بس،بس بہت ہو گئی!
آؤ کبھی تو کسی دوسرے کا احتساب کرنے سے پہلے اپنا احتساب کریں،ہم نے اپنے سوا سب کا احتساب کیااور جی بھر کے کیا،ہر وہ بیماری اور نقص جو ہما رے اندر نقطہ عروج پہ تھا وہ ہمیں دوسرے میں نظر آیا اور ہم تیز دو دھاری تلوار لے کر اس کی گردن اُڑانے نکل پڑے۔نہ جانے کس نے ہمار ے ذہنوں کو گرد آلود کر دیا،ہم سے کہاں غلطی ہو گئی،میں،میرا پیر،میرا سکول،میرا علم،میری ڈگری اور میرا لیڈر ا علیٰ نسل بھی ہے اور عقل کل بھی، میری سوچ قابل عمل بھی اور معتبر بھی باقی سب فتنہ فساد۔ملک اور قوم کی خدمت صرف میں اور میرا لیڈر ہی کر سکتا ہے، جس کے لئے اسے کسی قانون اور مشاورت کی ضرورت بھی نہیں۔ میرے سوا سب ملک دشمن و تخریب کار،مجھے یہ حق ہے جس کی چاہے پگڑی اچھال دوں،کسی دوسرے کی رائے سننے کو بھی تیار نہیں اگرچہ وہ درست ہی کیوں نہ ہو۔محب وطن اگر کوئی ہے تو صرف اور صرف میری ذات۔آج ملک جس حال میں ہے وہ سب جانتے ہیں مگر مانتے نہیں،جس طرح ہم مسلمان خدا اور نبی کو تو مانتے ہیں مگر ان کی نہیں مانتے۔سچ بولنا ناپید سا ہو گیا، مہنگائی نے غریب کا جینا محال کر دیا، صحت وتعلیم کا برا حال ہو چکاہے،پارلیمنٹ میں عوام کے لئے کسی پالیسی کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں۔ابھی بھی وقت ہے واپس لوٹ آنے کا سچ بولنے کا،عوام صبر بھی کر چکے اور خاموش بھی رہے، مگر اب شاید مزید گنجائش نہیں۔ صرف لوگ دن میں دو گھنٹے اس ملک کے لئے سوچنا شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں ہم نہ صرف اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو جائیں گے،بلکہ بہت جلد دنیا میں اپنا سر فخر سے بلند کر سکیں گے جو ذلت اور محرومی کی وجہ سے ساری دنیا سے بہت پیچھے آخری سانس لے رہے ہیں۔کیا ہم کسی دوسرے کو معاف کر سکتے ہیں، دوسرے کو کیا ضروری ہے اس کے لئے کوئی معافی طلب کرے،کیا یہ سوچے کہ مجھ سے بھی کبھی کچھ غلط ہوا ہو گا سامنے والے کو معاف کیا جا سکتا ہے۔معافی مانگنے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ قصور وار ہے،یہ اس بات کی بھی گواہی ہو سکتی ہے کہ معافی مانگنے والے کو رشتوں کو قائم رکھنے کی اہمیت کا اندازہ ہے اور یہ قابل ِ قدر بات ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے چند بڑوں کو خود سے آگے آنا چاہئے اور افراتفری کو ختم کرنے کی کوشش شروع کر دینا چاہئے۔