’’قومی اداروں کی نجکاری ،گیس کمپنیوں کی تقسیم قومی نقصان‘‘

’’قومی اداروں کی نجکاری ،گیس کمپنیوں کی تقسیم قومی نقصان‘‘
 ’’قومی اداروں کی نجکاری ،گیس کمپنیوں کی تقسیم قومی نقصان‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوئی ناردرن گیس پائپ لائن ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس میں حکومتِ پاکستان براہِ راست اور بالواسطہ طور پر اکثریتی حصہ دار(ساجھے دار) ہے۔ یہ پاکستان کی گیس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔کمپنی خود گیس فراہم کرتی ہے ، یہی اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

جبکہ گیس کی تقسیم اور فروخت فطری طور پر ایک نقصان دہ سرگرمی ہے۔.سوئی ناردرن ایک منافع بخش کمپنی ہے۔ کیونکہ اس کی ترسیل کی آمدن گیس کی تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات کو پورا کر لیتی ہے۔

اب حکومتِ پاکستان نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ گیس کمپنی کو مختلف شاخوں میں تقسیم کر دیا جائے جس کے تحت گیس کی ترسیل بالکل ایک علیحدہ ادارے کے طور پر ہو جبکہ گیس کی تقسیم اور فروخت کی دو علیحدہ علیحدہ شاخیں بنا دی جائیں۔

جب تقسیمِ کا کاروبار بالکل علیحدہ کردیا جائے گا تو یہ شعبہ تباہ ہو جائے گا۔ جس میں چھوٹے پیمانے پر استعمال کنندگان جن میں گھریلو صارفین اور چھوٹے صنعتی اداروں کو کم پریشر کے ساتھ گیس کی فراہمی شامل ہے۔ایس این جی پی ایل کے لئے ’’ کے پی ایم جی‘‘ (Klynveld Peat Marwick Goerdeler/KPMG)نامی دْنیا کی سب سے بڑی اکاونٹس کمپنی نے اس تقسیم کاری کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس سے ہر دو شاخوں کو اس قدر نقصان ہو گا کہ چند برس ہی میں ان کے پاس موجود تمام سرمایہ ختم ہو جائے گا۔ .اس کاروبار کے دیوالیہ ہوجانے کا نتیجہ یہ بر آمد ہو گا کہ : 149اس کمپنی کے نصف سے زائد ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے؛149گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کو گیس سپلائی نہیں کی جائے گی؛149گیس صرف ترسیل انحصاری صارفین جن میں فرٹیلائزر، پاور پلانٹ اور سیمنٹ پلانٹ وغیرہ کو سپلائی کی جائے گی جن کے لئے زیادہ پریشر کے ساتھ ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے؛یہی حال سوئی سدرن کا ہوگا جس کے نتیجے میں سند ھ اور بلوچستان کے گھریلو صارفین گیس کی فراہمی سے محروم رہ جائیں گے۔.

اس کے نتیجے میں 70 لاکھ صارفین تک گیس کی رسائی منقطع ہو جائے گی۔.ریاست کے لئے بھی اس کے نتائج تباہ کْن ہوں گے۔ کیونکہ بلوچستان جو کہ گزشتہ 60 برس سے اب تک پورے پاکستان کو گیس مہیا کر رہا تھا اور اب اس کے گیس کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں ، اسے کہا جائے گا کہ وہ اپنے انہی ذخائر سے اپنے صوبے میں گیس فراہم کرے۔ جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ وفاقی حکومت یہ کہے کہ اب سے تم لوگوں کے لئے ہمارے پاس کوئی گیس نہیں ہے۔

تم لوگ جہنم میں جاؤ۔گیس کے محکمے کو مزید شاخوں میں تقسیم کرنے سے حکومت کا مقصد یہ ہے کہ وہ گیس کی ترسیل کا کاروبار اپنے منظورِ نظر افراد کو بیچ سکے جو چند صارفین کو من مانی قیمتوں پر گیس بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں۔ لیسکو اور فیسکووغیرہ جیسے ادارے بنا کر یہ تقسیمِ کار واپڈا کے ساتھ بھی کی گئی تھی جس کے نتائج بد ترین رہے۔

6 ماہ کے اندر اندر ٹرانزیکشن ایڈوائزروں کی ہائرنگ کے لئے کمپنیوں کو اشتہارات دے دیے گئے ہیں۔حکومت اپنی ٹرم کے اختتام سے پہلے ہی ٹرانزیکشن ایڈوائزر ہائر کر لینا چاہتی ہے۔

ایک بار اگر ایسا ہو گیا تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ *سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹیڈ کی وسعت اور کارکردگی کی رپورٹ کے بمطابق8637 کلومیٹر ہائی پریشر پائپ لائن ، جو 6 انچ سے 42 انچ کے قطر ((Diameterپر محیط ہے۔سال 2017 ء کے دوران میں 176 نئے ٹاون اور دیہاتوں کو 6741 کلومیٹر کی سروس لائن پہنچائی گئی۔جس کے نتیجے میں 40 لاکھ 20 ہزار 704 نئے گیس کنکشن دیئے گئے ہیں۔

اس کمپنی کے موجودہ نیٹ ورک سے استفادہ ہونے والے ضلعی ہیڈ کواٹر، تحصیل ہیڈکواٹر، دیہاتوں اور ٹاون کی مجموعی تعداد 3543 ہے۔سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹیڈ میں کرپشن کے چند اہم واقعات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے سیکرٹری انڈسٹری، کامرس اور انویسٹمنٹ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کی جون 2013 کی کارروائی کے دوران میں پنجاب کے 8 بڑے اضلاع کے 121 افسران گیس چوری جیسی کرپشن میں ملوث پائے گئے کرپشن میں ملوث 121 افراد کی مجموعی کرپشن کی رقم 5 ارب روپے سے زائد تھی۔

تشویش ناک بات تو یہ تھی کہ جون 2013 میں پکڑے گئے عوام کے چور جنوری 2014 میں بھی اپنی ملازمت پر معمول کے مطابق تعینات تھے۔یعنی ان کے خلاف ایسی کوئی کارروائی اس وقت تک نہیں کی گئی تھی کہ مستقبل میں قومی دولت کو بچایا جا سکے۔فروری 2017 کی ڈان نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2016 کے وسط میں دیئے گئے سوئی گیس کنکشن صرف اپنی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے دیئے ، ایسے ارکان کی تعداد 55 ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ملک کے وسائل سے عوام کو مستفید کرنے کی بجائے اپنے چہیتوں کو نوازنے پر لگی ہوئی ہے۔

جنوری 2018 کی ڈان نیوز کے مطابق گوجرانوالہ میں کمپنی کے دفتر کے دورہ کے دوران میں 2001 سے 2004 کا اہم ریکارڈ غائب تھا۔ جس میں سینیئر اکاونٹ آفیسر کو 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام میں معطل کر کے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔

یہی نہیں 1988ء میں وزیر پٹرولیم و گیس رہنے والے پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر مرحوم نے اُس وقت ایل پی جی کا 50 فی صد کوٹہ اپنی پارٹی کے سینیٹر گلزار احمد خان مرحوم، وقار احمد خان اور عمار احمد خان کی فرم کو دے کر اپنی عوام دشمنی کا ثبوت دیا تھا ۔پاکستان کے گیس کے شعبے کو بحال رکھنے کے لئے حکومتِ پاکستان نے عالمی بینک کے ساتھ مل کے جو تجزیہ کیا ہے اس کے نتیجے میں درج ذیل چیلنجز سامنے آئے ہیں :۔

طلب و رسد میں اضافہ ہوا ہے۔صارفین کے لئے گیس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے صارفین سے وصول کی گئی قیمت کا نئے دریافت کیے گئے گیس فراہمی کے ذرائع اور ایل این جی کی لاگت سے کم ہونا؛بڑے پیمانے پر گیس میں ہونے والے خسارے کا حساب نہ ہونا ہے۔گیس کے انفراسٹرکچر میں ترقی کا کمتر معیارواقع ہوا ہے۔حکومت کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کا ساتھ دینے کی بجائے محاذ آرائی اور کرپشن کے نئے پھاٹک کھول رہی ہے جب کہ حکومت کا کاونٹ ڈاؤن شروع ہے اس کی آئینی مدت کے ڈھائی ماہ رہ گئے ہیں جبکہ وہ سوئی ناردرن،سوئی گیس کمپنیوں ،پی آئی اے ،اسٹیل ملز کی نجکاری کرنے کا خوفناک اور ہولناک عمل مکمل کرنے جارہی ہے جو کہ قومی اثاثوں اور خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی اداروں کی نجکاری کا عمل ترک کیاجائے اور موجودہ نظام ہی بحال رکھا جائے (یعنی شاخوں میں تقسیم نہ کیا جائے)پنجاب خیبر پختون خواہ اور فاٹاآزاد جموں کشمیر اور شمالی علاقہ جات جبکہ سندھ اور بلوچستان پر مشتمل جنوبی علاقوں کے صارفین کوقدرتی گیس کی ترسیل اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سوئی سدرن گیس پائپ لائن کو دی جائے۔

مزید :

رائے -کالم -