اشیائے ضرورت کی بے تحاشا مصنوعی مہنگائی
ملک میں معاشی حالات کی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ چار سال کے دوران اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے کیا وہ واقعی درست اور جائز ہے؟ اس بارے میں متعلقہ فریقین اور با اثر طبقات کے دلائل اور اعداد و شمار سے عیاں ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے گاہے بگاہے مہنگائی کے حقائق اور قیمتوں میں مارکیٹ کی سطح پر عملی طور پر اشیائے ضرورت کی دستیابی سے موازنہ کیا جائے تو امید واثق ہے کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان، کافی حد تک بلا جواز اور نا مناسب ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مالی طور پر آسودہ حال طبقات عام لوگوں کے ذرائع آمدن سے بہتر معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی آمدنی اپنی ملکیتی زرعی، تجارتی، صنعتی املاک اور ہنر مندی پر مبنی خطیر مالی وسائل رکھنے کی بنا پر اکثریتی عوام سے کافی حد تک بہتر اور زیادہ ہے۔ جبکہ ایسی خوشحالی کی نعمتوں سے محروم طبقات کو روزانہ مزدوری، دیہاڑی یا ملازمت کرنے کی بنائی پر ہی اپنی زندگی کا پہیہ چلا کر ضروریات پورا کرنا ہوتی ہیں۔ تاہم معاشرے کا کم و بیش 15 سے 20 فیصد طبقہ، مالی وسائل کی آسودہ حالت میں ہونے سے غربت و افلاس کے کٹھن اور مشکل حالات سے نسبتاً محفوظ رہتا ہے۔
ہر وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری تو اکثریتی عوام کی بنیادی ضروریات انہیں آسان ذرائع اور ارزاں نرخوں پر فراہمی ممکن بنانا ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا کرنا لوگوں کے لئے مشکل یا گراں ہو جائے تو وہ مجبور اورناراض ہو کر احتجاج کرنے کی راہ اختیار کر لیتے ہیں پھر ایسے احتجاجی مظاہروں سے روکنا اور متاثرہ لوگوں کی بلا تاخیر حق رسی کرنا بھی متعلقہ حکومتوں کے نمائندوں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مختصر طور پر یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ حکومت کو محض 2 فیصد وڈیروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے مفادات اور خوشنودی کی بجائے عوام کے مسائل اور مشکلات پر توجہ دینا چاہئے۔
قارئین کرام جانتے ہیں کہ گزشتہ سال پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت مبلغ 2200 روپے فی چالیس کلوگرام مقرر کی تھی لیکن کچھ کم کرنے کے مطالبہ کے باوجود اس قیمت کو قائم رکھا گیا۔ جبکہ عوام کی غالب اکثریت بھی اس نرخ پر آئے روز اعتراض کر کے متعلقہ وزراء خوراک کو اسے گھٹانے کی گزارشات مختلف اوقات میں کرتی رہی۔ لیکن اس قیمت میں کوئی کمی بروئے کار نہ لائی گئی اور انہیں اس قیمت کی بجائے نسبتاً زیادہ نرخوں پر آٹا لینے کے لئے گزشتہ کئی ماہ سے خجل خراب ہونا پڑ رہا ہے، آٹے کی قلت میں قیمت کی گرانی، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور زیادہ تر مصنوعی مہنگائی کے عوامل کار فرما ہیں۔ حالانکہ پنجاب ملک میں وسیع رقبہ پر گندم کاشت کر کے اس کی کافی مقدار دوسرے صوبوں کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے فراہم کرتا رہتا ہے۔ جبکہ غیر قانونی حرکات کے ارتکاب پر متعلقہ حکومتوں کو بر وقت کارروائیاں کر کے غلط کار اور جرائم پیشہ افراد کی منفی سرگرمیوں کو روکنا ہوتا ہے۔ گزشتہ چھ سے نو ماہ کے دوران آٹے کی قیمت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں اور علاقوں میں مذکورہ بالا گندم کے نرخ سے کہیں زیادہ ہونے سے عوام کی اکثریت کے لئے بہت تکلیف اور اذیت کے حالات کا باعث بنی رہی اور وہ اس کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے رہے۔ حالانکہ محکمہ خوراک کی جانب سے ان دنوں ایسے اعلانات واضح انداز میں پڑھنے اور دیکھنے میں آتے رہے کہ حکومت کے ذخائر میں کافی اناج موجود ہے جو عوام کی ضرورت کے لئے آئندہ چند ماہ کے لئے کافی ہے۔ لیکن پھر بھی عوام کی کافی تعداد بیشتر علاقوں مں ی مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور اور بے بس نظر آئی۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کو حکومت کی ہر پالیسی کے اقدام کی بہر صورت مخالفت کر کے محاذ آرائی کے حالات کو روز بروز تلخ اور لڑائی جھگڑوں پر مائل و راغب کرنے سے گریز کر کے بہتر تجاویز کے ذریعے عوام کے مسائل کم کرنے کی خاطر مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر وہ مخالفت برائے مخالفت کے منفی انداز فکر و عمل کی روش اختیار کرنے کو ترجیح دے کر انتشار کے حالات کو ختم نہیں کریں گے تو یاد رکھیں وطن عزیز میں کافی وسائل اور کثیر تعداد میں ذہین، محنتی، جواں ہمت اور جفا کش افرادی قوت کی موجودگی کے باوجود عوام کی پریشانیاں اور محرومیاں زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کی غلط سوچ و فکر کی بنا پر تعمیر و ترقی کے راستوں پر گامزن نہیں ہو سکیں گی۔ اس لئے موجودہ اور آئندہ بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحادی قائدین کو معاشی بہتری اور ملکی آئین و قانون کی پاسداری کے لئے اپنی سیاسی کارکردگی کی پالیسیوں کی سمت کو درست اور راست کاری کی جانب چلنے اور چلانے کا لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔
یہاں سرکاری اداروں میں کرپشن، رشوت خوری تجارت میں ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری اور ڈیوٹی کے اوقات میں کام چوری کو سختی سے روکنے کے عملی اقدامات کئے جائیں۔ گندم کی قیمت ایک سال کے عرصہ میں 2200 روپے سے 3900 روپے تک بڑھانا یعنی 80 فیصد کا اضافہ یہاں کے غریب عوام پر بہت بڑا بوجھ ہوگا۔
گندم کی بے تحاشا قیمت بڑھانے سے عوام کی اکثریت بھوک اور فاقہ کشی سے دو چار ہو کر جرائم کے ارتکاب پر مائل و مجبور ہو سکتی ہے جس سے عدم استحکام کے حالات بڑھ سکتے ہیں۔