ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دورِ حکومت کیسا ہو گا؟

   ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دورِ حکومت کیسا ہو گا؟
   ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دورِ حکومت کیسا ہو گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی فیصلہ کن برتری نے امریکہ اور باقی پوری دنیا کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر دیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے خود کو بھی ایک نئی آزمائش سے دوچار کر لیا ہے۔ آزمائش یہ ہے کہ کیا وہ اپنے پیش رو کے اور اپنے ہی پچھلے دور کے اقدامات اور پالیسیوں کے نتائج کو ریورس (Reverse) کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ ایک بہتر دنیا تشکیل دے سکیں گے؟ انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کر سکیں گے؟ اپنے دعووں کو متشکل کر سکیں گے؟ دنیا بھر میں جاری جنگیں بند کرا سکیں گے اور عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بارآور اقدامات کر سکیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی وکٹری سپیچ (Victory Speech) میں تو یہ کہا ہے کہ امریکی شہریوں نے انہیں غیر معمولی مینڈیٹ سے نوازا ہے اور اب ان کا اگلا دور امریکہ کا سنہری دور ہو گا جس میں وہ اپنے ملک کو پھر سے عظیم بنائیں گے۔ کیا وہ اپنے الفاظ کی پاس داری کر سکیں گے؟ یہی آج کے دن کا سب سے بڑا سوال ہے اور امریکہ کا سنہری دور واپس لاتے لاتے کہیں باقی دنیا کا بیڑا غرق تو نہیں کر دیں گے؟ 

جب ٹرمپ 2016ء میں اور اب 2024ء میں صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے تو ان کے کامیاب ہونے کے بارے میں کئی طرح کے شبہات ظاہر کیے گئے اور متفرق وجوہات بیان کی جاتی رہیں لیکن دونوں بار ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام تر شبہات کو دور اور وجوہات کو غلط ثابت کر دیا۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو ایک ٹرم کے وقفے سے دو بار منتخب ہوئے اور دونوں بار خواتین کو ہرا کر برسرِ اقتدار آئے۔ 2016ء میں ٹرمپ نے اپنی حریف ہلیری کلنٹن کے خلاف پہلی کامیابی حاصل کی تھی۔ امسال یعنی 2024ء میں دوسری فتح انہوں نے کمالا ہیرس کے خلاف حاصل کی ہے۔ ان کے نئے دور ِحکومت کے بارے میں اب جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیا وہ ان کو غلط ثابت کر سکیں گے اور ان سے جو اُمیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں،آیا وہ ان پر پورا اتر سکیں گے؟

امریکی صدارتی الیکشن ایک پیچیدہ معاملہ یا یوں کہہ لیں کہ ٹیڑھی کھیر ہوتے ہیں۔ امریکہ میں لوگ اپنے من پسند امیدوار کے لیے براہ راست ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ تکنیکی لحاظ سے وہ اس الیکٹر (Elector) یا انتخاب کرنے والے کو منتخب کرتے ہیں جو الیکٹورل کالج کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ الیکٹر پھر آگے صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ الیکٹرز کا انتخاب ہر ریاست میں الیکشن کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ اس طرح امریکی صدر قومی ووٹ کے بجائے علاقائی انتخابات جیت کر برسر اقتدار آتا ہے۔ یہ تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ امریکہ میں الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے اور یہ تعداد ہمیشہ اتنی ہی ہوتی ہے۔ اس تعداد میں ایوان نمائندگان کے 435 ممبران، ایک سو سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے تین ارکان شامل ہوتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ جمعرات کی صبح تک کی صورت حال یہ ہے کہ کل 538 میں سے ڈونلڈ ٹرمپ 295 سیٹیں یا الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیں اور پاکستان میں مستعمل الفاظ استعمال کیے جائیں تو دو تہائی اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی مد ِمقابل کاملا ہیرس 226 ووٹ حاصل کر سکی ہیں۔

اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ایسے اقدامات کیے تھے جو اپنے اثرات کی وجہ سے لوگوں کو اب بھی یاد ہیں۔ انہوں نے فوج کے لیے مختص فنڈز کو امریکہ اور میکسیکو کے مابین سرحد پر بلند دیوار تعمیر کرنے کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دیوار کا مقصد میکسیکو سے تارکینِ وطن کی امریکہ غیر قانونی آمد کو روکنا تھا۔ وہ اپنے اس ارادے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ میکسیکو بارڈر سے لوگوں کی غیر قانونی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پھر انہوں نے        غیر قانونی تارکین وطن کے لیے خاندانی علیحدگی کی متنازع پالیسی نافذ کی تھی۔ پالیسی یہ تھی کہ سرحد پار کرنے والے والدین اور ان کے بچوں کو حراست میں لے کر ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک شام،ایران،لیبیا،عراق،صومالیہ،سوڈان اور یمن سے لوگوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی تھی تاکہ انتہا پسندوں کی امریکہ آمد کا سدِ باب کیا جا سکے۔ وہ اس پالیسی میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنے ملک کو پیرس ماحولیاتی معاہدے اور ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ایک اور متنازع اقدام امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے کیا تھا۔ اسی طرح وہ اپنے پہلے پورے دور میں چین کو اقتصادی لحاظ سے پچھاڑنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ انہوں نے متعدد چینی پروڈکٹس پر متعدد بار ڈیوٹیز میں اضافہ کیا تاکہ چین کو اقتصادی لحاظ سے نیچا دکھایا جا سکے۔ کورونا عالمی وبا کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں تنقید کا نشانہ بنیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کو بھاری جانی اور مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ انہوں نے کئی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بگاڑے۔ ان پر یہ الزام بھی لگا کہ روس نے 2016ء کے انتخابات میں ان کی مدد کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر 2020ء کا الیکشن ہارنے پر اپنے حامیوں کوکیپیٹل ہل(Capitol Hill) کے باہر جمع کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کا الزام بھی لگا۔  

ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اب اس نئے دور میں بھی کئی مسائل اور معاملات موجود ہیں انہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی،جیسے اسرائیل فلسطین جنگ،اسرائیل کے لبنان پر حملے اور ایران کو دھمکیاں،ایران امریکہ تعلقات،ان کی اپنی چھیڑی ہوئی امریکہ چین معاشی جنگ،پونے تین برسوں سے جاری روس یوکرین جنگ،بین الاقوامی معیشت،افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں، موسمیاتی تبدیلیاں اور پاک امریکہ تعلقات۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس نئے دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھ سکیں گے اور کیا عالمی سطح پر کچھ امن اور سکون پیدا ہو سکے گا؟ ان سوالات کے جوابات ظاہر ہے آنے والا وقت ہی دے گا۔ بہرحال پوری دنیا کی نظریں اس وقت وائٹ ہاؤس پر لگی ہیں کہ وہاں سے کیا برآمد ہوتا ہے؟

مزید :

رائے -کالم -