تبدیلی کے نظر آنے لگے ہیں آثار ۔۔۔
ابھی باقی ہے کھیل۔۔۔؟
اب کی بار نہیں ہوئے 400کے پار۔۔۔لیکن تبدیلی کے نظر آنے لگے ہیں آثار
اپوزیشن تو ابھی سے شروع ہو گئی۔۔۔
کیا انتخابات کے بعد بھی ”غصہ“ ٹھنڈا نہیں ہوا۔۔۔یا اب ”غصہ“ دکھانے کا وقت آگیا ہے۔۔؟
ابھی سے چیک اینڈ بیلنس کے خطوط آنا شروع ہو گئے ہیں
ابھی سے تحقیقات کے، پارلیمانی کمیٹی بنانے کے اور کئی بڑے بڑے مطالبے شروع ہو گئے۔۔۔
کہیں عہدوں کا ”ذکر“ہے، کسی کواقتدار کی”فکر“ ہے اور عوام کی سب پر ”نظر“ ہے۔۔۔
حکومت سازی کو لیکر تعطل بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔
غلط ایگزٹ پولز چلانے والے بھی رو رہے ہیں کیونکہ ان کا بھی بہت کچھ ڈوب گیا۔۔۔
ادھو ٹھاکرے نے ابھی سے بی جے پی کے ہوش اڑا دیئے ہیں، دوسری جانب سب کی نظریں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور تیلگو دیشم پارٹی(ٹی ڈی پی) کے سربراہ چندرابابو نائیڈو پر نئی حکومت پر لگی ہیں۔ اب تک یہ دونوں این ڈی اے کے اتحادی ہیں، لیکن کوئی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ یہ تصور سے باہر ہے کہ وہ کب اور کہاں سیاست میں رخ بدلیں گے۔
نئی حکومت کے مدت پوری نہ کرنے کے تجزیئے بھی کیے جا رہے ہیں۔ برطانوی اخبار ”فنانشل ٹائمز“نے تو یہاں تک لکھ ڈالا کہ تیسری مدت کے لیے مودی چھوٹے اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ انتخابی نتیجہ ایک طاقتور لیڈر کے لیے دھچکا ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کے سیاسی منظر نامے پر حاوی تھا۔ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی بی جے پی کے لیے اقتصادی پالیسی کو لاگو کرنا مزید مشکل بنا دے گی۔
فوربز اور بلوم برگ نے تو اعددوشمار کیساتھ لکھا کہ انتخابی نتائج سے ٹائیکونز کے کھربوں روپے ڈوب گئے
ایسے میں ایک زرناٹے دار تھپڑ جڑ دیا گیا۔۔۔
حکومت ابھی نہیں بنی لیکن ”تھپڑوں“ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔
اس تھپڑ کی گونج بھارت سے باہر تک سنی اور دیکھی گئی۔۔۔
یہ تھپڑ عام نہیں منتخب اور مشہور چہرے پر مارا گیا ۔۔۔
ہم بات کر رہے ہیں بی جے پی کی خاتون سیاستدان و بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت کی جنہیں لیڈی کانسٹیبل نے تھپڑ مارا اور اس کی وجہ بھی بتائی۔ یہ واقعہ مبینہ طور پر کنگنا کے ماضی کے بیان کی وجہ سے پیش آیا۔ چندی گڑھ ایئر پورٹ پر مبینہ طور پر تھپڑ مارنے والی سیکیورٹی اہلکار کلوندر کور کے مطابق”وہ کسانوں کے احتجاج کے بارے میں اداکارہ کے ایک پرانے بیان پر غصے میں آگئی تھیں کنگنانے بیان دیا تھا کہ کسان احتجاج میں 100 روپے کیلئے بیٹھے ہیں، کیا اداکارہ وہاں جا کر بیٹھیں گی؟ میری والدہ وہاں بیٹھی تھیں اور احتجاج کر رہی تھیں“۔ کنگنا کو تھپڑ مارنے والی خاتون اہلکار کا تعلق کسان گھرانے سے ہے۔ سینٹرل انڈسٹریل سیکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) نے خاتون اہلکار کو معطل کردیا ہے اور انہیں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ کنگنا رناوت ریاست ہما چل پردیش میں اپنے آبائی علاقے مندی سے الیکشن میں کھڑی ہوئی تھیں اور انہوں نے کانگریس کے رکن وکرمادتیہ سنگھ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ہے۔
ہم ایسے الفاظ یا واقعات کے حق میں نہیں۔۔۔ افسوس کیساتھ بیان کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اسے ہر گز ہرگز ہمارے خیالات اور جذبات سے نہ جوڑا جائے۔۔۔ا یسا کسی بھی ملک میں ہونا لائق افسوس ہے۔۔۔ بڑے جمہوری ممالک میں تو ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔۔۔کسی بے گناہ کو گرفتار نہیں کیا جا نا چاہیے۔۔۔کسی کا گھر بلڈوز نہیں کیا جانا چاہیے۔۔۔کسی مسجد، مندر، گردوارے یا مقدس ستھان کی بے حرمتی یا مسماری ہر گز ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔۔۔سرحدوں پر کشیدگی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔جنگ کی بجائے امن کا ماحول ہونا چاہیے۔۔۔سرحدوں کے آر پار بسنے والے خاندانوں پر ویزا پابندیوں میں نرمی ہونی چاہیے۔۔۔تجارت اور فنکاروں پر پابندیاں نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ انسانی حقوق اورآزادیٔ اظہار پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔۔۔قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے۔۔۔
دوبارہ چلتے ہیں بھارت۔۔۔
ایگزٹ پولز اپوزیشن جماعتوں پر دباؤ ڈالنے کا آخری حربہ تھا۔۔۔جو ناکام ثابت ہوا۔۔۔لیکن اس ناکام حربے سے بھی کروڑوں اربوں روپے کمائے گئے اور یہ دولت کس نے سمیٹی، کس کے ذریعے سمیٹی اور سٹاک مارکیٹ کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ کیسے کیا گیا۔ بی جے پی کا اس سب سے کیا تعلق ہے۔ اور ایک ہی وقت میں میڈیا ہاؤسز پر انٹرویوز اور کامیابی کے دعوے کیوں چلائے گئے۔۔۔؟ اس حوالے سے بھی سوالات اٹھا دیئے گئے ہیں۔ایگزٹ پولز کو اب ”سکیم“اور کریمنل ایکٹ کہا جا رہا ہے۔راہول گاندھی پریس کانفرنس میں کہہ چکے کہ”الیکشن ایگزٹ پول کی وجہ سے لوگوں کو سٹاک مارکیٹ میں 30 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا کیونکہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انتخابات کے بعد شیئر بازار تیزی سے بڑھنے والا ہے۔ انہوں نے پورے معاملے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا“۔
بھارت میں انتخابی نتائج آنے سے قبل اور ایگزٹ پولز آنے کے بعد کانگریس اور اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی تھیں کہ ”2004ء دہرایا جائے گا20سال پہلے یاد کیجیے کہ سبھی ایگزٹ پولز نے اٹل بہاری واجپائی کی واضح اور بھاری اکثریت کی کامیابی کے دعوے کیے تھے پر حکومت کانگریس اور یو پی اے کے اتحادیوں کی بنی“۔اور ایسا ہی ہوا۔۔۔راہول گاندھی نے انتخابی نتائج والے دن 4جون کی شام تقریباً 5بجے سب سے پہلے پریس کانفرنس کی اور واضح الفاظ میں جو چند جملے کہے وہ حالات و واقعات یا صورتحال کی شدت کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ جملے یہ تھے”ایجنسیاں، بیوروکریسی اور آدھی عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی۔ بھارت کے کمزور لوگ بھارتی آئین کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ یہ چناؤ ہم نے بھارت کے پورے گورننس کیخلاف لڑا۔ حکومت نے اپوزیشن کے خلاف کاروائیاں کیں، ہم یہ الیکشن صرف بی جے پی کیخلاف نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کیخلاف لڑے۔بی جے پی نے پارٹیاں توڑیں، وزرائے اعلیٰ کو جیلوں میں ڈالا اور ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ بھارت کو بچانے کا کام غریب لوگوں، مزدوروں، کسانوں نے کیا ہے“۔
بی جے پی کی طرف سے بھی جواب آ گیا ہے، پیوش گوئل کہتے ہیں ”راہول گاندھی ابھی تک لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کی شکست سے سنبھل نہیں پائے ہیں۔ وہ اب مارکیٹ میں لوگوں کا اعتماد کم کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ جے پی سی کا مطالبہ بے بنیاد ہے۔ بازار میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔ عام سرمایہ کار فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ کانگریس کو بتانا چاہیے کہ ان کے دور میں بازار کس طرح کریش ہوتے تھے۔ انہیں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ راہول کو فکر ہونی چاہیے کہ جب انہیں رجحان میں برتری ملی تو بازار گرا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام اور سرمایہ کار ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ جب یہ تصدیق ہو گئی کہ مودی حکومت ہے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ گیا۔ تمام اصلاحات جاری رہیں گی۔ ہمارے اتحادی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ انڈیا اتحاد محض سیٹ ایڈجسٹمنٹ بن کر رہ گیا ہے۔آج مارکیٹ کیپ 415 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 10 برسوں میں میوچل فنڈ مارکیٹ 10 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 56 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا، کروڑوں سرمایہ کار بھارت کی بڑھتی مارکیٹ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں“۔
نریندر مودی 9 جون کو تیسری مدت کے لیے وزیرِاعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔بھارتی میڈیا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت درکار ہے، بی جے پی کی اتحادی جماعتیں تیلگو دیشم پارٹی، جنتا دل سپیکر کے عہدے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ بی جے پی امورخارجہ، دفاع، داخلہ، خزانہ کی وزارتیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو 292 نشستوں کے ساتھ واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ انڈیا بلاک نے بھی تقریباً 234 نشستیں حاصل کی ہیں،دیگر جماعتوں کو مجموعی طور پر 17 نشستیں ملی ہیں۔
پاکستان خوش ہے نہ دکھی۔۔۔کسی مائینڈ گیم کا حصہ ہے نہ بننا چاہتا ہے۔۔۔بھارت کے عوام نے جس کو”ڈی فیم“کرنا تھا کر دیا۔۔۔ اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔ لوک سبھا کا ماحول اب پہلے سے بہت زیادہ مختلف نظر آئے گا۔۔۔ بھرپور نہ سہی تھوڑی بہت تبدیلی ضرور نظر آئے گی۔۔۔ اور اگر تبدیلی نہ آئی تو اس کا نقصان بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑے گا جنہوں نے لوک سبھا میں اکثریت کھوئی ہے کیونکہ نفرت اس سے زیادہ تو بڑھنے سے رہی۔ بھارت کے اندر نفرت کا جو زہر پھیل چکا ہے اس کا ازالہ نہ ہوا تو نقصان ایک سیاسی جماعت کا نہیں پورے ملک کا ہو گا۔۔۔ ”ہیٹ ٹرک“ کرنیوالے راجدھانی (دہلی)کیساتھ عوام کے دلوں پر بھی حکومت کریں۔۔۔ بھوک اور نفرت کے خاتمے کیلئے کام کریں۔۔۔ہو سکے تو اس بار امن پھیلائیں۔
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں