سوال کیا ’’ اور یہ بعض تانگے والے بھی تو حراف ہوتے ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں حراف کیا ؟ اس سے بھی کئی قدم آگے ‘‘ کچھ تو انہی میں سے ہیں ، کچھ باقاعدہ دلالی کرتے ہیں ، کچھ اس قماش کے ہیں کہ ان پر ایک پنتھ دوکاج کی ضرب المثل صادق آتی ہے ، یعنی خود پیشہ ور ہیں کوٹھی خانہ کھول رکھا ہے ۔ دو چار لڑکیاں ہیں خود گاہک لاتے اور دولت پیدا کرتے ہیں۔‘‘
’’ ایسے کتے ہوں گے؟‘‘
’’ میرے پاس کوئی رجسٹر تو ہے نہیں اور نہ میں نے کبھی گنتی کی ہے لیکن دواڑھائی سو سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں انکی بڑے بڑوں تک رسائی ہے۔ یہ ایک کمپنی کی طرح کام کرتی ہیں ، کچھ تو اس چوک میں رہتے ہیں کچھ میکلوڈ روڈ کے پاس ، کچھ قلعہ گرجر سنگھ کے اڑوس پڑوس ، کچھ میٹرو ہوٹل کے باہر ، کچھ الفنسٹن ہوٹل کے پہلو میں ، اس کے علاوہ مزنگ ، اچھرہ ، مسلم ٹاؤن اور گاف روڈ پر بھی ان کی دوکانداریاں ہیں۔ انہیں ایک اشارہ کافی ہوتا ہے آپ جانتے ہیں گناہ چہرے سے بول اُٹھتا ہے اور خواہش آنکھوں میں جھلک اُٹھتی ہے۔‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ اور وہ لوگ جو یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’ ہر چور بازاری یہاں آتا ہے۔‘‘
’’ اور یہ عورتیں ؟‘‘
’’ جو کچھ رات کو کماتی ہیں دن کو کھاپی جاتی ہیں ، بعض نکھٹو شوہر ہوتے ہیں ، وہ ان کے لئے سودا لاتے ہیں ہیں بعض محبت بھی کرتی ہیں۔ لیکن گاہکوں سے نہیں اوباشوں سے ، جو کچھ رات کو ہتھیاتی ہیں دن کو انہیں کھلاپلادیتی ہیں اکثر غنڈے انہی کی کمائی پر اینڈتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ ان غنڈوں کو کھلائیں پلائیں نہیں یا انہیں ہاتھ میں نہ رکھیں تویہ لوگ اکٹھے ہو کر ایسی دھما چوکٹری مچائیں کہ کوئی بتی بھی روشن نہ رہ سکے۔ ‘‘
’’ تو گویا ان کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’ جی ہاں نوے فی صد کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ، زندگی ہی نہیں کمائی بھی ، میرااندازہ ہے ان بازاریوں کو نوے فیصد روپیہ ٹنگاڑے کھا جاتے ہیں ، جو نشہ کہیں دستیاب نہیں ہوتا وہ یہاں ملتا ہے ، شہر میں شراب بن ہے لیکن یہاں وافر ہے۔ کئی چوباروں میں افیون ، چرس ، چانڈو، کوکین کی تجارت ہوتی ہے۔‘‘
’’ بابا کبھی جوانی بھی یاد آتی ہے۔‘‘وہ کھل کھلا کر ہنس پرا۔
’’ جی ہاں! جوانی مجھے ہی نہیں سب کو یاد آتی ہے لیکن انسان ماضی پر ٹسوے ضرور بہاتا ہے اس سے سیکھتا کچھ نہیں آدمی نے کبھی دوسروں کے تجربے سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ ہمیشہ خود تجربہ کرتا ہے ، ہم کرتے ہیں غلطیاں اور نام رکھتے ہیں تجربہ ۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ زندگی کے سبق ہمیں اس وقت ملتے ہیں جب وہ ہمارے لئے بیکار ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو دنیا کے بدترین کام ہمیشہ بہترین نیت کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔‘‘
محمد شریف (یہ لوگ ہمیشہ اپنا صحیح نام چھپاتے ہیں) ایک گٹھیلا نوجوان ہے وجیہہ ہے عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ، یہی کوئی بیس بائیس برس کے پیٹے میں ہوگا، ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر سات آٹھ نوجوانوں کی ایک منڈلی کھڑی ہوتی ہے۔ سبھی حراف ہیں اور یہ اُن کا سرخیل ہے، بڑا خوش اخلاق ہے۔ شہری پنجابی اور گلابی اُردو خوب بولتا ہے ، اس پیشہ پر برہم نے اُسے کئی دفعہ ٹوکا ، پہلے تو عام عذر کرتا رہا کہ بیکاری ہے، پیٹ پالنا ہے ، چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں، باپ مر چکا ہے ماں بوڑھی ہے۔ پھر ایک اور شخص سے پتہ چلا کہ اچھے گھرانے کا نوجوان ہے پہلے گھر کی پونجی ہر ہاتھ صاف کیا اور عیاشی کرتا رہا، جب بڑے بھائی نے نکال دیا تو اپنی ’’ محبوبہ‘‘ کے ہاں رہنے لگا۔ کچھ دنوں اس کی دلالی کرتا رہا اب تقریباً سبھی کوٹھی خانہ کا گماشتہ ہے ، اس قلب ماہیت نے اس کے خیالات پلٹ ڈالے ہیں ، وہ گناہ کے تصور کو محض گفتگو کی چیز سمجھتا ہے، اُس کا خیال ہے جو چیز چوری چھپے کی جاتی ہے وہ گناہ ہے ۔ورنہ اس کے علاوہ گناہ کا تصور محض اضافی ہے ۔
شریف کا کہنا ہے جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کی صورتیں زمانے کے لئے ضرور خوف یا تقدس پیدا کرتی ہیں لیکن ہماری لیے نہیں ، اس حمام میں بڑے بڑے لوگ ننگے ہیں ۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کون آتا اور کون جاتا ہے، جب رات کے گیارہ بجتے ہیں تو شاہی مسجد کی پیٹھ کی سڑک پر رنگ برنگ کاریں آتی اور مال لے کر اُڑ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ جو لوگ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتے وہ کوٹھیوں یا ہوٹلوں میں چلے جاتے ہیں۔ بعض سیرو تفریح ہی میں خوش ہو لیتے ہیں۔بعض دریا کا کنارہ ڈھونڈھتے اور بعض شہر کی طرف نکل جاتے ہیں وغیرہ۔‘‘
یہ بستی تو ثواب کے تصور ہی سے خالی ہے ‘‘ اُس نے کہا ’’ چوری کرنا جرم نہیں پکڑے جانا جرم ہے۔ سب لوگ گناہ کرتے ہیں۔ کوئی چھپ کے کرتا ہے ، کوئی کھلم کھلا ، کچھ اخلاقی یا قانونی دیواریں ہیں جو درمیان میں چُن دی گئی ہیں ، جو لوگ ان دیواروں کو پھاند جاتے ہیں ان کا گناہ گرفت سے باہر ہو جاتاہے ، جوان دیواروں پر کھڑے رہتے ہیں وہ گناہ و ثواب کی گرفت میں رہتے ہیں اور جوان دیواروں سے اس طرف ہوں وہ بے قید ہوتے ہیں۔‘‘
’’ تمہیں کیا ملتا ہے؟‘‘
’’ صرف گذر اوقات ہوجاتی ہے ، ملے گا کیا؟ اس پیشہ میں کوئی عزت تو ہے نہیں۔‘‘
’’ عجیب بات ہے تم لوگ ذلت کا اقرار بھی کرتے ہو اور پھر اسی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ ‘‘
’’ جی ہاں ! لیکن اس میں ہمارا قصور نہیں ایک تو سوسائٹی ایسی ہے دوسری جب ہڈیوں میں حرام سرایت کرجاتا ہے تو غیرت یا احساس غیرت ختم ہوجاتے ہیں بوئی جی دار ہو تو پانچ دس روپے دے جاتا ہے ورنہ ان عورتوں سے دس فی صد کمیشن مشکل سے ملتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس پیسہ نہیں رہا۔ ورنہ مشتاقوں کی قطاریں بندھی رہتی ہیں۔ اب کوئی اکا دکا آنکلتا ہے یا ضرورت مند لوگ رشوت و سفارش کے لئے لے جاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا آپ لوگ خدا کے غضب کو قریب نہیں لا رہے؟‘‘
’’ جی ہاں ، خدا کا نام تو چاروں طرف بکھری ہوئی مسجدوں میں روز گونجتا ہے، لیکن خدا کا غضب کہیں نظرنہیں آتا، وہ دیکھئے عالمگیر مسجد کھڑی ہے، اُس کا گنبد بھی کھڑا ہے ، اُس کے مینار بھی کھڑے ہیں ، کبھی ان کی اینٹوں کی جنبش نہیں ہوئی، وہ سامنے قلعہ والیوں کی بلڈنگ ہے ناں،دیکھیں اسکی لوح پر لکھا ہے’’ ھذا من فضل ربی‘‘
اسکی بات سن کر منہ بند کرنا بنتا ہے
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)