پی ٹی آئی کا اصل امتحان شروع
عمران خان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے عوام اور فوج کے درمیان دوری پیدا کر دی ہے،تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے فیلڈ مارشل ایوب خان کیخلاف ایسی ہی تحریک بپا کر دی تھی اور نوجوان گلی کوچوں میں دشنام طرازی پر اتر آئے تھے، بعد میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بھی بھٹو کے جیالے ایسی ہی انٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کے ساتھ متحرک رہنا چاہتے تھے اور جب انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تو زرداری کی مفاہمت کی سیاست کو کوستے پائے گئے۔ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھا جاتا تھا، خاص طور پر انہیں جنرل ضیاء الحق کا روحانی بیٹا بھی کہا جاتا تھا مگر پھر وہ چلے تو سیلِ رواں اور رکے تو کوہِ گراں کی عملی تصویر بن گئے، لوگ ان کے ساتھ جڑتے چلے گئے اور ایک وقت آیا کہ ان کی مقبولیت بھٹو سے بھی بڑھ کر تھی۔ آج کل عمران خان اسی راہ پر گامزن ہیں مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
جنرل مشرف کو اتارکر جنرل ضیاء الدین بٹ کو نواز شریف نے بھی آرمی چیف لگایا تھا مگر وہ بات ان کے اختیار کے زمرے میں گنی گئی تھی۔ عمران خان نے جو کچھ کیا وہ دراصل ایک فوجی افسر کی خواہشِ بد کی تکمیل کے لئے آلہ کار بننے کا جرم ٹھہری ، اگر پاک فوج کے ترجمان کے مطابق دراصل عمران خان نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو اپنے ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جس کے سبب وہ آرمی ایکٹ کے دائرے میں آسکتے ہیں۔ گویا کہ آپ اپنے دام میں صیادآگیا ایسی صورت ان کے گردوپیش گھوم رہی ہے جس کی باس پاتے ہوئے عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ انہیں فوجی عدالت میں ٹرائل کے لئے لے جانے سے روکا جائے۔
9مئی 2023 کے بعد 5اگست کو عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو اس پر عوامی ردعمل آنا فطری بات تھی، ایسا سمجھا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ظلم عظیم کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس تاثر کی بازگشت اس قدر موثر نہ ہوتی مگر سوشل میڈیا پر اندرون ملک اور بیرون ملک بیٹھے بہت سے عناصرنے وہ غل مچایا کہ گھروں میں بیٹھی بے خبر بیبیاں بھی بلبلا اٹھیں کہ عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔اخبار ٹی وی سے زیادہ باخبر سوشل میڈیا کے وی لاگرز نے وہ اددھم مچایا کہ یوں لگا کہ عمران خان کوئی دیومالائی شخصیت ہیں جن کے دیوانے پروانے اور مریدین ان کے مخالفین کو ان کا بال بھی بیکا نہیں کرنے دیں گے۔ خاص طور پر چند ایک ٹی وی چینل تو باقاعدہ طور پر ایک تحریک کا حصہ بنے نظر آئے اور ایک ایسی رائے عامہ ہموار کرنے میں لگے رہے کہ جس کے سبب عمران خان گرفتار ہو کر اسی بے خوفی کا مظاہرہ کرتے رہے جو بطور فاسٹ باؤلر ان کی طبیعت کا خاصہ رہا ہے، اس دوران نہ صرف میڈیا بلکہ عدلیہ میں بھی ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے بوٹے خوب اٹھکیلیاں کرتے رہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک اعتبار سے ناکوں چنے چبوا دیئے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تک تو کھل کر کھیلا گیا اور قانون کی ایک سطر کو کبھی یوں پڑھا گیا تو کبھی یوں پڑھا گیا۔ بظاہر بندوق نواز لیگ کی طرف تھی، مگر اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کے حامی عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایسے ایسے خیالات کا اظہار کرتے پائے گئے کہ کانوں کو ہاتھ لگانے سے معاملہ رفع دفع نہیں ہو سکتا تھا۔
چنانچہ ان تمام حلقوں کو ان کی حدوں میں لانے کے لئے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بہت سے پاپڑ بیلنا پڑے ہیں۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کی، یہی نہیں،بلکہ ایم کیو ایم نے بھی نون لیگ کا ساتھ دیا اور یوں پی ٹی آئی کو دستیاب خاموش حمائت کا خاتمہ ہوا، مگر پی ٹی آئی کے تابوت میں اصل کیل تبھی پیوست ہو سکی جب جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔ اگرچہ اب بھی کئی ایک جگہوں سے ایک ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے مراد یہی ہوتا ہے کہ جیسے بات کرنے والے کہہ رہے ہوں کہ ’گل ای کوئی نئیں‘ مگر جب سے عمران خان کے فوجی عدالت میں ٹرائل کے امکانات بڑھے ہیں تب سے اس پراپیگنڈے میں قدرے کمی آئی ہے۔
اب بھی پی ٹی آئی نواز حلقوں کو امید واثق ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیت جائیں گے اور ان کے برسر اقتدار آتے ہی سب کچھ بدل جائے گا۔ ایک معروف سینیٹر جو کہ اب تک کئی ایک پارٹیاں تبدیل کر چکے ہیں اور ان دنوں عمران خان کے حامی بنے ہوئے ہیں، وہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ امریکہ میں ٹرمپ جیت رہا ہے اور جب ٹرمپ جیت جائے گا تو عمران خان کے خلاف سارے مقدمے ہوا میں اڑ جائیں گے۔
پاک فوج 9مئی کے بعد سے اپنی صفوں میں موجود پی ٹی آئی نواز فوجیوں کو جی ایچ کیو سے باہر کا دروازہ دکھا چکی ہے۔ اب فیض حمید کو اس چکی کے پاٹ میں ڈال دیا گیا ہے، تاہم عمران خان کسی ایک یا دوسرے بہانے معاملے کو نومبر تک کھینچنا چاہتے ہیں،ادھر اسٹیبلشمنٹ بھی سول کی بجائے ملٹری کے اندر ہی احتساب میں سنجیدہ ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی کی طرف سے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور پھونک پھونک کر قدم نہ رکھا گیا توبھٹو کو تو رات کی تاریکی میں پھانسی گھاٹ لے جایا گیا تھا، عمران خان کو دن کی روشنی میں دھوبی گھاٹ لے جایا جائے گا۔پی ٹی آئی کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جس میں نقل لگانے کا کوئی امکان نہیں!