فضائی آلودگی ، احکام ہوا میں اڑا دیئے گئے؟

   فضائی آلودگی ، احکام ہوا میں اڑا دیئے گئے؟
   فضائی آلودگی ، احکام ہوا میں اڑا دیئے گئے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور ہائی کورٹ سمیت حکومت پنجاب نے سموگ کی بڑھتی ہوئی مقدار پر قابو پانے کے لئے  کئی اقدامات تجویز کیے، اگر ان  پر پچاس فیصد بھی عمل کرلیا جاتا تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے، لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس۔بطورخاص لاہور کے شہریوں نے ہائی کورٹ اور حکومت پنجاب کے تمام احکامات ہوا اڑا دیئے۔9اکتوبر 2024ء کو ایک شادی میں شرکت کے لئے صدر لاہور کینٹ گیا، اس وقت تقریبا ساڑھے سات بجے کا وقت ہو گا،بازار میں تمام دکانیں کھلی ہوئی دکھائی دیں۔ جب میں رات دس بجے واپس آرہا تھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی ایک شہری اور دوکاندار نے بھی ہائی کورٹ اور پنجاب حکومت کی ہدایات پرعمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،حالانکہ آٹھ بجے دوکانیں بند کرنے اور ہر شخص کے لئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔صدر بازار سے سفر کرتا ہوا میں پونے گیارہ  بجے والٹن روڈ پر پہنچا تو دیکھا کسی نے ماسک پہنا ہوا تھا، نہ تمام دکانیں اور بازار بند  تھے،حالانکہ اسی دن اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ فضائی آلودگی سے متاثر ہزاروں افراد سرکاری ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔یہ تو میں مانتا ہوں کہ زندہ دلان لاہور بہت بہادر اور دلیر مانے جاتے ہیں جو پچاس سینٹی گریڈ گرمی میں ننگے سر بائیک چلانا ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے سموگ کی تاریخ اور اس کی وجہ سے ہونے اموات کا ذکرکرتا چلوں۔سموگ کی یہ تاریخ مجھے لندن سے ظفر زمان چشتی صاحب نے بھجوائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سموگ کا آغاز لندن سے ہوا تھا، لندن کے لوگ 5 دسمبر 1952ء کی صبح نیند سے بیدار ہوئے توشہر گہرے سیاہ  دھوئیں میں ڈوب چکا تھا۔‘ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،حد نظر صفر ہو چکی تھی‘یہ دھواں اگلے دن چار ہزار لوگوں کی جان لے گیا‘ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائٹس منسوخ ہو گئیں۔دفتروں اور سکولوں میں چھٹی ہو گئی شاپنگ سنٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹا تھا‘ قبرستان بھر چکے تھے اور ہسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ عذاب پانچ دن جاری رہا، 9 دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضاء آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا۔دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھے‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن سموک پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاؤنڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کے لئے انتہائی مضر تھے‘ ماہرین نے سوچنا شروع کیا  کہ”یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے“۔ پتہ چلا یہ ساڑھے سات سو سال کی غلطیوں کا دھواں ہے‘ یہ سلسلہ 1200ء میں شروع ہوا تھا‘ ساڑھے سات سو برسوں میں لندن کی آبادی میں دس گنا اضافہ ہو گیا۔  جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہوگئیں‘ گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے لوگ شہر میں آ بسے‘ کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا‘ شہر میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ بجلی ایجاد ہوئی‘ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگ گئے‘ ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ گاڑیاں آئیں‘ تعمیرات شروع ہوئیں‘ دوسری جنگ عظیم نے بھی دھواں اڑایا اور آخر میں لوگ بھی آلودگی پھیلانے لگے چنانچہ لندن کی فضاء آلودہ ہوتی چلی گئی‘ ہوا میں آکسیجن کم ہو تی چلی گئی‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952ء تک جا پہنچا۔‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا‘لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا‘یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں ”مکس اپ“ ہوا‘ دسمبر کی دھند میں ملا اور گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گیا۔ یہ گیس پانچ دن شہر کے اندر گھومتی پھرتی رہی‘ ماہرین نے اس دھند کو سموک اور فاگ دو لفظ ملا کر ”سموگ“ کا نام دے دیا۔ لندن کے اس ”سانحے کو گریٹ سموگ آف لندن“ قرار دے دیا۔ماحولیات کے ماہرین نے سموگ کی تشخیص کر لی‘ اب علاج کی باری تھی‘ یہ ماہرین کے ساتھ مل کر چار سال منصوبہ بندی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے 1956ء میں ”کلین ائیر ایکٹ“ بنا لیا‘یہ ایکٹ ہاؤس آف کامنز میں پیش ہوا اور ایوان نے 5 جولائی 1956ء کو اس کی منظوری دے دی‘ یہ ایکٹ چھ بنیادی اصلاحات پر مشتمل تھا‘حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی“بجلی کے تمام پلانٹس دو برسوں میں لندن سے دور جنگلوں میں منتقل کر دیئے گئے‘ لندن اور لندن کے اطراف میں درخت کاٹنا‘ زرعی زمینوں کے سٹیٹس میں تبدیلی اور گرین ایریاز کے خاتمے پر پابندی لگا دی گئی‘۔ اب ہم صوبہ پنجاب کی جانب آتے ہیں جو پچھلے تین برسوں سے شدید سموگ کا شکار چلا آ رہا ہے‘ نومبر کے مہینے میں لاہور‘ بہاولنگر‘ پاکپتن‘ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں۔‘ اس بار پورا پنجاب سموگ میں دفن ہے‘ ہماری فضا میں اگر 80 مائیکرو گرام زہریلے مادے ہوں تو ہمارے پھیپھڑے انہیں برداشت کر جاتے ہیں لیکن لاہور اور اس کے مضافات میں اس وقت آلودگی کی شرح 200مائیکرو گرام کیوبک میٹر ہے۔‘ ہم اگر فضا کا ٹیسٹ کریں تو ہمیں اس میں کاربن مانو آکسائیڈ‘ سلفر اور نائیٹروجن کی بھاری مقدار ملے گی‘ یہ تمام مادے زہر ہیں‘ لاہور کی فضا میں 300 سے 400 فٹ تک آکسیجن کی شدید کمی بھی ہے‘ یہ فضا کتنی مضر صحت ہے آپ اس کا اندازہ سگریٹ سے لگا لیجئے‘ ہم اگر روزانہ 50 سگریٹ پئیں تو ہمارے پھیپھڑوں کو اتنا نقصان ہو گا جتنا لاہور کی فضاء میں ایک دن سانس لینے سے ہو رہا ہے‘ بھارت پاکستان سے بھی بری صورتحال کا شکار ہے‘  لاہور میں بھی اس سال چار لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سموگ آ کہاں سے رہی  ہے‘ یہ سوال بہت اہم ہے‘ اس کے چار بڑے سورس ہیں۔ بھارتی پنجاب کا شہر ہریانہ ہے‘ ہریانہ میں دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ ہوا‘ ہریانہ کے کسان ا کتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے جلاتے ہیں‘ بھارتی کسانوں نے اس سال 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے‘ ڈنڈلوں کے دھوئیں نے دہلی سے لے کر لاہور تک پورے پنجاب کی مت مار دی‘  لاہور کی فیکٹریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ لاہور شہر میں دس لاکھ گاڑیاں ہیں‘ہمارے پٹرول کا معیار انتہائی پست ہے چنانچہ یہ گاڑیاں چلتا پھرتا سموگ ہیں۔ لاہور میں ٹائروں کو جلا کر تاریں اور تیل حاصل کیا جاتا ہے‘ شہر میں ٹائر جلانے والے سینکڑوں احاطے ہیں اور سیالکوٹ ریجن میں بھی اس موسم میں مونجی کی باقیات جلائی جاتی ہیں‘ لاہور کی آبادی بھی پھیل رہی ہے‘ مضافات میں جنگل‘ کھیت اور کھلیان بھی ختم ہو رہے ہیں لاہور تیزی سے سموگ میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -