بجٹ خیالی ہے یا حقیقی ۔۔۔؟لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے
شاعر نے شاید انہی دنوں کیلئے کہا تھا کہ
کشتی چلانے والوں نے جب ہار کے دی پتوار ہمیں
لہر لہر طوفان ملے اور موج موج منجدھار ہمیں
بجٹ خیالی ہے یا حقیقی ۔۔۔۔
ہم دیکھیں گے ۔۔۔کوئی دیکھے نہ دیکھے
ہم دیکھیں گے ۔۔۔لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے
ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا بجٹ عوامی ہے اور ملک و قوم کے مفاد میں ہے
کوئی حکومت یہ نہیں کہتی نہ ہی اس میں اتنی جرأت ہوتی ہے کہ یہ تسلیم کرے کہ بجٹ عوامی نہیں ، الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ، ٹیکسوں کی بھرمار نہیں ۔۔۔۔ہم مدتوں سے یہ سب دیکھ رہے ہیں
بجٹ بھی آ گیا ۔۔۔ تحریک انصاف کے ساتھ جس” سلوک “ اور ”لیول پلیئنگ فیلڈنگ “ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا وہ بھی ہو گیا اب الیکشن کب ہونگے ۔۔۔؟ ہم دیکھیں گے
اس بجٹ کے بعد انتخابات ہونے ہیں ۔۔۔ہم اس زاویئے سے بھی دیکھیں گے
بجٹ کو نئی منتخب ہو کر آنیوالی حکومت کس نظر سے دیکھے گی ۔۔۔؟ یہ بھی ہم دیکھیں گے
تبصرے کرنے والوں کا کام تو ابھی سے شروع ہو چکا ۔۔۔یہ رکنے والا نہیں ۔۔۔ہم دیکھ رہے ہیں
ڈالر کو لگام ڈالنے کا دعویٰ کرنے والوں کو جواب مل گیا ۔۔۔ہم نے دیکھ لیا
جس ہستی سے امیدیں تھیں اورشدت سے انتظار تھا اس کی واپسی کا ڈالر پر” اثر “ہو نہ ہو البتہ مقدمات کو ”لگام “ ڈل گئی ۔۔۔ہم دیکھ رہے ہیں
عوام کو حقیقی ریلیف ملے گا یا نہیں ۔۔۔ہم دیکھیں گے
ہماری سیاست میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے ۔۔۔۔ہم سب بے بسی سے دیکھ رہے ہیں
حکومتی دعوے ایک طرف ۔۔۔لیکن ملک میں مہنگائی کی کھائی کس قدر گہری ہو چکی ہے اس حوالے سے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق مہنگائی میں مسلسل اضا فے کا رجحان مئی میں بھی برقرار رہا،گزشتہ ماہ ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد رہی۔اپریل کے مقابلے میں مئی میں مہنگائی میں 1.58 فیصد اضافہ ہوا۔مئی 2023 میں مہنگائی کی شرح 37.97 فیصد رہی، شہروں میں مہنگائی 1.50 اور دیہاتوں میں 1.69 فیصد بڑھی۔
ادارہ شماریات اعتراف کر رہا ہے کہ مئی 2022 کے مقابلے میں مئی 2023 میں سگریٹس 148.3 اور چائے 79.3 فیصد مہنگی ہوئی۔ایک سال میں آلو 108 ، انڈے 90.2 ، چاول 85 اور دال ماش 58.2 فیصد، دال مونگ 57.7 ، پھل 53 ، اور چینی 41 فیصد مہنگی ہوئی جبکہ درسی کتب 114 اور اسٹیشنری بھی 79.3 فیصد مہنگی ہوئی۔ اس کے علاوہ موٹر فیول 69.9 ، گیس 62.8 اور بجلی 59.2 فیصد مہنگی ہوئی جبکہ گاڑیوں کے آلات 45 ، تعمیراتی سامان اور گاڑیاں 38 فیصد اور گھریلو سامان 41 فیصد مہنگا ہوا۔
ادارہ شماریات کے ان اعدادوشمار کو سامنے رکھ کر بھی ہم اس بجٹ کو دیکھیں گے ۔۔۔۔ضرور دیکھیں گے
اگلے دو تین ماہ میں مہنگائی کم ہو گی یانہیں ۔۔۔؟ ہم دیکھیں گے ۔۔۔۔ضرور دیکھیں گے ۔۔۔۔اگلے بجٹ تک دیکھتے رہیں گے
اب ایک نظر ادھر بھی ۔۔۔۔اقوام متحدہ پاکستان میں غذائی قلت کا خدشہ ظاہر کر چکی ہے جس کی وجہ ملک میں جاری سیاسی بحران کو قرار دیا گیا ہے۔فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے جاری ہونیوالی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”پاکستان میں 8.5 ملین سے زائد افراد کو ستمبر اور دسمبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، پاکستان، وسطی افریقی جمہوریہ، ایتھوپیا، کینیا، کانگو اور شامی عرب جمہوریہ کے تشویشناک حد تک خوراک کی کمی کے شکار ہونے کے دائرے میں ہیں، لوگوں کی خوراک اور دیگر ضروری اشیاء خریدنے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان میں سیاسی انتشار اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے۔ اگر پاکستان میں معاشی و سیاسی بحران اور سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال بدستور خراب ہوتی رہی تو کوئلے اور خوراک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے“۔
یہ رپورٹ ہم سب نے پڑھی اور دیکھی ۔۔۔ہم ان خدشات کو سچ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ۔
ڈیفالٹ کی خبریں طویل عرصے سے زیر بحث ہیں ،سچی ہیں یا جھوٹی اس سے عام ، غریب ، مفلوک الحال عوام کو کچھ لینا دینا نہیں
پاکستان سٹاک ایکسچینج اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وفود سے گفتگو میں کہا گیا کہ” سابق حکومت کی نااہلی سے ہونے والی تباہی کو ہم نے روکا، ہم نے سیاسی نقصان کر کے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، آگے بڑھنے کےلئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ ترقی کےلئے کی جانےوالی اصلاحات ہمیشہ مشکل ہوتی ہیں۔ملکی معیشت میں بہتری کی امید ہے۔ حکومت کاروبار کے فروغ میں مدد اور سرمایہ کاری کےلئے سازگار ماحول مہیا کرے گی“۔
جبکہ حکومتی جماعت کے اندر سے اہم شخصیت ایک نجی ٹی وی کی خصوصی گریٹ ڈیبیٹ میں کہہ چکی ہے کہ ”پلان بی، سی نہیں سوچنا، اب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانا ضروری ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیرو بھی کردیں تو بھی ہمیں 25 ارب ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ مارکیٹ میں ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے، آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہ گئے تو نئے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ڈیفالٹ یقینی ہے“۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی ہم الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں خصوصی گریٹ ڈیبیٹ میں معاشی ماہرین کے تبصرے دیکھ چکے ہیں جن میں کہا گیا کہ ” ڈیفالٹ کا خطرہ بہت زیادہ ہے، اس بار ڈیفالٹ کا خطرہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ جب تک ایکسپورٹ کو نہیں بڑھائیں گے گزارا نہیں ہوسکتا۔ ایکسپورٹ کا تعلق پالیسیوں کے تسلسل میں ہوتا ہے، بحیثیت ملک جس کے پاس بھی قرضہ لینے جائیں گے تو پوچھا جائے گا آپ کے کیا پلان ہیں؟ “۔
ہم نے آج کی بجٹ تقریر بھی دیکھ لی ۔۔۔اعلانات بھی سن لیے ۔۔۔سابقہ حکومت کی برائیاں اور نئی حکومت کی اچھائیاں بھی سن لیں
خدانخواستہ ڈیفالٹ ہوا تو نتائج سب کےلئے کافی مہنگے ثابت ہوں گے۔ ۔۔
سوال یہ ہے کہ ڈیفالٹ نہ ہونے کی گارنٹی کون دیگا۔۔۔یہ گارنٹی کون دیگا کہ اب دنیا کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی جائے گی ۔۔ موجودہ معاشی بھنور سے نکلنے کیلئے آؤٹ آف دا باکس جا کر کون سوچے گا۔۔۔ عوام کی بڑی تکلیف مہنگائی کی وجہ سے ہے، کیا عوام کوحقیقی فوری دیرپا ریلیف کی گارنٹی دی جا سکتی ہے ۔۔۔؟
جواب مشکل ہے تو جان لیں ۔۔۔۔دیکھ لیں اور پڑھ لیں
ایک عشرہ قبل ہی بھارتی پارلیمنٹ کی نئی نویلی عمارت کو ” تابوت“ قرار دیا گیا ۔۔۔ایسا اس لیے ہوا کہ عمارت کا افتتاح متنازع طریقے سے ہوا۔ صدر کے بجائے وزیراعظم کی جانب سے افتتاح کرنے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ کانگریس سمیت 19 اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح کا بائیکاٹ کیا جس پر اپوزیشن جماعت راشٹریا جنتا دل نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو ”تابوت“ جیسا قرار دےدیا۔کانگریس کا مؤقف ہے کہ پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح صدر دروپدی مرمو کو کرنا چاہیے تھا وزیر اعظم مودی نے اپنی تشہیر کےلئے پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح صدر کو نہیں کرنے دیا۔۔۔۔۔ہمارے سیاستدان سوچیں ۔۔۔۔اتنی بڑی جمہوریہ اور "تابوت " کے لفظ کا استعمال ۔۔۔۔ایساشدید احتجاج ۔۔۔
ہم بھارتی پارلیمنٹ کا ”تابوت “ دیکھ چکے ۔۔۔عوام کو مہنگائی اور سیاسی رنجشوں سے نجات نہ ملی تو صورتحال اپنے ہاں بھی مختلف نہ ہو گی۔ آخر میں بس اتنا کہ
تقاضہ ہے وقت کا کہ طوفاں سے کھیلو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں