آئینی پیش قدمی و عسکری پسپائی گرافک آرڈر میں 

    آئینی پیش قدمی و عسکری پسپائی گرافک آرڈر میں 
    آئینی پیش قدمی و عسکری پسپائی گرافک آرڈر میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اب میں جو کچھ بیان کروں، آپ اس کا گراف بناتے جائیے۔ لورالائی کے دوسو نامی شخص نے 1957 میں کسی کو قتل کر دیا۔ اسے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز 1901 کے تحت مقامی جرگہ کے حوالے کیا گیا تو اسے سزا سنا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی کہ دوسو پاکستانی ہے۔ اس کے خلاف ملکی آئین و قانون کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے نہ کہ نو آبادیاتی قانون کے تحت۔ ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو خلاف آئین کہہ کر جرگے کا فیصلہ کالعدم کر دیا۔ 1958 میں مارشل لا لگ گیا جس نے لیگل آرڈر کے تحت آئین منسوخ کر دیا۔ وفاق نے ہائی کورٹ کے دوسو کیس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل کی کہ آئین منسوخ ہو گیا ہے لہذا یہ کہنا بے معنی ہے کہ ایف سی آر خلاف آئین ہے۔ فیڈرل کورٹ نے وفاق کے حق میں فیصلہ دیا۔ چنانچہ 1958 کے مارشل لا کے خلاف کوئی ایک آئینی پٹیشن دائر نہیں ہوئی تھی۔ پوری قوم سوتی رہی۔ رہا دوسو تو اس کا مقدمہ شخصی تھا، بجائے خود مارشل لا کے خلاف وہ آئینی مقدمہ نہیں تھا۔ گراف صفر ہی پر رہا۔

1969 میں مارشل لا لگا تو اس کے خلاف بھی پٹیشن دائر نہیں ہوئی۔ 13 ماہ بعد اپریل 1971 میں ملک غلام جیلانی نے جنرل یحییٰ کو فوجی آپریشن کے خلاف خط لکھا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل یحییٰ کی معزولی پر 16 دسمبر 71 کو انہیں رہا کر کے 4 دن بعد پھر گرفتار کر لیا گیا. ان کا خط کہیں ایڈیٹر ڈان الطاف گوہر مل گیا جو انہوں نے شائع کر دیا۔انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بھٹو کے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے پر وہ ان کے بھی مخالف تھے۔۔ پھر یاد دلا دوں کہ 1969 کے مارشل لا کے خلاف بھی کوئی ایک پٹیشن دائر نہیں ہوئی. ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی نے لاہور ہائی کورٹ میں باپ کے حبس بے جا کے خلاف دعوی ضرور کیا لیکن وہ بھی دوسو کی طرح شخصی دادرسی کے لیے تھا۔ جنرل یحییٰ معزول ہوگیا۔ تب جنوری 72 میں عاصمہ جیلانی اور مسز الطاف گوہر نے  ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مارشل لا کو بھی چیلنج کیا۔ یہ اپیل کی کہ جنرل یحییٰ کو غاصب اور مارشل لا بلا جواز قرار دیا جائے۔ عدلیہ نے اپیل کے حق میں فیصلہ دیا۔ گراف میں ہلکی سی جان پڑ گئی۔

پھر کہنے دیجیے کہ مارشل لا 1958 پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، قوم دودھ پئے سوتی رہی۔ مارشل لا 1969 پر بھی یہی ہوا. تاہم  شخصی ضرورت پر اصل آمر کے معزول ہونے پر سویلین مارشل لا چیلنج کیا گیا تو عدالت نے مارشل لا کو ناجائز کہہ کر ہمارے گراف کو آنکھیں کھولنے کا موقع دے دیا۔ لیکن میں پھر کہوں گا کہ  قوم پہلے ہی کی طرح دودھ پیے سوتی رہی۔ سوجھ بوجھ والوں میں ذرا سی آگہی ضرور پیدا ہو گئی تھی۔ اگلے مارشل لا 1977  کے ساتھ ہی وعدہ ہوا کہ 90 دن میں انتخابات کرا کر فوج واپس ہو جائے گی لہذا کسی پٹیشن کا جواز نہیں تھا۔ وعدہ ایفا نہ ہوا تو ملکی تاریخ میں پہلی بار بجائے خود مارشل لا کے خلاف نصرت بھٹو نے پٹیشن دائر کر کے گراف اوپر کر دیا۔ عدالت نے مارشل لا کو دوام تو دیا لیکن اس بار گراف مسکرانے لگ گیا۔ ملک بھر میں تحریک بحالی جمہوریت شروع ہوئی، لوگ جیلوں میں گئے، سزائیں بھگتیں، جلاوطنی اختیار کی اور بالآخر مارشل لا ختم ہو گیا۔ جمہوری سورج نے صبح کے 10 بجا دیے۔ گراف 40 پر جا پہنچا۔

1999 میں پھر آئین شکنی ہوئی تو جمہوریت نصف النہار پر تھی بالغ النظر قوم اور خوب آگہی کے باعث ظفر علی شاہ اور پانچ دیگر نے بلا تاخیر آئینی پٹیشن دائر کر دی۔ قنوطی افراد کے لیے تو اس دفعہ بھی کچھ فرق نہیں پڑا ہو گا۔ یہ بھی مان لیا کہ عدالت نے آمر کو بن مانگے آئینی ترمیم کا اختیار دیا لیکن طاقتور آئینی گراف کے سبب اس بار عدالت نے کہہ دیا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ 5 ستونوں پر قائم ہے، اس ڈھانچے اور ستونوں میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں۔ یہ حکم بھی دیا کہ 3 سال میں انتخابات کرا کر آئین بحال کرو. اس چوتھی آئین شکنی کے وقت جمہوریت اور آئین شکنی دونوں اپنے عروج پر تھے. لیکن فوری پٹیشن اور مختلف عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی آئین شکن فکر کا زوال شروع ہو گیا۔ گراف 50 پر جا پہنچا۔

2007 میں جمہوری قدروں, توانا فہم اور آگہی کا گراف اتنا بلند تھا کہ آئینی تعطل کا عسکری فرمان جاری ہونے کی دیر تھی، سپریم کورٹ نے بذریعہ فیکس ہائی کورٹوں کو حکم دیا کہ ملک آئین کے مطابق ہی چلے گا۔ پھر آمر کو پہلی دفعہ کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ اب آئینی گراف ڈنٹر پیل رہا تھا۔ آئین شکن فکر اتنی مضمحل ہو چکی تھی کہ پردے کے پیچھے رہ کر اسے کٹھ پتلی نچانا پڑی۔ 2018 میں پہلی بار انتخابی صندوق چوری کر کے اسے آئین شکنی کی بجائے قانون شکنی پر اکتفا کرنا پڑا۔ ناچتی، کسمساتی، بدن لچکاتی کٹھ پتلی سے جی اوب گیا تو لاغر آئین شکن اسے جنبش ابرو سے بھی  نہ ہٹا سکے بلکہ یہ کام انہیں طبلہ نواز سے کرانا پڑا۔  2024 میں انہوں نے فارم 45 میں مجرمانہ رد و بدل کر کے قانون شکنی تو کی لیکن آئین برقرار رہا اور ساتھ ہی ایک محیر العقول تبدیلی کے باعث پہیہ الٹا چل پڑا۔ جی ہاں 2018 کے صندوق چور ٹبر کے ایک فرد کو خود اس کا ٹبر آئین اور قانون سے "فیض" یاب کر رہا ہے. ہاں تو گراف کہاں پہنچا؟

قوموں کی زندگی میں 75-80 سال کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ 1958 میں صفر پر کھڑا مرجھایا ہوا آئینی گراف آج 70-80  کے مابین جھوم رہا ہے. آج آئین اور قوم شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ چنانچہ معزز سامعین! مایوسی یا بے یقینی کو قریب بھی نہ آنے دیں۔ آج کا پاکستان 1958 کے پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے۔  مایوسی ہمارے ایمان کے منافی ہے۔ آج عسکری لوگ اگر سول عہدوں پر آ رہے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے سول بالا دستی قبول کر لی ہے۔ سول ادارے میں بیٹھا ہر شخص سول انتظامیہ کا نوکر ہوتا ہے جبکہ 1958 میں معمولی سا صوبیدار بھی ایسی پیشکش نہیں سنتا تھا۔ اپنے 14 طبق روشن کرانا ہوں تو بحریہ ٹاؤن میں آئین شکنوں کے "افراد خانہ" دیکھ لیجیے, اشتہاری کی تصویر کے آگے سر جھکائے کھڑے ملیں گے۔ اور آپ سر اٹھا کر چلیں گے۔ لیکن ٹھہریے! گراف ابھی 70 اور 80 کے مابین ہے۔ ہوشیار! خبردار! جاگتے رہنا۔۔۔۔۔۔! (فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں آئین کی گولڈن جوبلی پر اساتذہ و طالبات سے اپنے خطاب کا اضافہ شدہ خلاصہ)۔

مزید :

رائے -کالم -