ریلوے کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود حسرت رہی کہ سمجھ سکوں سپیکر پرکیا کہا جاتا ہے؟ صرف یہ سمجھ آتا ہے ”آ رہی ہے“ یا ”جا رہی ہے“ 

ریلوے کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود حسرت رہی کہ سمجھ سکوں سپیکر پرکیا کہا ...
ریلوے کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود حسرت رہی کہ سمجھ سکوں سپیکر پرکیا کہا جاتا ہے؟ صرف یہ سمجھ آتا ہے ”آ رہی ہے“ یا ”جا رہی ہے“ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:93
ریلوے کے محکمے کے بارے میں کسی سوال یا گاڑیوں کے نظام الاوقات کے بارے میں جاننے کے لیے بھی ایک علیٰحدہ معلوماتی یا انکوائری   کاؤنٹر بنا ہوا ہوتا ہے جہاں بیٹھے ہوئے ملازم کچھ بھی پوچھنے پر مشینی انداز میں ساری معلومات فراہم کر دیتے ہیں۔ اسی کے آس پاس ایک کمرے میں بیٹھی ہوئی دو لڑکیاں باری باری سپیکر پر پلیٹ فارم پر موجود مسافروں کو گاڑیوں کے آنے جانے کی اطلاع دیتی ہیں، جو وہ اسی وقت بتاتی ہیں جب گاڑی اسٹیشن میں داخل ہو رہی ہوتی ہے یا روانگی کے لیے وہاں سے رخصت ہو رہی ہو، بعض دفعہ تو وہ متعلقہ گاڑی کے لیے پلیٹ فارم کی تبدیلی کا یکدم اعلان کرکے افرا تفری کا ماحول پیدا کردیتی ہیں، اور پھرلوگ اپنا سامان اٹھا کر نئے بتائے گئے پلیٹ فارم کی طرف بھاگتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویسے بھی کونسا ان کا کہا سنا سمجھ میں آتا ہے۔ ریلوے کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود مجھے عمر بھر یہی حسرت رہی کہ میں کبھی سمجھ سکوں کہ پلیٹ فارم کے سپیکر پر آخریہ کیا اعلان ہورہا ہے۔بس ان کی اس چیخ و پکار کے صرف آخری الفاظ یعنی ”آ رہی ہے“ یا ”جا رہی ہے“  ہی سمجھ میں آتے ہیں، باقی بیچ میں کہا گیا سب کچھ کنویں میں بند کسی شخص کی فریاد کی طرح خلاؤں میں گم ہو جاتا ہے۔ بالآخر نشر کی جانے والی اس اطلاع کی تصدیق خود ہی ادھر اْدھر بھاگ کر کرنا پڑتی ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ لڑکیاں سپیکر کا بٹن بند کرنا بھول جاتی ہیں تو ان کی ذاتی گفتگو اور آپس کی رنجشوں کا احوال بھی پلیٹ فارم پر نشر ہو جاتا ہے اور وہاں موجود لوگ اس پر تبسم کرتے ہیں اور پوری طرح محظوظ ہوتے ہیں۔
 دفتری عملہ
لاہور، کراچی، راولپنڈی جیسے بڑے اسٹیشنوں پر دفتری عملے کی بھی ایک معقول تعداد موجود ہوتی ہے، جن میں مختلف شعبوں کے آفسر، اکاؤنٹنٹ، کلرک، کیشئر اور نچلے درجے کے سیکڑوں ملازمین ہوتے ہیں جو مختلف نوعیت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔لاہور چونکہ پاکستان کا مرکزی اسٹیشن اور ریلوے کا صدر مقام بھی ہے اس لیے محکمے کے اعلیٰ افسران بھی یہیں بیٹھتے ہیں جن میں مارکیٹنگ، پرچیزینگ، پلاننگ، انتطامیہ، مالیات اور ایسے ہی مخصوص شعبوں کے با اختیار اور ذمہ دار لوگ اور اْن کے ماتحت ہوتے ہیں۔ 
متفرق عملہ
بڑے اسٹیشنوں پر کئی پلیٹ فارموں کے علاوہ بے شمار لوپ لائنیں ہوتی ہیں جہاں ہر وقت گاڑیاں آ کر ٹھہرتی ہیں اور وقت آنے پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں سیکچھ نئی گاڑیاں بھی بن کر چلتی ہیں یا دوسرے شہروں سے آنے والی بڑے نام کی گاڑیوں پر لگنے والے اضافی ڈبوں کو پہلے سے نہلا دھلا کر اور پوری طرح تیار کر کے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور متعلقہ گاڑی کے آنے پراْس کے ساتھ ان کو جوڑ کر آگے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے تیار مگر خالی ڈبوں سے بنی ہوئی گاڑی کو ریک کہتے ہیں۔ 
اسی طرح بڑے جنکشن کے پہلو میں بنے ہوئے ایک بڑے یارڈ (Yard) میں دن رات شنٹنگ کا کام چلتا رہتا  ہے جس کے لیے اضافی انجنوں، ڈرائیوروں اور مدد گارعملے کے افراد موجود رہتے ہیں۔ ان سب پٹریوں کو ضرورت کے مطابق آپس میں جوڑنے یا موڑنے کے لیے بھی اضافی عملہ موجود رہتا ہے جن کے ذمے صرف شنٹنگ یارڈ میں ہی گاڑیوں کو راہ راست پر لانا ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -