ٹیکس تو لیں گے، مگر گیس، بجلی کیوں دیں؟
بدھ کی صبح نہانے کے دوران ہی بجلی چلی گئی جب باہر آیا تو نو بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ اندازہ ہوا کہ نو بجے بند ہوئی ہے شاید لوڈشیڈنگ ہو۔ جو ایک گھنٹے کی ہو گی۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا اور ناشتے کی فکر تھی کہ ہمارے گھر سے یہ اطلاع مل گئی کہ بجلی کے ساتھ گیس بھی بند ہے اور یہ محدود علاقے میں نہیں دور دور تک ہے۔ بجلی مصطفےٰ ٹاؤن کو پہلے علامہ اقبال ٹاؤن گرڈ سے ملتی تھی اب شاہ پور کانجراں گرڈ سٹیشن سے منسلک ہے فون کرنے سے معلوم ہو گیا کہ گرڈ ہی بند کیا گیا ہے اور گیس بھی دور دور تک نہیں۔ مجبور ہو گئے اور ناشتہ بازار سے نان چنے کا منگوانا پڑا اور دفتر کی راہ لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بجلی تین بجے سہ پہر تشریف لا کر ایک بار پھر بندہوئی اور دیر بعد بحال ہوئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ گیس دوپہر کے بعد آئی لیکن پریشر نہیں تھا بڑی مشکل سے سالن بنا ہے۔ اس صورتحال پر سوچ ہی رہا تھا کہ آج(جمعرات) صبح پھر حیرت کا جھٹکا لگا کہ ساڑھے نو بجے تیار ہو کر ناشتے کا منتظر تھا خیال تھا کہ رات کے بچے سالن کے ساتھ روٹی کھا لوں گا، جب فرمائش کی تو پھر جھٹکا لگا کہ گیس نہیں ہے۔ گھر کی میڈ نے بتایا کہ گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے اور ہمارے علاقے کے لئے گیس کی دستیابی کے اوقات صبح 6 بجے سے 9بجے، پھر دوپہر 12بجے سے 2 بجے تک اور رات کے لئے 6بجے شام سے رات 9بجے تک گیس ملے گی یوں گیس کا دورانیہ صرف 8گھنٹے رہ گیا اور 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ رہے گی، اس دوران بھی پریشر میں کمی ہو گی۔ یوں اب اوقات کار دفتری معمول کے نہیں لوڈشیڈنگ کے مطابق ہوں گے، ناشتہ مجبوراً ڈبل روٹی، جام سے کیا اور دفتر چلے آئے یوں اندازہ ہوا کہ سرکار نے معیشت کو سنبھالنے کے لئے عوام سے یہ قربانی بھی بن مانگے کے لے لی ہے اور غریب مزدور تنور والوں کی دوکان داری میں اضافہ کر کے ان کی معیشت بحالی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
ابھی گزشتہ روز ہی ہمارے وزیر خزانہ جو ایک بڑے بنک کی لاکھوں روپے ماہانہ کی ملازمت چھوڑ کر خدمت کے لئے تشریف لائے ہیں کہہ رہے تھے ٹیکس تو اکٹھا کرنا ہے تاہم بوجھ تنخواہ دار طبقے اور تاجروں پر تو نہیں ڈالا جا سکتا اور پھر کہا کمی پوری کرنے کے لئے تو بوجھ ڈالنا ہوگا۔ اب معلوم نہیں کہ تاجروں سے ان کی مراد کیا ہے کیونکہ کل تک تو وہ نئی سکیمیں بنا کر ہاتھ دھو کر انہی تاجروں کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ اب یوں محسوس ہوا کہ حسب روایت تاجر بھائیوں کا دباؤ کام آ گیا ہے۔ تاہم تنخواہ دار اور دیہاڑی دار کے حوالے سے جو مہربانہ الفاظ استعمال کئے گئے ان سے حیرت ہی ہوئی تھی جو فوراً ختم ہو گئی اور یہ طبقات بے چارے تو سب سے زیادہ ٹیکسوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ آمدنی میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہے، تنخواہ والے تو براہ راست بھی ٹیکس دیتے ہیں لیکن دیگر بے شمار ٹیکس جو اشیاء کی خریداری۔ بجلی، گیس کے بلوں،نلکے کے بلوں میں اضافے اور اسی طرح بجلی، گیس سے محرومی کے باوجود بھاری بھرکم بل دینے پر مجبور ہیں اور ان میں بھی تو بالواسطہ طور پر متعدد ٹیکس ہیں، احساس ہوا کہ یہی تو وہ حضرات ہیں جن سے وصولی ہو سکتی ہے اور جو چیز خریدیں اس پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دو اور تنخواہ دار تو یوں بھی بے بس ہیں کہ ان کے دہرے کھاتے نہیں ہیں وہ تو تنخواہ وصول کرتے ہیں تو ٹیکس کے لئے کٹوتی ساتھ ہی ہو جاتی ہے وہ تو بچ ہی نہیں سکتے اور اب بجلی اور گیس کی بے تحاشہ لوڈشیڈنگ کا بوجھ بھی تو انہی حضرات پر ہو گا کہ گھر میں پکانے کی بجائے تنور سے لانا پڑے ”تو لگ پتہ جائے گا“ اور لگ رہا ہے، مجھے تو صرف ایک ہی دن میں دو سو کا نقصان ہو گیا باقی دن کیسے گزریں گے اللہ جانے۔
میں اپنے قارئین کی توجہ ایک ایسے مسئلہ کی طرف دلاتا ہوں جس کا نام رگڑ رگڑ کر لیا گیا، وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ نان فائیلر کیلئے حقہ پانی بند کر دیا جائے گا اور یہ نان فائیلر نہ صرف کوئی سواری اور گھر خرید سکیں گے بلکہ ان کو مختلف ٹیکسوں کی ادائیگیوں میں ڈالا گیا بوجھ بھی برداشت کرنا ہو گا۔ ان کی طرف سے یہ ارشاد ہو گیا کہ نان فائیلر قومی سطح پر اچھوت ہو گا ممکن ہے آئندہ اس نان فائیلر سے ہاتھ بھی نہ ملایا جائے اور اس پر جرمانہ ہو میرے لئے حیرت یہ ہے کہ جو حضرات ٹیکس کی شرح سے کم آمدنی والے ہیں وہ تو قدرتی طور پور گوشوارے نہیں بھرتے کہ ان کی آمدنی ہی اتنی نہیں اگر ان کا یہی قصور ہے کہ ان کی آمدنی کم کیوں ہے تو وزیر خزانہ یہ انتظام کیوں نہیں کرتے کہ ایسے نان فائیلر کی آمدنی بڑھا دیں کہ وہ ٹیکس ایبل ہو جائیں پھر ان کو یہ شکوہ نہیں ہو گا لیکن تاحال تو تنخواہ دار طبقے کی بھی بڑی تعداد ٹیکس کی شرح تک کی آمدنی والی نہیں ہے اور یوں وزیر خزانہ کے مطابق ایک ہی ادارے میں اکثر حضرات پریہز گار مسلمان اور دیگر اچھوت ہوں گے میری استدعا ہے کہ حضور اس نان فائیلر کی تشریح تو کر دیں کہ یہ ہے کیا شئے یا پھر بلالحاظ ہر شناختی کارڈ والے کو فائیلر بنا کر اس پر ٹیکس لگا دیں چاہے اس کی آمدنی ہو یا نہ ہو۔ چاہے وہ بے روزگار ہی کیوں نہ ہو، وہ بچ کر نہ جانے پائے کہ وہ ایک اسلامی رفاعی ملک خدا داد پاکستان کا باشندہ تو ہے۔
میں گھر کا سودا سلف لینے خود ہ جاتا ہوں کہ یہ بھی مجبوری ہے یوں بھی بوڑھے آدمی یا تو بچے کھلاتے ہیں اور یا پھر گھر کا سودا سلف لاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے نان فائیلر بوڑھوں کا کام ہی یہی ہے اور فائیلر حضرات کا تو یوں بھی رعب ہوتا ہے کہ وہ آمدنی والے ہوتے ہیں اور اولاد کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں نے گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ عوامی مسائل پر لکھنا چاہتا ہوں تو یہ لکھا ہے اگر کسی کی نظر میں آ جائے کیونکہ آج کل ہمارے مہربان ایسی تحریریں متعلقہ حکام یا حکومت تک جانے ہی نہیں دیتے۔