل تھے۔ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں کو فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ان معیاری اور اعلیٰ سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر کے طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چین آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں وہ بہترین اساتذہ کی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
تربیت یافتہ اساتذہ بھی چین کے تعلیمی نظام میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، وقتاً فوقتاً اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ چین کی وزارت تعلیم کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں ملک کی لازمی تعلیم کے لیے 1.48 ملین مزید کل وقتی اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں، جس سے ایسے اساتذہ کی کل تعداد 10.57 ملین ہو گئی ہے ۔
چین میں اب 9سالہ لازمی تعلیم کے لیے 207,000 سکولوں میں 158 ملین طلباء ہیں۔ لازمی تعلیم برقرار رکھنے کی شرح 95.4 فیصد تک پہنچ گئی، جو 2012 میں 91.8 فیصد تھی۔چین کی 9سالہ لازمی تعلیم میں مفت ٹیوشن کے ساتھ 6سال کا پرائمری سکول اور 3 سال جونیئر سیکنڈری سکول شامل ہے۔وزارت تعلیم کے مطابق 2012 اور 2021 کے درمیانی عرصے میں، چین کی لازمی تعلیم نے کاؤنٹی کی سطح پر مکمل کوریج کی بنیاد پر متوازن ترقی حاصل کی ہے۔ اس دوران مالی وجوہات کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والے تمام طلباء کی شناخت کی گئی اور انہیں وقتاً فوقتاً سکول واپس آنے میں مدد کی گئی۔ عوامی جمہوریہ چین میں اعلیٰ سطح کی تعلیم کے مواقع بھی دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ اچھے ہیں۔
چین میں تعلیمی ترقی کی راہ میں خصوصی افراد کو بھی پیچھے نہیں چھوڑا گیا۔ ملک نے معذور بچوں کے لیے مساوی تعلیم کے حقوق پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ 2021 میں، ملک کے خصوصی تعلیمی اداروں میں تقریباً 920,000 طلباء زیر تعلیم تھے، جو 10 سال پہلے کے مقابلے میں 142.8 فیصد زیادہ ہے۔ چین میں زیر تعلیم بچوں کی غذائی ضروریات اور جسمانی صحت پر بھی بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دیہی طلباء کے لیے غذائیت میں بہتری کے پروگرام سے ہر سال 37 ملین بچوں کو فائدہ پہنچا، جس سے جسمانی صحت کے ٹیسٹ پاس کرنے والے متعلقہ طلبا ءکی شرح 2012 میں 70.3 فیصد سے بڑھ کر گزشتہ سال 86.7 فیصد ہو گئی۔
چین میں یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام سطح کی حکومتیں بہترین اقدامات کر رہی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران تمام سطحی حکومتوں نے 1 ٹریلین یوآن (149 بلین امریکی ڈالر زسے زیادہ) سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ شہری اور دیہی سکولوں کے حالات کے درمیان فرق کو ختم کیا جاسکے اور تمام لازمی تعلیمی اسکولوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔
تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوaرتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گیا ہے تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے آج کے اس پر آشوب دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ چینی معاشرے میں تعلیم بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔