بزرگوں کا کہنا اور آملہ کا کھایا، بعد میں اثر دکھاتا ہے!

        بزرگوں کا کہنا اور آملہ کا کھایا، بعد میں اثر دکھاتا ہے!
        بزرگوں کا کہنا اور آملہ کا کھایا، بعد میں اثر دکھاتا ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بزرگ راہنما نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کہا کرتے تھے کہ آمریت سے بدترین جمہوریت بھی بہتر ہے۔ وہ ایسے راہنما تھے جنہوں نے ہمیشہ اتحاد کی کوشش کی اور ہر دور میں جمہوریت کے لئے کوشاں رہے۔ ان کو متحارب فریقوں کو ایک میز پر بٹھانے میں ملکہ حاصل تھا۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان سخت گیر اصول پرست راہنما  تھے اور بھٹو مخالف تحریک کے نمایاں راہنما تھے۔ انہوں نے بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی لگانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ایسا تو نہ ہوا لیکن اس تحریک کے نتیجے میں بھٹو کی نہ صرف حکومت گئی بلکہ ان کو پھانسی بھی چڑھنا پڑ گیا(اب 45 سال بعد ان کے مقدمہ کے حوالے سے درست رائے آ گئی تو بہت سے پیٹ خراب ہو گئے۔ ان کو مروڑ آنے لگے ہیں حالانکہ یہ بھی عدالت ہی کی رائے) اور پی این اے نے تحریک کی کامیابی کے بعد جنرل ضیاء کے ساتھ حکومت میں بھی شراکت کی۔ یہ رومانس زیادہ دیر نہ چل سکا اور انتخابات کے انعقاد کی وعدہ خلافی کی بنیاد پر علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد ہی نوابزادہ نصراللہ خان نے ایم آر ڈی کی کوشش شروع کی، سب سے مشکل مرحلہ ایئر مارشل اور دوسری طرف بیگم نصرت بھٹو کی رضامندی لازم تھی اور یہ معرکہ نوابزادہ نصراللہ نے سر کر دکھایا، اس کے بعد یہ انہی کا کردار ہے کہ بیمار ہوتے ہوئے لندن گئے اور وہاں بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کو اکٹھا کرکے ”میثاق جمہوریت“ کرایا، یہ اسی کاوش کا نتیجہ ہے کہ کئی مراحل کے باوجود آج پھر یہ دونوں جماعتیں ایک جگہ ہیں، اگرچہ نوابزادہ نصراللہ اس لندن والی محنت کے باعث واپس آکر ہسپتال اور وہاں سے اللہ کے پاس چلے گئے۔

نوابزادہ نصراللہ (مرحوم) کی جماعت کے حوالے سے یہ پھبتی کسی گئی کہ تانگے کی سواریاں ہیں، اس حوالے سے ان کے ساتھ ہم گفتگو کرتے تو وہ حقہ گڑ گڑا کر کہتے بڑی جماعت کا کیا کرنا، ہماری جماعت کسی سے کم نہیں اور قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ سے ہم از راہ تفنن اور سنجیدگی سے بھی یہ بات کر چکے تھے کہ وہ آمریت کے خلاف جمہوریت کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور جمہوریت بحال ہو جاتی ہے تو پھر سے اس کے خلاف شروع ہو جاتے اور آمریت واپس آ جاتی ہے وہ برا بھی منا جاتے لیکن اصرار کرتے کہ ہمیشہ جمہوری طرزکے لئے ہی جدوجہد کی اور جب عوامی حمائت سے آنے والی حکومتیں بھی آمرانہ روش اختیار کرلیتی ہیں تو ان کے خلاف بھی جدوجہد فرض ہے۔

نوابزادہ نصراللہ خان کا یہ ذکر یوں کیا کہ آج کے حالات میں وہ ہوتے تو اتحاد جمہوریت ہی کی بقاء کے لئے بنتے، بہرحال آج جو صورت حال ہے اس میں بھی مرحوم کا وہی فلسفہ لاگو ہوتا ہے کہ خراب جمہوریت بھی آمریت سے لاکھوں درجے بہتر ہے چنانچہ اگر اس نقطہ ء نظر سے غور کیا جائے تو اس وقت سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود اسی کو لے کر آگے چلیں، اپنے تحفظات اور شکایات کو دور کرنے کے لئے قانونی اور آئینی راستے اپنائیں، اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر ملک میں عام انتخابات مسلسل ہوتے رہیں تو بہتر نظام بن ہی جائے گا۔ اس وقت جو حالات ہیں وہ بھی اسی وجہ سے ہیں کہ کم از کم ڈیڑھ دہائی  بلکہ دو دہائیوں سے انتخابات ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ درمیان میں عدم اعتماد والا سلسلہ ہوا تو یہ بھی ایک قانونی، آئینی اور سیاسی سلسلہ ہے۔ اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ انتشار کی بجائے جمہوری نظام کے استحکام کی کوشش کی جائے اور اس کے لئے سب کو کوشش کرنا چاہیے چاہے وہ زیر عتاب ہی کیوں نہ ہوں۔

اس ماہ کور کمانڈرز کانفرنس معمول کے مطابق ہوئی،اس میں ملکی حالات پر بھی غور کیا گیا اور اعلامیہ میں نہ صرف پرامن انتقال اقتدار پر اطمینان کا اظہار کیا گیا بلکہ یہ بھی واضح کیا گیا کہ فوج نے عوام کے جان و مال کے تحفظ کا فرض نبھایا اور اس کا الیکشن سے کسی قسم کا کوئی لینا دینا نہیں جن کو تحفظات ہیں وہ متعلقہ فورموں سے قانون اور آئین کے مطابق رجوع کریں اسی کانفرنس میں اعادہ کیا گیا کہ 9مئی کے ”مجرموں“ کو ضرور کٹہرے میں لایا جائے گا۔

تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ بانی جماعت عمران خان نے کورکمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ پر مثبت ردعمل دیا اور اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ 9مئی کے ذمہ دارحضرات کے خلاف کارروائی ہونا چاہیے، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو موجودہ حالات میں سامنے آئی ہے اس کی تائید کرنا چاہیے، اس وقت تحریک انصاف کو یہ مثبت استحقاق حاصل ہو چکا کہ کے پی میں واضح اکثریت سے اس کی حکومت بن چکی اور وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی ایک موثر جماعت کے طور پر موجود ہے  جبکہ وفاق میں بھی معقول تر تعداد ہے۔ اس لئے اگر تحریک انصاف جمہوری انداز میں چلے تو اس کے لئے فائدہ مند ہوگا کہ وفاق میں اتحادی حکومت ہے جو پھولوں کی سیج تو بالکل نہیں، کانٹوں کا بستر ضرور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کا نام ہی نہ لیا جائے بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی کئے جائیں اگریہ درست ہے کہ بانی نے کورکمانڈرز کانفرنس کے فیصلوں کی تائید کی ہے تو یہ مثبت اقدام ہے اس لئے توقع کرنا چاہیے کہ ملک میں جو تقسیم پیدا کر دی گئی اسے کم کرنے کی شعوری کوشش کی جائے گی۔

 میں اپنے سینئرز اور تنظیم کے حوالے سے واضح ہوں کہ مشکل تر حالات میں بھی پرامن جدوجہد ہونی چاہیے، تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا اس کی تائید بہت مشکل کام ہے لیکن یہ بھی لازم ہے کہ خود انصافیے بھی اپنے رویے پر غور کریں اور تمام تر تحفظات کو قانونی اور آئینی ذرائع سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ منتخب ایوانوں کو چلنے دینا ہی خود ان کے لئے فائدہ مند ہے کہ اس پلیٹ فارم پر بات ہو سکتی ہے۔ جماعت کو اپنی موجودہ مقبولیت کو کیش کرانا چاہیے وہ اسی طرح ممکن ہے کہ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے جمہوری عمل میں شرکت کریں اور جہاں سے بھی امکانی ریلیف مل سکے حاصل کریں، جہاں تک 9مئی کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے جو عوام کو دکھائی بھی گئی اگر تحریک انصاف اس کی غیر جانبدارانہ (بقول خود) تحقیقات چاہتی ہے تو بھی تصادم کے ذریعے تو یہ ممکن نہیں۔ اس کے لئے بھی پارلیمانی راستے کھلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ قانونی راہ اختیار کی جائے اس حوالے سے ان کو ریلیف بھی مل رہی ہے۔

سیاسی قائدین سے پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل پیرا ہوں کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ ایوان میں ایک مہذب پارلیمانی گروپ کے طور پر کام کریں تاکہ امن اور سکون کے حصول میں مسائل حل ہو سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -