بلوچستان، ریشمی آئینی لچھوں کا متلاشی، آہنی زنجیریں نہیں 

   بلوچستان، ریشمی آئینی لچھوں کا متلاشی، آہنی زنجیریں نہیں 
   بلوچستان، ریشمی آئینی لچھوں کا متلاشی، آہنی زنجیریں نہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہائی کورٹ بار سکھر میں میرا دو تین بار سلسلہ خطاب رہا۔17سال قبل اپنے پہلے خطاب کی تیاری یہ سوچ کر کی کہ سندھ بھٹو کا صوبہ ہے، پہلے لیکچر میں دستور 58سے دستور 73پر پہنچا تو بھٹو صاحب کے لیے یوں کہہ گزرا:"اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،کہ انہوں نے گزشتہ دو تجربات سے سیکھ کر دستور 73 میں آرٹیکل 6رکھا جس نے دستور بلکہ پورے ملک کو بچا رکھا ہے ". یہ کہنا تھا کہ چھ آٹھ وکیلوں کا گروہ چیخنے لگا: "پروفیسر, بھٹو ہو یا اس کا آرٹیکل 6, ہم نہیں مانتے. سن لو، ہم اس ملک کے ٹکڑے کریں گے۔ یہ کریں گے، وہ کریں گے۔۔۔"۔ معلوم ہوا یہ لوگ قوم پرست ہیں۔ بار منتظمین نے انہیں ڈانٹا لیکن باہم چیخ و پکار اور بڑھ گئی، تب میں نے منتظمین کو سمجھایا: "یہ لوگ مجھ سے مخاطب ہیں۔ میں جواب دوں گا, آپ نہ بولیں "۔ منتظمین مجھے گھور کر چپ ہوگئے۔

اب میں روسٹرم چھوڑ کر قوم پرستوں کے بیچ جا کر یوں بولا:"صاحبان، آپ کی چیخم دھاڑ سے تو میں کچھ سننے سے رہا، بہتر ہے کہ آپ دو افراد آگے آ کر اپنا موقف واضح کریں "ابلتے دودھ کا آدھا جھاگ تو وہیں بیٹھ گیا۔ دو لیڈر وکلا آگے آ بیٹھے تو عرض کیا:"اپنا دو ٹوک موقف بیان کریں "موقف یوں سامنے آیا:"ہم آپ سے الگ ہو کر سندھو دیش بنانا چاہتے ہیں،آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے "اب منتظمین کے ساتھ دیگر وکلا بھی چیخنے لگے.بڑی مشکل سے انہیں چپ کرایا اور کچھ یوں تقریر شروع کی:"جناب، ہم سب حاضرین بندوق لاٹھی والے نہیں، گفتگو اور مکالمے والے ہیں،مجھے 10 منٹ بولنے دیں،پھر ہمارا مکالمہ ہوگا۔ سب کو بولنے کا موقع ملے گا"دونوں کی تائید سے میں نے بولنا شروع کر دیا۔ 10منٹ کا خلاصہ یہ تھا:

"حضرات، میں آپ کے جذبہ آزادی کی قدر کرتا ہوں کہ خود آزاد منش انسان ہوں، آپ کو علیحدگی کا حق حاصل ہے، ملک سے علیحدہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں،اس میں تعجب کیا ہے؟ پاکستان جب خود ہندوستان سے علیحدہ ہوا  تو آپ کے جذبہ آزادی کو میں غلط کیوں کہوں؟ آئر لینڈ کے کچھ لوگ بھی برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں،لہٰذا وہاں وقفے وقفے سے ریفرنڈم ہوتا ہے، ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی، کیوبک کے کچھ لوگ کینیڈا سے آزادی چاہتے ہیں، وہاں بھی ریفرنڈم ہوتا ہے۔ انہیں بھی کامیابی نہیں ہوئی، لیکن وہ لوگ جمہوری طریقے سے رائے ہموار کر رہے ہیں، شاید آئندہ کبھی کامیاب ہو جائیں۔سنگاپور یونہی ملائیشیا سے الگ ہوا تھا،یہ انہونی بات نہیں ہے۔ صاحبان، علیحدگی کا دوسرا طریقہ کسی غیر ملکی طاقت کی مدد سے لڑ کر علیحدہ ہونا ہے جو بنگلہ دیش کے بعض لوگوں نے اپنایا، لیکن آج سکھر آ کر علم ہوا کہ علیحدگی کا ایک طریقہ چیخم دھاڑ بھی ہے (قہقہے اور کھسیانی ہنسی)۔ حضرات، آپ ملایا کا ماڈل لے کر سندھ اسمبلی سے اپنے حق میں قرارداد منظور کیوں نہیں کراتے؟ آپ بنگالی بن کر ہتھیار لیے جنگ آزادی بھی لڑ سکتے ہیں، لیکن آپ ہیں کہ چیخے جا رہے ہیں، بھلا کیوں؟ چیخنے سے کبھی آزادی ملی کسی کو؟ آپ چاہتے کیا ہیں، بتائے "؟

10-15 سیکنڈ سناٹا رہا،تب ان کا لیڈر بولا: "پروفیسر صاحب, آپ بات جاری رکھیں "میں نے دستور لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور اگلے دو دن اسی مکالمے میں گزارے،اللہ جھوٹ نہ بلوائے، خود پتا کر لیں۔ ہفتے بعد میں اسلام آباد روانہ ہونے لگا تو وہی قوم پرست وکیل سینہ تانے منتظمین کے آگے کھڑے تھے:"پروفیسر صاحب کو ایئرپورٹ ہم چھوڑیں گے، آپ نہیں "قارئین کرام, یہ دعوی تو نہیں کہ میری تقریر سے متاثر ہو کر وہ قوم پرستی سے تائب ہو گئے تھے، لیکن یہ اندازہ ضرور ہے کہ وہ لوگ ہل ضرور گئے تھے۔ منتظمین نے دو کو گاڑی میں بٹھانا چاہا تو وہ بضد ہو گئے کہ گاڑی بھی ہماری ہوگی، بالآخر فیصلہ ہوا کہ گاڑی ان لوگوں کی ہوگی، منتظمین میں سے دو افراد کی نمائندگی بھی ضروری ہے، وہ بھی اسی گاڑی میں بیٹھ جائیں۔

تو اے کہ حساس ادارہ جات کے سربراہان، اے کہ نامعلوم افراد کے کرتا "دھرتگان،"مسئلہ بلوچستان کا حل میری اس آپ بیتی کی پیروی میں تو نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ان قوم پرستوں ہی کی طرح کسی لمحاتی جذبے کے زیر اثر ملک یا فوج کے خلاف نعرہ زن نوجوان اتنے غدار ہرگز نہیں ہوتے کہ انہیں غائب کر دیا جائے،اپنے صوبائی حقوق کے لیے کھڑے نوجوان توازن کی حدود سے پرے قدم رکھ لیں تو انہیں غائب کرنے کا کوئی جواز نہیں، مشکوک فون نمبر پر کسی رشتے، دوستی یا تعلق کی بنیاد پر انجانے میں کوئی معصوم رابطہ کر بیٹھے تو اسے مہینوں سالوں تک محبوس رکھنے کا جواز کہاں سے مل سکتا ہے؟آج بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ یہی ہے۔ جنرل ایوب کے دور سے یہاں علیحدگی کی کمزور سی تحریک موجود ہے، لیکن ایوب خان نے قرآن کو گواہ بنا کر بلوچ سردار سے وعدہ خلافی کر کے اسے خوب تقویت دی۔ بھٹو مرحوم نے بھی سیاسی انداز کار کی بجائے استبدادی طریقہ اختیار کیا۔ جنرل ضیا شہید وہ پہلا حکمران تھا جس نے اقتدار سنبھالتے ہی اس طرف توجہ کی اور مسئلے کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔ 1978ء تا 2004ء کے 26سال وہ ہیں جن میں بلوچستان سمیت ملک مضبوط و مستحکم سیاسی بنیادوں پر کھڑا تھا۔

پھر جنرل پرویز مشرف نامی بدبخت نے ملک کو خوب نوچا بھمبھوڑا۔وہ پورا عرصہ ہندوستان کا سہولت کار بنا رہا، کنٹرول لائن پر ہندوستان 55 سال تک خاردار تار نہ لگا سکا تھا لیکن اس بدبخت کے دور میں وہ یہ بھی کر گزرا،اس نے اکبر بگٹی کو ناحق قتل کر کے مسئلہ بلوچستان کے گڑھے مردے کو حیات نو دے دی،اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ حکومتوں نے سلجھاؤ کی خوب کوششیں کیں، مسئلہ ختم ہو بھی جاتا لیکن 2017ء کی سیاست زدہ عدلیہ نے ایک شخص سے ناجائز تعلقات کے سبب ہمیں آگ میں دھکیل دیا، پھر کیا بلوچستان اور کیسا پاکستان، انگ انگ سلگ رہا ہے۔

مسئلے کی گمبھیر تا سے انکار ممکن نہیں لیکن پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ مسئلہ سیاست دان اور کچھ فہمیدہ افراد ہی حل کر سکتے ہیں۔ جرنیل اس عمل میں سہولت کار تو ہو سکتے ہیں، مسئلہ حل کرنے سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اے لوگو دیکھو، سنو، اپنا یہ بلوچستان نرم ریشمی آئینی لچھوں سے بندھا حلقہ یاراں میں بخوشی مقید ہے، اسے آئین و قانون اور جنرل ضیاء چاہیے، تم اسے آہن و فولاد میں پا بہ جولاں نہ کرو۔ ناراض قوم پرستوں کے سر پر ہاتھ رکھو، انہیں غائب نہ کرو، ان سے مکالمہ کرو، تضحیک مت کرو۔ جنرل پرویز مشرف مت بنو، یہ بندہ ہائے صحرائی و کوہستانی نگہبان فطرت ہیں، کیا فطرت کے نگہبانوں سے کبھی کوئی جنگ جیت پایا ہے؟ کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی! ارادہ ہے کہ وطن کے اس پیارے حصے پر آیندہ تفصیلاً لکھ کر مسئلے کے ممکنہ حل نشان زد کروں۔

مزید :

رائے -کالم -