عمران کی مشروط اور غیر مشروط معافی
عمران خان 9مئی کے واقعات پر بھلے مشروط معافی مانگیں لیکن ملک میں نفرت اور انتقام کی سیاست کرنے پر غیر مشروط معافی ضرور مانگیں اور اپنی سیاست سے نفرت اور انتقام کو ختم کریں کیونکہ نفرت اور انتقام کی سیاست کا انجام وہی ہوتا ہے جو بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے والد شیخ مجیب کے مجسموں کا ہوا!
داد دینا پڑتی ہے نواز شریف کو جن کی کم غلطیوں کے سبب ابھی تک تحریک انصاف میں دوبارہ جان نہیں پڑسکی اور عمران خان کو بالآخر معافی کی بات کرنا پڑی ہے اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ معافی ہوتی ہے، چاہے مشروط ہو یا غیر مشروط! جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی!!
یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف ناں تو عمران خان کے جیل سے باہر ہوتے ہوئے کوئی بڑی احتجاجی تحریک بپا کرسکی تھی اورناں ہی ان کے جیل جانے پر تحریک انصاف ایسی کوئی کامیابی اپنے نام کرسکی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے جلسوں کی بات اور ہے، وہاں نوجوان بچے بچیاں اور ان کا فین کلب موج مستی کے لئے اکٹھا ہو جاتا ہے لیکن احتجاجی تحریک جس سیاسی سوجھ بوجھ کا تقاضا کرتی ہے، ان کا اس سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ جس زمانے میں مینار پاکستان میں کامیاب جلسے منعقد ہوتے تھے ان دنوں ایک لطیفہ مشہور ہوگیا تھا کہ عمران خان کو دیکھنے خواتین اور خواتین کو دیکھنے نوجوان پہنچ جاتے ہیں اور یوں جلسہ کامیاب ہو جاتا ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے کارفرما قوتیں عمران خان کی شخصی وجاہت اور جاذبیت کا پورا پورا فائدہ اٹھا کر ملکی سیاست میں ایک نیا آپشن کھڑا کردینا چاہتی تھیں تاکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہونے والے میثاق جمہوریت کا تیا پانچہ کیا جا سکے۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن عمران خان کی زبان سے ان دو سیاسی جاعتوں سمیت مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی اور ہر مخالف کے خلاف عمران خان کے ذریعے جس نفرت اور انتقام کی سیاست کا پرچار کیا گیا اور جس طرح شتر بے مہار کی طرح سوشل میڈیا کا بے جا استعمال کیا گیا، اس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں عام انتخابات ہونے اور ایک اتحادی حکومت کے قیام کے باوجود ان دو سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس قدر ڈس کریڈٹ کردیا گیا ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے، آئی ایم ایف سے کامیابی کے ساتھ اگلا پروگرام لینے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کروانے کے باوجودبھی اپنی اپنی کچھاروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ حالانکہ نون لیگ کی ایک یہی کامیابی اس کے دادو تحسین کے ڈونگرے برسانے کے لئے کافی تھی کہ اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھرپور تذبذب کے اس کے پروگرام کو جاری رکھوانے میں کامیاب رہی۔
ایک ذرا تصور کیجئے کہ اگر آج بھی ٹوئٹر یعنی ایکس نامی ایپ اسی طرح پاکستان میں فعال ہوتا جس طرح تب تھا جب نواز شریف اور ان کے خاندان کی گت بنائی جا رہی تھی تو جاتی عمرہ کے مکینوں کا کیا حال ہوتا؟ وہ تو بھلا ہو ہماری اسٹیبلشمنٹ کا اسے بروقت کاروائی کا خیال آگیا کیونکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ان کی اپنی بھی گت بننا شروع ہو گئی تھی جس کے اثرات ابھی بھی عام لوگوں کی گفتگو میں بآسانی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جس چاقو سے ملک کی سیاسی قیادت کے پیٹ چیرنے شروع کئے تھے، وہ چاقو الٹا ان پر بھی چلنا شروع ہو گیا۔ یہی نہیں آج ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے بھی اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے سوشل میڈیا پر چلنے والی منفی مہمات کا خوف کارفرما ہوتا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے دبنگ جج بھی آنے والے چیف جسٹس کی تکرار کے سامنے ہتھیار ڈالتے نظر آتے ہیں۔
عمران خان کے لئے نفرت اور انتقام کی سیاست پر غیر مشروط معافی مانگنا اس لئے بھی آسان ہوگا کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا تھا جو نہ صرف عمران خان بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی نکیل ڈالے ہوئے تھے اور اپنی مرضی کی تصویریں اور سرخیاں چلواتے اور لگواتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملک کی نوجوان نسل اپنے سیاسی قائدین سے ایک طرف متنفر ہو چکی ہے اور دوسری جانب ان کی وہ سیاسی تربیت نہیں ہے کہ وہ اپنے محبوب لیڈر کی رہائی کے لئے ڈھنگ کی احتجاجی تحریک بپا کر سکیں۔ بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی کامیاب تحریک کا تذکرہ تو ملک بھر میں خوب ہو رہا ہے لیکن اس تحریک کے دوران گرنے والی 300لاشوں کا ذکر کسی کو پسند ہے نہ اس کی تقلید کا کسی کے ہاں کوئی ارادہ ہے۔ ایسے میں عمران خان معافی مانگنے کی بات نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔
آخر میں یہ کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس ضمن میں عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے کہ اس نے اپنے اندر موجود گندے انڈوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ کہیں سے کوئی اڑتی اڑتی خبر آگئی کہ اتنے جرنیل، اتنے بریگیڈیئر اور اتنے میجر فارغ کردیئے گئے ہیں۔ اس کے برعکس ڈی جی آئی ایس پی آر کو ایک بھرپور پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے عوام کے سامنے حقائق رکھنا چاہئیں تاکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ پر عوام کا متزلزل اعتماد بحال ہو سکے اور ملک اس سیاسی استحکام کی راہ پرپڑسکے جس کے حصول کے لئے اسٹیبلشمنٹ الٹا لٹکنے کے لئے بھی تیار نظر آتی ہے۔سچ پوچھئے تو نواز شریف کا یہی مطالبہ ہے۔!