" ایران پر بمباری سے امن نہیں آئے گا" روس کھل کر میدان میں آگیا

" ایران پر بمباری سے امن نہیں آئے گا" روس کھل کر میدان میں آگیا
سورس: WIkimedia Commons

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماسکو (ڈیلی پاکستان آن لائن) روس نے  کہا ہے کہ دنیا ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں سے تھک چکی ہے ، ایران پر بمباری کرنے سے امن قائم نہیں ہو گا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ تہران پہلے ہی حفاظتی اقدامات کر رہا ہے اور بہتر ہوگا کہ تصادم کے بجائے رابطوں پر توجہ دی جائے۔

ایرانی حکام نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ایران اس ہفتے کے آخر میں امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر ہونے والی بات چیت کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے،  انہیں واشنگٹن کے ارادوں پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ ان مذاکرات کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اعلان کیا تھا۔ وہ دوبارہ صدر بننے کے بعد سے کئی بار  ایران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ماسکو اس سخت لب و لہجے سے واقف ہے اور یہ کہ تہران پہلے ہی دفاعی اقدامات کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ عالمی توجہ تصادم کے بجائے روابط پر مرکوز ہونی چاہیے۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے روئٹرز کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’واقعی، دنیا ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ اب اس بات کا شعور بڑھ رہا ہے کہ بمباری کے ذریعے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ایران کا جوہری پروگرام 1950 کی دہائی میں امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھا مگر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران امریکہ کا بڑا مخالف بن گیا۔ امریکہ، اسرائیل اور چند یورپی ممالک ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی تہران سختی سے تردید کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران نے دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت روس کے ساتھ قریبی شراکت داری قائم کی ہے۔

اگرچہ روس نے یوکرین جنگ کے لیے ایران سے ہتھیار خریدے اور  ایک 20 سالہ سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کیے، لیکن ان کے تعلقات صدیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ایرانی حکام کہتے ہیں کہ روس بظاہر سخت موقف اختیار کرتا ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ میں الجھنے سے گریز کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے میں باہمی دفاع کی کوئی شق شامل نہیں تھی۔

زاخارووا نے کہا کہ روس "موثر مذاکراتی حل" چاہتا ہے جو ایک جانب ایران کے یورینیم افزودگی کے پروگرام پر مغرب کے شکوک کو کم کرے اور دوسری طرف اعتماد بحال کرے، اور تمام فریقین کے مفادات کا توازن بھی یقینی بنائے تاکہ کسی بحران سے بچا جا سکے۔