کملا ہیرس کی تقریر پر حیرت کیوں؟
ہم سب اِس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ امریکی انتخابات میں ہارنے والی کملا ہیرس نے اپنی شکست کو اتنے کھلے دِل سے کیسے تسلیم کر لیا ہے،نہ صرف تسلیم کیا ہے، بلکہ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکہ کی بہتری کے لئے اٹھائے جانے والے ہر قدم پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔نتائج کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو جیتنے پر مبارکباد بھی دی اور خطاب بھی ہنس ہنس کے کیا ہے۔اب سوال یہ ہے جو امریکی کرتے ہیں ہم کیوں نہیں کر سکتے تو جواب دینے سے پہلے بہت کچھ ایسا ہے جسے مدنظرکھنا ہو گا، امریکی صدرکا انتخاب شاید انتخابی عمل کے لحاظ سے دنیا کا مشکل ترین انتخاب ہے،نتائج تو اب آئے ہیں تاہم ووٹنگ کاعمل بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ میرے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو ووٹ ڈال کے پاکستان آئے اور اب یہاں بیٹھ کے نتائج دیکھتے رہے،دھاندلی کے امکانات کو زیرو کر دیا گیا ہے اور اس عمل میں الیکشن کمیشن یا اسٹیبلشمنٹسمیت کوئی بھی مداخلت نہیں کر سکتا،اتنی شفافیت کے بعد جب نتیجہ آتا ہے تو کوئی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ کملا ہیرس خود ملک کی نائب صدر ہیں وہاں نگران حکومتوں کا ڈرامہ بھی نہیں کیا جاتا،جو صدر ہے وہ صدر رہتا ہے، بلکہ نئے امریکی صدر کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بھی تقریباً دو ماہ صدرکے منصب پر اُن کی موجودگی برقرار رہتی ہے،ہماری ایمانداری کا عالم یہ ہے یہاں منتخب وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو انتخابات سے90دن پہلے گھر بھیج کر غیر نمائندہ افراد عہدوں پر بٹھا دیئے جاتے ہیں جن کا نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے،انتخابات شفاف نہ ہوئے تو قوم کو کیا جواب دیں گے،وہ اسٹیبلشمنٹ کے آلہئ کار بن جاتے ہیں،کہنے کو انہیں غیر جانبدار حکمرانوں کے طور پر لایا گیا ہوتا ہے،اب ہم حیران ہیں کملا ہیرس نے اتنی بڑی ہار کیسے کھلے دِل سے تسلیم کر لی۔وہ بھی دھاندلی کا الزام لگا سکتی تھی، نتیجہ بروقت نہ دینے، آخر وقت پراُس میں تبدیلی کرنے کے الزامات لگاتی اور تحریک چلانے کا اعلان کر دیتی۔ہزاروں حامیوں کو اشتعال دلاتی اور سڑکوں پر ہنگامے کرنے کی راہ دکھاتی،مگر یہ سوچتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی نظام اتنا کھوکھلا نہیں، اُس میں اتنے سوراخ نہیں رکھ دیئے گئے کہ راتوں رات کوئی غیبی طاقت 80ہزار کی لیڈ کو 50ہزار کے خسارے میں بدل دے، وہاں فارم45 یا فارم47 جیسا کوئی ڈرامہ بھی نہیں ہوتا، ہر چیز واضح اور کمپیوٹرائزڈہے جس کے حق میں پرچی ڈالی گئی دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے وہ اس کے حق میں شمار ہو گی۔ ہمارا نظام انتخاب کسی گلی محلے کے انتخابی عمل پربھی پورا نہیں اُترتا۔ آٹھ فروری کے بعد نتائج کی جو گرد اُڑی وہ سب کے سامنے ہے پھر ایسا دقیانوسی نظام ہے کہ انتخابی عذر داری کا فیصلہ پانچ سال تک نہیں ہوتا اور مدت ختم ہو جاتی ہے۔ہم یہ توکہتے ہیں ہر الیکشن کے بعد احتجاج کیوں ہوتا ہے،الزامات لگتے ہیں، سیاستدان کھلے دِل سے نتائج تسلیم کیوں نہیں کرتے،مگر یہ نہیں دیکھتے کہ آخرعوام بھی اُن نتائج سے مطمئن کیوں نہیں ہوتے؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ اُن کا ووٹ چُرا لیا گیا ہے۔
میں نے امریکہ میں مقیم اپنے دوستوں سے بات کی ہے ان میں بڑے معروف شاعر،صنعتکار، بزنس مین اور پروفیسر بھی شامل ہیں،یعنی وہ ایسے لوگ نہیں جو رائے عامہ سے متاثر ہوتے ہوں،بلکہ وہ رائے عامہ بنانے والے لوگ ہیں انہوں نے ایک ہی بات کی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جیتنا تھا تھا وہ جیت گئے۔دنیا میں چاہے انہونی محسوس ہوتی ہو یہاں امریکہ میں یہ کوئی اَپ سیٹ نہیں ہوا،بلکہ عین توقع کے مطابق رزلٹ آیا ہے۔ایک دوست نے بتایا اُس کی فیملی کے چھ ووٹ تھے وہ سب کے سب ووٹ ٹرمپ کو ڈالے گئے۔یہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے، کیونکہ جنریشن گیپ کی وجہ سے اگر بزرگ کسی ایک کو ووٹ دیتے ہیں تو ضروری نہیں اُن کے بچے بھی اُسی کو ووٹ دیں لیکن اس باریہ حیران کن رجحان دیکھا گیا کہ بچوں اور بڑوں دونوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا اس لہرکو کوئی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔امریکی عوام میں اپنے انتخابی عمل پراندھا یقین ہے یہی یقین وہاں زیادہ ٹرن آؤٹ کا باعث بھی بنتا ہے، کیونکہ جب آپ کو یقین ہو ملک میں اگلے چار سال کے لئے صدر آپ کے ووٹ سے بنتا ہے اور دوسرا کوئی راستہ نہیں تو آپ پوری ذمہ داری سے ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں اُن کی باتیں سن کر میں سوچنے لگا ہمارے عوام کو کتنی ہوشیاری سے اس اعتماد سے محروم کر دیا گیا ہے کہ ان کے ملک میں تبدیلی ووٹ سے آئی ہے، اس بار جو انتخابات ہوئے اُن کی وجہ سے عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے اُن میں شرح مایوس کن حد تک کم رہی،جب رفیق کو ووٹ ڈالنے والے دیکھتے ہیں بیلٹ بکس سے توفیق کے نام ووٹ نکلا ہے تو انہیں قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا ایک بیوقوفی نظر آتی ہے۔اب سوشل میڈیا پر عوام کی اجتماعی دانش اگر کملا ہیرس کی ایسی تصویریں لگا رہی ہے جس میں وہ ہمارے چیف الیکشن کمشنر سے امریکہ آ کرکوئی جادوگری دکھانے کی خواہش کر رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم جان چکے ہیں مرض کہاں ہے اور کس نے اس سب سے اہم حق کو سلب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
کیا یہ ہماری سردردی یا مینڈیٹ ہے کہ ہم امریکی عوام سے پوچھیں انہوں نے چار مقدمات میں ملوث شخص کو امریکی صدر کیوں منتخب کیا ہے، کیا یہ باتیں کرنے کی ہیں کہ رنگین مزاج اور تین شادیاں کرنے والا ٹرمپ امریکی صدر بن گیا ہے اسے کہتے ہیں پلے نئیں دھیلہ تے کر دی میلہ میلہ یا پھر اسے یہ کہنا چاہئے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔باتیں تو ہم یہ ایسے کرتے ہیں جیسے امریکی عوام اندھے ہیں اور انہیں کچھ معلوم نہیں۔یہ باتیں ہارنے کے بعد کملا ہیرس نے کیوں نہیں کیں،وہ بھی کہہ سکتی تھی ایک مجرم کو صدر بنا کر عوام نے غلطی کی ہے اب اس کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑے گا یہ ہمارے یہاں ہے کہ جھوٹے سچے مقدمے بنا کرپھر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ کرپٹ ہے، ظالم ہے، ملک دشمن ہے،غدار ہے، جب عوام کسی کومینڈیٹ دے دیتے ہیں تو وہ سب سے بڑی گواہی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں چونکہ مینڈٹ کا احترام کرنے کی روایت ہی نہیں، پھر یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ منتخب ہونے والے وزرائے اعظم کو مدت ہی پوری نہیں کرنے دی جاتی،اس لئے ہم اُس جیسے استحکام کی توقع نہیں کر سکتے جو امریکہ کو حاصل ہے۔ کملا ہیرس نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اب ہمیں اگلے چار برسوں تک ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا احترام کرنا ہے اُن کی پالیسیوں پر تنقید کی جائے گی جو ہمارا حق ہے۔اچھی باتوں کو سیکھنا چاہئے اور اپنانا بھی چاہئے،مگر ہم صرف بری باتوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں جب تک اس ملک میں عوام کو اہمیت نہیں دی جائے گی اُنہیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر، اُن کی آواز دبا کر اور انہیں غلام رکھ کر ملک چلانے کا رویہ تبدیل نہیں ہو گا،اُس وقت تک ہم صرف حیرت سے دنیا میں ہونے والے واقعات ہی کو دیکھ سکیں گے۔
٭٭٭٭٭