تحریک پاکستان میں مسلم خواتین کی قائد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ
شاکر حسین شاکر:
برصغیر کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تمام سیاسی تحریکوں میں خواتین کا کردار مرکزی اور اہم رہا ہے خاص طور پر ہندوستان کا وہ دور جب قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کا آغاز کیا تو تب ہندوستان کی اکثر خواتین پردہ کرتی تھیں۔ خواتین کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک مرکزی کمیٹی برائے خواتین قائم کر دی جس میں فاطمہ جناحؒ کو صدر کے علاوہ بہت سی نمایاں اور سرگرم خواتین کو رکن نامزد کر دیا۔ اس کے ساتھ قائد اعظم نے سب کمیٹی بھی قائم کر دی۔ اس کمیٹی میں ہر صوبے کی ان تجربہ کار خواتین کو نامزد کیا گیا جو ایک عرصے سے تحریک آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل تھیں۔ قائد اعظم کے اس فیصلے کے بعد مادر ملت محترمہ فاطم جناح کی صدارت میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس سے تحریک پاکستان کی نامور خواتین نے خطاب کیا۔ اس جلسے کے بعد خواتین میں ایک عجیب و غریب بیداری کا جذبہ پیدا ہو گیا جس کی قیادت محترمہ فاطمہ جناح کر رہی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر حصے کی پردہ نشین مسلمان خواتین نے جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ یہ محترمہ فاطمہ جناح اور ان کی ساتھی کارکن خواتین کی جدوجہد کا ثمر تھا کہ غیر منقسم ہندوستان کے ہر شہر ہر ضلع ہر صوبے میں زنانہ کمیٹیاں قائم ہو گئیں۔ باپردہ خواتین اپنے ہاتھوں میں مسلم لیگ کی رکنیت کی کاپی لے کر اپنے اپنے محلوں میں جاتیں اور ہزاروں عورتوں کو دو دو آنے کارکن بنا لیتیں اگر کسی خاتون کے پاس پیسے نہ ہوتے یہ پیسے مسلم لیگ کی رہنما خواتین اپنی جیب سے ادا کرتیں۔ اسی طرح لاکھوں عورتیں جو آزادی کے نام سے واقف نہ تھیں، وہ مسلم لیگ کے پیغام سے آشنا ہو گئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی اس تحریک کو نسوانی تحریک کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی تحریک کے باعث ہندوستان کی مسلمان خواتین نے ایک اہم کام کی ابتداء کر دی کہ انہوں نے نو عمر بچوں اور بچیوں کو حصول آزادی کے بعد پاکستان کی حیات و بقاء کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیا۔ انہی خواتین نے مادر ملت کی قیادت میں تعلیم نسواں کو فروغ دینے کے عملی کام کا آغاز کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں مسلمانوں کے سکول بہت کم تھے۔ خاص طور پر مسلمان بچیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بہت کم تھے۔ یہ خواتین تعلیم نسواں کو عام کرنے کے لئے ضرورت کے مطابق دو کمرے کرائے پر لیتیں اوراس کو مسلم لیگ خواتین سب کمیٹی کے زیر اہتمام ایک سکول کا درجہ دے دیتیں۔ ان کاوشوں کا یہ فائدہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہزاروں سکول قائم ہو گئے۔ ان سکولوں کے قیام کا مقصد صرف اور صرف قوم کی بچیوں کو اپنے نوزائیدہ ملک کی خدمت کے لئے تیار کرنا تھا جس کے حصول کے لئے خواتین دن رات کام کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ تمام سرگرم خواتین ان پڑھ عورتوں کے لئے تعلیم بالغاں کے ادارے قائم کر کے خود ہی گھر گھر جا کر تعلیم دیتی تھیں جس کے لئے ان کو نہ تو کسی ادارے سے کوئی تنخواہ ملتی تھی اور نہ ہی کوئی سہولت، یہ مادر ملت کی رہنمائی کا اثر تھا کہ ہندوستان کی ہر عورت میں یہ جذبہ پیدا ہو چکا تھا کہ وہ قوم کے لئے کام کر رہی تھیں۔ ان میں ان کو نہ تو کسی مالی فائدے کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی شہرت کی، وہ تو بس قوم کی خواتین اور بچیوں کو تقسیم ہندوستان کے بعد جو مشکلات آتی تھیں، اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین نے اپنے گھروں میں نیشنل گارڈز کی تربیت کا اہتمامم کر رکھا تھا جس میں خواتین کو فرسٹ ایڈ اور بنیادی ادویات کے استعمال کی تربیت دی جاتی تھیں۔
خواتین کو سرگرم دیکھنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح اپنے اجلاسوں میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اپنی تقاریر میں ان کا ذکر کر کے ان کی ہمت میں اضافہ کرتے کہ اس زمانے کی خواتین کے لئے قائد اعظم اور مادر ملت جناح کی حوصلہ افزائی ان کے لئے سب سے بڑا اعزاز تھا۔ اس تحریک میں ہر خاتون اپنے حصے کی ذمہ داری بخوبی نبھاتی تھی۔ کوئی خاتون تعلیم نسواں دینے میں مصروف تھی تو کوئی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنے مشن کو آگے بڑھا رہی تھی۔ کوئی عورت چند ہ جمع کر کے مسلم لیگ کو مالی طور پر مضبوط کر رہی تھی تو کوئی انتظامی معاملات کے ذریعے تحریک میں اپنا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ مختصر یہ کہ اس زمانے میں مسلم لیگی خاتون مادر ملت کی زیر قیادت اپنے حصہ کا کام بغیر کسی محنت اور صلہ سے کر رہی تھیں۔
فروری 1947ء میں مسلم لیگ پنجاب نے لاہور میں یونینسیٹ حکومت کی خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کیا تو پنجاب کی خواتین نے لاہور میں نہ صرف جلوس نکالے بلکہ بھرپور مظاہرے بھی کئے جس کے نتیجے میں درجنوں خواتین کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ انہی خواتین نے اپنے احتجاج کو اتنا بڑھایا کہ آخر کار خضر وزارت کو مستعفی ہونا پڑا۔
اس طرح 1947ء میں ہندوستان میں مسلم ہند فسادات ہوئے تو سب سے زیادہ مشکلات مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں مسلمان پناہ لینے کے لئے دیہاتوں اور قصبوں میں سے شہروں کے کیمپوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے تو ان کیمپوں میں موجود مہاجرین کے لئے مادر ملت کی قیادت میں خواتین کھانے پکانے کا سامان اور ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کا کام کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ کارکن خواتین ابتدائی طبی امداد کے بکس اٹھائے زخمیوں کی مرہم پٹی اور لوگوں کو علاج اور حاملہ خواتین کے لئے دایہ یا مڈ وائف کا انتظام کرتی تھیں۔ مادر ملت کی قیادت میں خواتین رہنماؤں نے فساد زدہ علاقوں میں سے لوگوں کو نکال کر امن کی جگہ پر پہنچایا۔ اس خدمت خلق کے نتیجے میں اکثر خواتین کے اپنے گھر بھی ہندوؤں کے ظلم کا شکار ہو گئے۔ بہت سی خواتین خود بھی چاروں طرف سے غنڈوں میں پھنس گئیں۔ ان کے بھرے ہوئے گھروں کو لوٹ لیا گیالیکن ان سب خواتین نے ایک ہی نعرہ بلند کئے رکھا۔
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
خواتین نے جس انداز سے تحریک پاکستان میں کام کیا وہ مسلم تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا کہ اس زمانے کی خواتین نے اپنے بچوں اور گھروں کی پروا کئے بغیر صرف پاکستان کے لئے کام کیا۔ انہی خواتین کی محنت کا ثمر پاکستان ہے۔ بہار کا ریلیف فنڈ ہو یا خضر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک، عورتوں نے کہیں پر بھی قائد اعظم اور ان کی بہن کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اکیلے ہیں۔ انہوں نے جیلوں کو آباد کیا، اپنے گھروں کو پاکستان کے نام پر چھوڑ دیا اور پاکستان آ گئیں۔ یہ مادر ملت کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ خواتین نے پاکستان کی تحریک میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا جس کا ثمر آج پاکستان کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔