راشد منہاس

راشد منہاس اگرچہ کراچی میں پیدا ہوئے لیکن ان کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کے آباؤ اجداد نارووال کے تاریخی قصبہ قلعہ سوبھا سنگھ میں رہتے تھے اور ان کا پرانا گھر بھی ابھی تک وہاں ہی ہے جو ان کے خاندان نے بعد میں فروخت کر دیا تھا تاریخ کے مطابق راشد منہاس کے دادامیاں محمد عبداللہ خاں منہاس ولد میاں بھولے خاں منہاس کی قبر اور دادی کی قبر ابھی بھی قلعہ سوبھا سنگھ نارووال میں ہے ان کے خاندان کے قریبی رشتہ دار بھی اسی قصبہ قلعہ صوبہ سنگھ میں رہتے ہیں راشد منہاس جنہیں غیر معمولی کارنامہ سرانجام دینے پر حکومت پاکستان نے ”نشانِ حیدر“ جیسے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا، نے جو کارنامہ سرانجام دیا، اْس کی مثال دنیا کی پوری فضائی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ان کے خاندان کے قریبی رشتہ دار عارف اے نجمی کے مطابق جو ابھی بھی قلعہ احمد آباد میں مقیم ہیں راشد منہاس کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا۔ یہ خاندان جموں و کشمیر میں آباد ہوا اور یہیں مشرف بہ اسلام ہوا۔ چار گاؤں کی ملکیت کے ساتھ یہ خاندان سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی کا مالک تھا، لیکن اللہ اور اْس کے رسولؐ پر ایمان لاتے ہی اپنے علاقے سے ہجرت کر گئے۔ کچھ عرصہ گورداسپور میں قیام کرنے کے بعد ضلع سیالکوٹ کے گاؤں قلعہ سوبھا سنگھ (قلعہ احمدآباد) میں مقیم ہو گئے۔ عبداللہ خاں منہاس قلعہ احمدآباد کے مقام والے قبرستان میں مدفون ہیں۔راشد منہاس کے دادا میاں عبداللہ خاں منہاس پابندِ صوم و صلوٰۃ اور تہجد گزار بزرگ تھے۔ وہ بڑے فیاض اور محب رسولؐ تھے اور اس محبت کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھتے تھے۔میاں عبداللہ خاں منہاس سیالکوٹ میں بک بائنڈنگ کا کام کرتے تھے اور اپنی روایتی ایمانداری اور نیک نیتی کی وجہ سے انہوں نے بہت ترقی کی۔ یہی اوصاف اْن کی اولاد میں بھی تھے۔ ان کے نو بیٹے تھے۔ وہ سب کے سب نیک اور باکمال تھے۔ راشد منہاس کے والد میاں عبدالمجید خاں منہاس نے میٹرک کا امتحان پسرورضلع سیالکوٹ سے نمایاں پوزیشن میں پاس کیا۔
بعدازاں مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور انٹر پاس کرنے کے بعد لاہور چلے آئے اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ راشد کے تایا میاں عبداللطیف خاں منہاس اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ وہ قانون گو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، جبکہ دیگر لوگ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔راشد منہاس شہید 17فروری 1951ء میں کراچی میں فضائیہ ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ گویا زندگی کی ابتدا میں ہی فضائیہ سے تعلق قائم ہوا۔ دبلے پتلے، لیکن چست اور پھرتیلے تھے۔ کتابوں، رسالوں اور اخبارات میں صرف جہازوں کی تصاویر دیکھنا پسند کرتے۔ وہ دوسرے بہن بھائیوں میں منفرد تھے۔ مذہب سے خاص لگاؤ تھا۔ راشد نے اپنی والدہ محترمہ سے بہت کچھ سیکھا،جو عملی زندگی میں اْن کے بہت کام آیا۔ سینئر کیمبرج کے امتحان کے بعد ابھی نتیجہ بھی نہیں نکلا تھا کہ انہوں نے ایئر فورس میں اپلائی کر دیا۔ والد کی خواہش تھی کہ راشد اْن کی طرح انجینئر بنیں، لیکن اْن کے ذہن میں کچھ اور ہی سمایا ہوا تھا۔ تاہم وہ اس بات سے قطعی بے خبر تھے کہ آگے چل کر انہیں کیا رتبہ، عزت اور مقام ملنے والا ہے۔ ایئر فورس میں اپلائی کر نے کے بعد جب اْن کا انٹرویو ہوا تو اْن کی پوزیشن دوسرے لڑکوں میں نمایاں تھا۔ وہ انٹرویو میں کامیاب ہوئے۔ اس طرح ایئر فورس کے لئے بحیثیت پائلٹ منتخب ہو گئے۔ 1968ء میں تربیت کے لئے کوہاٹ چلے گئے۔ ان کی بہترین کارکردگی پر انہیں مزید تربیت کے لئے رسالپور بھیجا گیا۔ یہاں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی سے فلائٹ کیڈٹ کی ٹریننگ حاصل کی۔ 15اگست 1971ء کو وہ پائلٹ افسر بن گئے۔راشد منہاس بچپن ہی سے غیر معمولی صلاحیت اور ذہانت کے مالک تھے۔ عسکری خیالات انہیں خدا نے بچپن ہی سے ودیعت کر رکھے تھے۔ وہ جہازوں اور ان کی مشینری سے خاص رغبت رکھتے تھے۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ انہوں نے جب بھی بچپن میں اپنے لئے کھلونوں کا انتخاب کیا۔ ہمیشہ جہازوں کو پسند کیا۔ راشد منہاس بچپن ہی سے بہت حاضر جواب، قدرے شریر اور ظریفانہ طبیعت کے حامل تھے۔ ایک بار وہ اپنے کتے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ان کے والد مجید منہاس نے دیکھا تو کہا کتے کوہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ وہ پلید اور نجس ہے۔ چند دن گزر گئے۔ ایک دن راشد کے والد نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ پیچھے باندھے کتے سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے والد کو اِس منظر پر بڑی حیرت ہوئی۔ ابھی وہ کچھ کہنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ راشد نے معصومیت سے کہا ”مَیں کتے کو ہاتھ نہیں لگا رہا۔ اب تو میرے ہاتھ پلید نہیں ہوں گے“۔راشد منہاس ایک جگہ زندگی کی بے ثباتی کو زیر بحث لاتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”انسان فانی ہے اور موت برحق ہے۔ اسے ایک نہ ایک روز ضرورجانا ہے۔ کوئی شخص ابد تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ اپنی مختصر زندگی میں کوئی اچھا کارنامہ سرانجام دے۔ اگر ممکن ہو تو عمر مْلک و ملت کی خدمت میں گزار کر نیک نامی حاصل کرے“۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں امریکی صدر ابراہام لنکن، سابق صدر ایوب خاں، ہٹلر اور پیٹرک ہنری کے قول بھی لکھ رکھے تھے۔ ایوب خاں کا یہ قول انہیں بے حد پسند تھا ”آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو“۔
راشد منہاس 20اگست 1971ء کو اپنے بنگالی انسٹرکٹر مطیع الرحمن کے ساتھ معمول کی تربیتی پرواز پر تھے۔ اس غدارِ وطن انسٹرکٹر نے جہاز کو بدنیتی سے اغوا کر کے انڈیا لے جانا چاہا اور اس مقصد کے لیے پرواز بھی شروع کر دی۔ راشد منہاس نے جب دیکھا کہ بنگالی انسٹرکٹر کے عزائم ٹھیک نہیں اور وہ جہاز کو انڈیا لے جا رہا ہے تو انہوں نے کاک پٹ میں اپنے انسٹرکٹر سے شدید مزاحمت کے بعد جہاز کی کمان چھین لی اور بنگالی انسٹرکٹر کی اس کوشش کوناکام بنانے کے لیے جہاز کو زمین سے ٹکرا دیا۔ اس واقعہ میں غدار بنگالی انسٹرکٹر تو جہنم واصل ہوا ہی، راشد منہاس نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ اس غیر معمولی کارنامے پر حکومت پاکستان نے انہیں نشان حیدر جیسے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا۔ گھر والوں کو اپنے سب سے چہیتے بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملی تو اْن کی آنکھیں ضرور نم اور سوگوار ہوئیں، لیکن ٹائم سینے فخر سے تن گئے۔ راشد منہاس آج ہم میں نہیں، لیکن راشد حوصلے، بہادری و جرات اور وطن سے محبت کی ایسی داستان رقم کر گئے جو کبھی بْھلائی نہیں جا سکے گی۔ ہمیں فخر ہے راشد منہاس ایسی قوم کا بیٹا ہے، جس کی فوج کی تاریخ دلیری کے ایسے کئی کارناموں بھری ہوئی ہے: 14 مارچ 1971ء نوجوان راشد منہاس کی زندگی کا ایک تاریخی اور یادگار دن تھا کیونکہ اس روز ان کے کندھوں پر پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر کے رینکس آویزاں کیے گئے تھے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چند روز گزارنے کے بعد راشد منہاس مسرور پہنچے جہاں انہیں T-33 پر Conversion Course میں حصہ لینا تھا اور اپنی قسمت میں لکھے فیصلے سے بے خبر راشد نے سکواڈرن ٹو کے ساتھ فلائنگ ٹرینگ کا آغاز کیا۔ ایک بات جو بہت ضروری ہے وہ ان کے خاندان کے متعلق ہے ظفروال درمان سے چند کلو میڑ کے فاصلہ پر مقبوضہ کشمیر کی سرحد ہے ان کا خاندان وہاں سے ہجرت کر کے قلعہ سوبھا سنگھ آن بسا تھا تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ منہاس راجپوت کے کئی خاندان کشمیر سے ظفروال پاکستان میں آباد ہو گئے تھے۔ پورے پاکستان میں منہاس پاکستان میں کہیں بھی رہتے ہیں ان کا اوریجن ظفروال کی پٹی سے ہے۔