اشرافیہ پھر جیت گئی، دوست واجد شیخ کی لندن سے آمد!

   اشرافیہ پھر جیت گئی، دوست واجد شیخ کی لندن سے آمد!
   اشرافیہ پھر جیت گئی، دوست واجد شیخ کی لندن سے آمد!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک طرف مجاہدین ملک کے چرچے تھے۔ ٹیلیویژن والوں نے حق ادا کیا، اسی دوران حادثہ کار ساز کراچی کی خبر بھی چلی اور اسی زور شور میں گزر بھی گئی، اگرچہ خبر عام دنوں میں نشر ہوتی تو اب تک سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوتا لیکن اب ایسا بھی نہ ہوا سب چپ ہیں کہ ابتدا ہی سے یہی سب نظر آ رہا تھا۔ خبر یہ ہے کہ اشرافیہ کی خاتون نے نا معلوم جوش، ہوش یا فراموشی میں دو افراد کی جان لے لی، ایک غریب پاپڑ فروش کو اس کی بیٹی سمیت اپنی کروڑوں کی لینڈ کروزر سے کچل دیا، باپ اپنی ہونہار بیٹی کو کالج سے لے کر واپس آ رہا تھا۔ ڈرائیور نتاشا کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور وہ بڑے مالدار گھرانے کی فرد ہے، حادثے کے بعد جب پولیس نے اسے حراست میں لیا تو وہ اپنے ہوش میں  نہیں تھی، بال بکھرے اور  جھوم رہی تھی، دیکھنے اور نشریات کی خبروں کے متلاشی افراد نے واضح طور پر محسوس کیا کہ خاتون کسی نشہ کے اثر میں ہے دولت کا نشہ تو یوں بھی سوار ہی ہوتا ہے، بہر حال گرفتاری تو ہو گئی اور کراچی پولیس کی تمام تر ”ہمدردی“ کے باوجود ملزمہ تھانے اور وہاں سے جیل پہنچ گئیں، اسی دوران یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ملزمہ کا خاندان ان اموات کے بدلے ”دیت“ دے کر معاملہ طے کرے گا اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت واویلا ہوا اس بناء پر ملزمہ کے خون اور پیشاب کے نمونے فرانزک کے لئے بھجوا دیئے گئے اور نتیجے کا انتظار شروع ہوا، نتیجہ آیا تو واضح تھا کہ ملزمہ حادثہ کے وقت آئس کے نشے میں تھی اور اسی حالت میں حادثہ ہوا اور دونوں باپ بیٹی اللہ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ گھر میں تو صف ماتم بچھنا ہی تھی تاہم میڈیا نے مظلوموں کا بھرپور ساتھ دیا۔

اسی دوران یہ خبر بھی چلی کہ موصوفہ کا ڈرائیونگ لائسنس برطانوی ہے پولیس با اثر لوگوں کے سامنے تھی اور اسے بھی جواز بنانے لگی، افسوس تو یہ ہے کہ بار بار برطانوی اجازت نامے کا ذکر ہوا لیکن کسی نے ذرا آگے بڑھ کر یہ تحقیق نہ کی کہ خاتون دہری شہریت کی حامل ہیں یا نہیں، کیونکہ برطانوی ڈرائیونگ تو برطانیہ ہی کے شہریوں کے لئے ہوتا ہے۔ تاہم یہ بالکل نہ پوچھا گیا کہ ملزمہ برطانوی شہریت کی حامل بھی ہیں یا نہیں، ہماری پولیس نے روائتی طور پر معاملے کو نمٹایا اور ملزمہ جیل چلی گئی۔ اس اثناء میں لندن میں مقیم ہمارے دوست صحافی ثقلین امام کی فیس بک پر ایک پوسٹ سے پتہ چلا کہ ملزمہ کے خاندان والوں نے دیت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ثقلین امام کا خیال تھا کہ پسماندگان کو یہ پیشکش قبول کر لینا چاہئے یہاں فضا جذباتی تھی۔ تاہم ملزمہ کے لواحقین زیادہ سمجھدار تھے، انہوں نے کسی ہنگامہ اور شور کے بغیر یہ مرحلہ طے کر لیا۔ چنانچہ دو روز قبل جب ملزمہ کے لئے بعداز گرفتاری درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی تو ساتھ ہی غریب پاپڑ فروش کے پسماندگان کا حلف نامہ بھی شامل تھا جس کے مطابق انہوں نے ملزمہ کو معاف کر دیا اور حادثے کو حادثہ ہی تسلیم کر لیا تھا۔ یہاں کسی معاوضے اور دیت وغیرہ کا ذکر نہیں تھا اور نہ  ہی یہ بتایا گیا کہ معاملات کیا طے پائے، ذکر صرف اتنا ہی تھا کہ ملزمہ کو معاف کر دیا اور ان کی طرف سے ضمانت کی کوئی مخالفت نہیں۔

قارئین کرام! اب یہ کوئی پیچیدہ اور پر اسرار مسئلہ نہیں رہا کہ یقیناً غریب لوگوں نے یہ جان کر کہ ان کو مقدمہ کی پیروی سے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ ان کو   (اشرافیہ) اپنی حیثیت کے باعث بڑے قابل وکیلوں کی وکالت بھی حاصل تھی۔ چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا انہوں نے پسپائی اختیار کر لینا ہی مناسب جانا، اب ملزمہ کے عدالت سے بری ہو جانے کے چانس واضح ہو گئے ہیں۔ یہ خبر بھی آ ہی جائے گی۔ میں نے  اس حادثے پر اپنے پہلے کالم میں عرض کیا تھا کہ اگر یہ حادثہ ملزمہ سے برطانیہ میں کہیں ہوا ہوتا تو فوری کارروائی ہوتی پہلی فرصت میں لائسنس معطل کر کے قبضہ سرکار میں لیا جاتا اور حادثے کا فیصلہ بھی دنوں میں ہو جاتا۔ ہمارے دوستوں کی رائے ہے کہ برطانیہ میں اب بھی اس خاتون کے لائسنس کی معطلی لازم ہے۔ بشرطیکہ رپورٹ اس عدلیہ تک پہنچ گئی تو فیصلہ بھی جلد ہوگا۔ معلوم نہیں کہ ایسا بھی ہوگا یا نہیں کہ بڑے لوگوں کے کام بھی بڑے ہوتے ہیں، حالانکہ برطانوی لائسنس کی وجہ سے متعلقہ حکام (برطانوی) کو اطلاع دی جانا چاہئے تھی ہمارے دوست اور کالم نگار واجد شیخ لندن سے آئے اور گزشتہ روز (جمعہ) کو دفتر تشریف لائے تھے، ان سے کئی دوسرے امور پر بات ہوتی  رہی لیکن اس وقت تک یہ خبر دیکھی نہ تھی، ان سے تو اپنے احباب کا حال چال دریافت کرنے کے بعد برطانیہ میں نسل پرستوں کے ارادوں اور حالات پر ہی بات ہوئی۔

ہمارے کالم نگار دوست واجد شیخ اپنے والد محترم کی عیادت کے لئے آئے اور ملنے بھی چلے آئے، ان کے بڑے بھائی بھی ساتھ تھے۔ دفتر میں محترم مجیب الرحمن شامی اور ایثار رانا بھی ہماری بات چیت میں شریک ہوئے، میری دلچسپی کچھ عرصہ پہلے برطانیہ میں نسل پرستوں کے حملے اور حالات کے بارے میں تھی میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حکومت نے قانونی اقدامات کے ذریعے فساد پر تو قابو پا لیا ہے لیکن ہراس ابھی موجود ہے،اگرچہ حکومت نے گرفتاریوں، چالان اور عدالتی کارروائی کے لئے دن رات کام کیا اور سزائیں بھی ہوئیں انہوں نے بتایاکہ مجموعی طور پر حالات نارمل ہیں لیکن فضا میں ایک تناؤ سا موجود ہے۔ میں نے اپنے ذہنی تفکر کے حوالے سے سوال کیا کہ ان فسادات کو ہوا دینے میں صیہونی لابی سرگرم عمل ہو گی کہ برطانیہ میں عوام غزہ مظالم پر بے چین تھے اور مظاہرے بھی ہو رہے تھے اور اب ان میں کمی بھی آ گئی ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ تاثر وہاں بھی موجود ہے اور یہ قرین قیاس ہی نہیں ممکن ہے ویسے بھی قدامت پسند پارٹی کو لیبر پارٹی کے ہاتھوں شکست پر بہت تکلیف ہے۔ 

واجد شیخ کو اگلے روز (ہفتہ) کو واپس چلے جانا تھا اس لئے یہ محفل حال احوال تک ہی محدود رہی اور وہ مل کر چلے گئے۔ لندن پہنچ کر اطلاع دیں گے۔ برطانیہ میں عام حالات کے حوالے سے وہ مطمئن تھے کہ امن و امان بہتر ہے مہنگائی جو کرونا کی وجہ سے ہوئی اب رک چکی ہے اور شہری عادی ہو گئے ہیں ان سے ساؤتھ ہال کے ریستورانوں کی بھی بات ہوتی رہی جہاں میرے 2003ء دسمبر میں برطانیہ جانے کے دوران انہوں نے پر لطف دیسی (لاہوری) ڈنر کا بڑا اہتمام کیا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کی غلطیوں کو در گزر کرے اور جہاں بھی ہیں سب کی حفاظت کرے۔رہ گئے فلسطینی تو ان کے مصائب میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے کہ امت مسلمہ زبانی بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہی حتیٰ کہ صیہونیوں کی کمپنیوں کے مال کا بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ ہی اسرائیل سے تجارت مکمل طور پر ختم کی۔ یہ کس کا خوف ہے، اللہ کا تو ہو نہیں سکتا اگر اس ذات برحق کا ہوتا تو ہم سب برسر پیکار ہوتے۔

مزید :

رائے -کالم -