زندگی میں ایسے دوست ساتھیوں کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے آپ کے خلوص نیت کو پہچانا ہو، جذبات کی قدر کی ہو اور اچھے بْرے حالات میں ساتھ دیا ہو

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:3
میں نے کوشش کی ہے کہ گزشتہ 75 سالوں، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، میں اپنی یادداشت کے بل بوتے پر اپنے محسوسات اور مشاہدات کو دیانتداری سے قلمبند کروں، اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو بھی سامنے لاؤں۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنا چاہیے۔
زندگی میں ایسے دوست ساتھیوں کو آپ نہیں بھول سکتے جنہوں نے آپ کے خلوص نیت کو پہچانا ہو، آپ کے جذبات کی قدر کی ہو اور اچھے بْرے حالات میں آپ کا ساتھ دیا ہو۔ میرے بچپن سکول کے دوست کلیم احسن، ساجد محمود بٹ اور 1966ء سے سٹیزن کونسل کے میرے ساتھی ایم اکرم جن کا انتقال 2020ء میں یکے بعد دیگرے کراچی اور لاہور میں ہوا، ایسے ہی مخلص دوستوں میں شامل تھے۔
گزشتہ چند سالوں میں سٹیزن کونسل آف پاکستان تھنک ٹینک کے میرے متعدد فعال ساتھی کارکن جن میں:
محترمہ شکیلہ رشید ایم این اے
محترمہ ناز پروین صاحبہ صدر لیڈیز کلب جڑانوالہ
محترمہ پروفیسر فرح زیبا صاحبہ
محترمہ شہزادی اورنگ زیب صاحبہ
میجر جنرل راحت لطیف،
میجر محمد شبیر احمد سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ا?ئی بی، کرنل (ر) انجینئر عبدالرزاق بگٹی ماہر آبی مسائل
رانا سعید احمد مصنف کتاب ”عقل“
اور انجینئر محمد یوسف شامل ہیں جو اس دارِفانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔
ہماری تنظیم کے سیکرٹری جنرل ظفر علی راجا صاحب جنہوں نے سٹیزن کونسل کی سرگرمیوں میں پہلے دن سے بڑھ چڑھ کر میرا ساتھ دیا۔انہوں نے بھی میری کتاب کی نوک پلک سنوارنے کی ازخود ذمہ داری لی تھی لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے انہیں بھول جانے (الزائمر) کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا فکری کام جاری رکھنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ظفر علی راجا صاحب کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔
پاکستان یوتھ موومنٹ کے دور کے میرے سینئر ساتھی، مربی و محسن 1940ء کے عشرے میں تحریک پاکستان کے دور کے سٹوڈنٹ رہنما سید قاسم رضوی، قومی دواخانہ بیڈن روڈ کے شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کے صاحبزادے آفتاب احمد قرشی، سید افتخار شبیر سابق آڈیٹر جنرل پاکستان اور پروفیسر ڈاکٹر منیر الدین چغتائی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جن کا انتقال بالترتیب 1972ء، 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں ہوا لیکن ان کی محبت و شفقت اور کمی کا احساس مجھے آج بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کی محبت سے سرشار تھے اور پاکستان کے نوجوانوں کو آگے بڑھانے کے لائحہ عمل پر عمل پیرا تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر الدین چغتائی نے بستر مرگ امریکہ سے اس ناچیز کو خط لکھ کر پاکستان کے لیے کام کرنے والی اپنی فہرست میں آ خری امید قرار دیاتھا۔اسی طرح سے سال 2021ء کے ماہ جولائی میں اپنے کالج لائف کے دوستوں لاہور چائینہ چوک میں واقع ہوٹل ”حرفہ ان“ کے مالک چودھری عبداللطیف اور ملتان میں بریگیڈئر ریاض احمد ملک جو دونوں بڑے ظرف اور حوصلے کے مالک تھے، میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے کواڈرینگل (اقبال) ہوسٹل اور نیو ہوسٹل کے ساتھی بھی تھے اور جن سے میرے رابطے زندگی بھر رہے، ان دونوں دوستوں کے اچانک انتقال کر جانے پر مجھے ایسے ہی صدمہ سے دوچار ہونا پڑا جیسے میں 2017ء میں اپنے چھوٹے بھائی رانا شبیر احمد خاں کی بے وقت رحلت سے دوچار ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مذکورہ بالا تمام احباب مرحومین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند کرے۔
رانا امیر احمد خاں
(ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔